اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو حضرت انسان کیلئے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اس کائنات کی ہر شے سے فائدہ حاصل کرے
* * * عبدالمنان معاویہ ۔ مدینہ منورہ * * *
آج مسلمان جس بُری طرح زبوں حالی کا شکار ہیں تاریخ کے اوراق ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے بے ساختہ حدیث مبارکہ نمایاںہوتی ہے کہ ایک بار نبی کریم نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا:
’’ اُس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کفار تم پر ایسے ٹوٹیں گے جس طرح بھوکے لوگ کھانے پر ٹوٹتے ہیں۔ ‘‘
صحابہ کرامؓنے استفسار فرمایا کہ یارسول اللہ ! کیا اُس وقت ہم قلیل ہونگے۔ نبی اکرم نے فرمایا :
’’ نہیں! اُس وقت تمہارے دلوں میں وہن آچکا ہوگا۔‘‘
صحابہ کرامؓ نے پھر پوچھا کہ یارسول اللہ ! یہ وہن کیا شے ہے تو حضور نبی کریم نے فرمایا :
’’دنیا کی محبت اور موت کا ڈر۔ ‘‘ (مفہوم از حدیث) ۔
آج ہم اپنے اردگرد دیکھنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں تو ہم پر واضح ہو جائے گا کہ واقعی اَب ہم میں وہن آچکا ہے۔ ہم اس مادی دنیا میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہرسُومادیت کا غلبہ ہے اور مادی وسائل کو بروئے کار لاکر جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے ۔ دجالیت فعال ہے اور مسلمان ان چیزوں سے بے خبر ہیں۔ اگر کوئی بھولے بسرے سے بتانے کا جرم کربیٹھے تو اغیار سے پہلے ہم ہی اُس کا تیہ پانچا کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔مغربی افکارسے متاثر اس کار خیر کیلئے ہمہ وقت کمربستہ ہیں اور دوسری شے جس کی وجہ سے ہم ذلیل وخوار ہیں وہ ہمارے مسلمانوں کی اعتقادات کے باب میں حددرجہ کا ضعف ۔
جب ہم مشکل گھڑی میں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے فریاد رس ہونے کے بجائے دیگر مقدس شخصیات کے سامنے گڑگڑاتے ہیں ۔ جب ہم مشرکین مکہ کی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات غیر اللہ میں تسلیم کرتے ہیں ،جب ہم مصیبت میں مبتلاہونے کے بعد مسجد میں جا کر2 رکعت نفل نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے بجائے کسی زندہ پیر قدموں یا مردہ پیر کی قبر پر سجدہ ریز ہونے جاتے ہیں تو اُس وقت یہ کہنا کتنا بے سود ہے کہ ہمارا اللہ ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں کرتا ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کبھی ہم نے اللہ تعالیٰ سے صدقِ قلب سے دُعا کی ہی نہیں۔ ہم تو رسمی عبادت کرتے ہیں اور رسماً ہی دعائیں مانگتے ہیں۔ حجاج بن یوسف کے بارے میں ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک بار وہ خانہ کعبہ کا طواف کررہا تھا، اُس نے سُنا کہ ایک آدمی اللہ تعالیٰ سے دُعا کررہا ہے: یا اللہ مجھے آنکھیں دے دے ،یا اللہ مجھے آنکھیں دے دے۔ حجاج نے ایک دو بار اُس کی دعا سنی تیسری یا چوتھی چکر پر حجاج نے اُس سے کہا کہ میرا جیسا ہی یہ چکر پورا ہوگا اورتمہاری آنکھیں نہ ہوئیں تو میں تمہیں قتل کردوں گا۔ اب اُس شخص کو یقین ہوگیا کہ یہ حجاج ہے ،یہ ضرور مجھے قتل کردے گا ۔پہلے معاملہ آنکھوں کا تھا، اب جان کے لالے پڑ گئے تو اُس نے صدق قلب سے دعا کی ۔اللہ تعالیٰ نے حجاج کے چکر پورے ہونے سے قبل ہی اُسے آنکھوں کی بینائی عطا فرمادی۔ اس واقعہ میں کہاں تک صداقت ہے میں نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ سے صدق قلب سے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی جائز حاجات کو پورا فرمادیتا ہے لیکن شر ط ہے اخلاص سے مانگنے کی ۔
مجھے اس نازک وقت میں ذلت کے اس گڑھے سے نکلنے کی صرف ایک ہی صورت حال نظر آتی ہے اور وہ ہے سید عطا ء اللہ شاہ بخاریؒ کے فرمان کا مفہوم :
’’مسلمان رازی ،غزالی اور انور شاہ کاشمیری کی طرح نہ سہی ،اقبال کی طرح قرآن کریم کا مطالعہ کریں ،اقبال نے قرآن کا مطالعہ کیا تو یورپ کی تہذیب پر دھاوا بول دیا۔‘‘
اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کے بارے میں ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار انہوں نے صرف ایک منٹ تقریر فرمائی جس کے الفاظ یہ تھے:
’’مسلمانوں !کسی شے کا مطالعہ کرو تو خوب سوچ سمجھ کر مطالعہ کرو اور جب تم دیکھ لو کہ یہ بات حق ہے ،صحیح ہے تو پھر اُس بات پر ڈٹ جائو، یہی میری آج کی تقریر ہے۔ ‘‘
تو آج ہم قرآن کریم کی دلجمعی کے ساتھ تلاوت کریں اور اُسے سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے، ہمیں کس طرح دنیا میں رہنے کا درس دیتا ہے لیکن افسوس کہ ہم قصص القرآن کو دل بہلانے کے واقعات سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح طفلِ مہد کو ماں سلانے کیلئے لوری دیتی ہے، اسی طرح حق جل مجدہ ہمیں بھی پُرانے قصے سناتا ہے ۔
قرآن کریم میں واقعۂ معراج کو بیان کرنے کا کیا مقصد تھا؟اور واقعہ معراج کے بیان کا ہماری زندگیوں میں کیااثرات رونما ہونے ہیں، اُن پر نظر ڈالتے ہیں:
’’پاک ذات ہے وہ جو اپنے بندہ کو رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے ارد گرد کو ہم نے بابرکت بنا رکھا ہے تاکہ اس (بندہ ) کو ہم بعض اپنے عجائب (قدرت) دکھائیں، بے شک سمیع وبصیر وہی (اللہ) ہے۔‘‘( بنی اسرائیل1)۔
اس آیت کے ضمن میں مولانا عبدالماجد دریا آبادی ؒ لکھتے ہیں:
’’ "سبحان"وہ ذات ہر نقص اور کمی سے پاک، ہر عجز سے منزہ اورہر قید اور حد بندی سے بالاتر ہے ۔تسبیح کا لفظ لایا ہی ایسے موقع پر جاتا ہے جہاں کسی امر اہم وعظیم الشان کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے ۔’’اسریٰ‘‘کے معنیٰ میں تو خود ہی رات کا سفر داخل ہے ۔السریٰ سیر الّلیل (راغب)لفظ لیلاًبہ صیغہ نکرہ کے اضافہ سے یہ تاکید وتصریح مقصود ہے کہ اتنا بڑا سفر جو عادۃً کئی کئی ہفتہ میں یا 40دن کی مدت میں ممکن نہیں تھا ،فوق العادۃ طور پر رات کی چند گھڑیوںہی میں انجام پاگیا۔‘‘ (کشاف،تفسیر ماجدی)۔
آیت ِ ہٰذا کا آغاز لفظ’’سبحان الذی ‘‘سے کیا جس کے معنیٰ ہیں ’’پاک ہے وہ ذات ‘‘ ۔یہاں بتلانا مقصود یہ ہے کہ کل کلاں کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ نبی اکرم اپنے آپ ہی معراج کے سفر پر روانہ ہوگئے یا اپنی مرضی سے خود بخود معراج پر چل پڑے بلکہ ایسا نہیں ، وہ پاک ذات ہے جس نے اپنے نبی ؐ کو رات کے کچھ حصہ میں معراج کروائی ۔
’’بعبدہٖ ‘‘کے بجائے اللہ تعالیٰ حضور کا اسم گرامی نقل کردیتا یا کوئی صفاتی نام فرمادیتا تو فرما سکتا تھالیکن مالک لم یزل خالق کائنات سے لفظ بعبدہٖ لے کر عقیدۂ بشریت انبیاء کو واضح فرمادیا کہ نبی بھی جنس بشریت سے ہوتا ہے ،ہاںجنس بشریت سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ نبی ہمارے جیسا ہوتا ہے اور اُس کی امتیازی خصوصیت صرف اس کا منصب(نبوت) ہے۔ایسا بھی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے انتخاب کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے منصبِ نبوت کیلئے منتخب فرمالیتاہے۔ بعض حضرات ایسے بھی آپکو ملیں گے جو حضورنبی اکرم کو مختارِکل سمجھتے ہیں حالانکہ واقعہ معراج ہی اس عقیدہ کی نفی کرتا ہے۔ اگر واقعی نبی اکرم مختار کل ہوتے تو معراج کے واقعہ کی ابتداء ’’سبحان الذی اسریٰ‘‘ سے نہ ہوتی لیکن یہ الفاظ بتلارہے ہیں کہ نبی کریم مختارِ کل نہیں ۔ اس واقعہ میں یہ روایات بھی ملتی ہیں کہ اولاً اللہ تعالیٰ نے 50نمازیں فرض کیں پھر نبی کریم سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بار بار فرمانے پر حق تعالیٰ کے پاس گئے تو اُن نمازوں میں تخفیف ہوئی اور 50 کے بجائے 5 نمازیں رہ گئیں تو اگر حضور نبی کریم مختار کل ہوتے تو خود ہی اِن نمازوں میں تخفیف فرمادیتے ،بار بار دربارِ الہٰی میں حاضری نہ دینا پڑتی ۔
پھر کتنی عجیب بات ہے کہ اس عقیدہ کے موجد و مبلغ حضرات اپنے عمل سے ہی اس عقیدہ پر تیشہ زنی کرتے نظر آتے ہیں ۔وہ اس طرح کہ اُن کے اکثر لوگ مسجد نبوی شریف کے ائمہ کے پیچھے نمازیں ادا نہیں کرتے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی اگر نبی کریم مختار کل ہیں جیسا کہ آپ کا عقیدہ ہے تو مسجد نبوی ؐ میں ایسے ائمہ ہوتے ہونگے جو نبی اکرم کے اختیار سے مصلائے رسولپر ٹھہرتے ہونگے، اُن کے پیچھے نماز نہ پڑھناچہ معنی دارد۔ اگر ائمۂ حرمین شریفین عقائد کے لحاظ سے صحیح نہیں تو غیر صحیح لوگوں کو نبی نے اپنے مصلیٰ پر کھڑے ہونے کیوں دیا اور اگر غیر صحیح لوگ مصلائے رسول پر کھڑے ہیں تو مختار کل کا عقیدہ صحیح نہیں ۔
اِسی طرح لفظ ’’بعبدہٖ ‘‘نے یہ واضح فرمادیا کہ نبی اکرم اللہ کے نور میں سے نور نہیں بلکہ ایک عبد ِکامل ہیں۔ اصل میں عیسائیت سے روافض نے’’ نورٌ من نور ‘‘کا عقیدہ لیا اور اپنے ائمہ اثنا ئے عشر کو اللہ تعالیٰ کے نور میں سے نور گرداناحالانکہ یہ عقیدہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ؐ اور اجماعِ امت کے سراسر خلاف ہے۔ امت محمدیہ ؐ میں کسی بڑے سے بڑے فقیہ یا محدث یا مفسر نے اس قسم کا کوئی عقیدہ نقل نہیں کیا تو واضح بات ہے کہ یہ دوست خود ساختہ عقیدہ کو اپنا کر دین اسلام میں تحریف کے مرتکب ہورہے ہیں ۔
واقعۂ معراج کوئی کہانی نہیں بلکہ اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عالم بشریت کی زد میں پوری کائنات ہے اور اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو حضرت انسان کیلئے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اس کائنات کی ہر شے سے فائدہ حاصل کرے۔ کائنات کو مسخر کرنے کا مقصد اگر پوری انسانیت کی بھلائی ہے تو بالکل صحیح اور اگر مسخر کرنے کا مقصد انسانیت پر اپنی دھاک بٹھا کر فرعون بننے کی خواہش ہے تو سراسر غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو راہ ہدایت دکھائے۔ قرآن کریم کو پڑھنے اور پڑھ کر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین یا رب العالمین ۔