Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران کے گلی گلی دورے، نواز شریف کی ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ مہم

آج کی سیاست میں الزامات اور جوبی الزامات کوئی حیرانی کی بات نہیں، دنیا بھر میں انتخابی مہم میں لیڈران اپنے مخالفین کی صورت کو داغ دار کرنا اپنا فرض ِ اوّلین سمجھتے ہیں
صلاح الدین حیدر ۔ ۔بیورو چیف ۔ ۔کراچی
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان ممبر سازی مہم کو یقینی بنانے کے لئے شہر ، شہر ، قصبہ قصبہ، گاؤں،گاؤںکوچہ ،کوچہ اور گلی ، گلی خود پھر رہے ہیں۔ دن میں چار ، چار ،پانچ پانچ جلسے کرتے ہیں۔ ورکز سے خطاب ، ملکی صورتحال پر عوام کو اپنا نقطہ نظر سمجھانا، ان کی پہلی ترجیح ہے۔نواز شریف تو ویسے ہی ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے نام پر پچھلے 8 مہینے سے ملک بھر میں ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میںخاص طور پر جلسوں سے خطاب کررہے ہیں۔ ایسے میں زرداری پیچھے کیوں رہتے، وہ بذات خود اور بیٹا بلاول بھی روز ہی جلسوں سے خطاب کررہے ہیں پھر بھی عوامی سطح پر اور نجی محفلوں میں سوال کیا جاتا ہے کہ انتخابی مہم کسی منشور کی بجائے محض الزام تراشیوں پر مبنی ہے۔ اگر عمران خان نے سندھ میں آصف زرداری کو سب سے بڑی ’’ بیماری‘‘ کہہ کر للکارا تو بلاول کیوں چپ رہتے، انہوں نے بھی پی ٹی آئی کو یاد دلادیا کہ عمران خان کے لوگوں نے سینیٹ الیکشن میں پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا ۔ اب اسے جھٹلا کیسے سکتے ہیں، نواز شریف نے تو عمران خان کا نام ہی الزام خان رکھ دیا ہے۔
آج کی سیاست میں الزامات اور جوبی الزامات کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ دنیا بھر میں انتخابی مہم میں لیڈران اپنے مخالفین کی صورت کو داغ دار کرنا اپنا فرض ِ اوّلین سمجھتے ہیں۔ 2000 ء میںامریکہ کے صدارتی انتخابات میں اس وقت کے صدر جارج بش نے اپنے حریف بل کلنٹن کو یہاں تک کہہ دیاتھا کہ اسے سیاست اور ملک چلانے کا کیا پتہ ہے،اس سے زیادہ تو میرا کتا ان باتوں کو سمجھتا ہے۔ وہاں تو کوئی شور نہیں مچا،1977 کے پاکستانی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مخالفین سڑکوں پر نعرے  لگاتے رہے کہ گنجے کے سر پر ہل چلے گا، گنجا سر کے بل چلے گا، ہل جو کسان کا سب سے اہم ہتھیار ہوتاہے، 9 پارٹیوں کے الحاق سے وجود میں آ نے والے ’’پاکستان جمہوری اتحاد‘‘ کا انتخابی نشا ن تھا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے جواباً نعرہ لگا کہ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو۔
نصرت بھٹو اور پیپلز پارٹی کے دوسرے اہلکار بھی بہت سارے نعرے لگاتے تھے۔ آج اگر الزام تراشی کی سیاست ہورہی ہے تو کوئی نئی بات نہیں۔ اگر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے اعلان کے مطابق 31 مئی تک اسمبلی تحلیل ہوجائے گی تو پھر اس تاریخ سے لے کر 90 دن تک ملک میںایک نگراں حکومت قائم کر دی جائے گی ۔ پی ٹی آئی، پاکستان مسلم لیگ (ن) پی پی پی ،جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام(ف) اور دوسرے دھڑے، عوامی نیشنل پارٹی ، سب ہی منشور پیش کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے پر مجبور ہوں گے۔
********

شیئر: