Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی کھیل کے ثمرات پی پی کی جھولی میں

یہی دیکھنے میں آیا کہ جو پھل پی پی کی شاخ سے ٹوٹتا ہے وہ پی ٹی آئی کی جھولی میں گرتا ہے اور جو پی ٹی آئی کے شجر سے گرا وہ پی پی کے ہتھے چڑھتا ہے
* * * *
سید شکیل احمد
 * * * *
    حید رآبا د میں میڈیا سے گفتگو کر تے ہوئے پی پی کے چیئرمین بلا ل بھٹو زرداری نے کہا کہ ادارے دوسرے ادارو ں میں مداخلت کر یں تو کمزور ہو جا تے ہیں۔ عدلیہ اپنا کا م کرے اور سیا ستد انو ں کو اپنا کا م کرنے دے۔ انھو ں نے کہا کہ جو ڈیشنل ایکٹو ازم کم ہو نا چاہیے۔ بلا ول زرداری نے مسلم لیگ (ن )پر الز ام دھرا کہ ہمیشہ اس نے ادارو ں کوکمزور کیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلا ول بھٹو زرداری کے بیان کا جائزہ حال ہی میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملا قات کے پس منظر میں ہی لیا جا سکتا ہے۔ اس وقت پا کستان میں عام انتخابات کیلئے الٹی گنتی شرو ع ہوگئی ہے اور پاکستانی سیا ست کے رواج کے مطابق سیا سی جما عتو ں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزاما ت ، بہتا ن تر اشی کے تیر بر سانے کی موسلا دھا ر بارش کا بھی آغا ز ہو گیا ہے ۔ مہذ ب قوموں میں جہاں ایسے حالا ت ہوں یعنی انتخابی زما نہ شروع ہو تا ہے تو سیا سی جما عتیں انتخابات کی تیا ریا ں اپنی اپنی پا رٹی کے منشور کو اجا گر کرنے کیلئے  بھرپور تگ ودود شروع کر دیتی ہیںتاکہ عوام ان کے پروگرام کو پر کھ کر انھیں ووٹ دیں مگر پاکستان میں سیاسی  دشنام طر ازیو ں  اور الزام تر اشیوں کو فروغ دیا جا تا ہے۔ بلا ول بھٹو کی میڈیا سے بات چیت اس نکتہ نظر سے ہٹ کر تھی اور ایک طر ح سے وفاقی حکومت کی حمایت پر مشتمل تھی ۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملا قات کا سبب بھی یہی تھا
        اگرچہ وفاقی حکومت اور عدلیہ کی جانب سے ملا قات کی وجو ہ ، اور اسباب کے بارے میں کھل کر کچھ نہیں کہا گیا مگر جیسے ہی ملا قات کی خبر سامنے آئی اسی وقت سیا سی مخالفین کی جانب سے اس ملا قات کو بلا سوچے سمجھے متنا زعہ بنا نے کی مساعی کی گئی ۔عمران خان نے تو فوری تیر پھینکا کہ کوئی نیا این آر او نہیں ہونے دیا جائے گا حالا نکہ سا دہ سے سادہ دما غ کا حامل شخص بھی اتنی سمجھ بو جھ رکھتا ہے کہ این آراوحکومت اور سیاست دانوں کے مابین ہو ا کرتا ہے یا کسی پو شید ہ قوت سے ہو ا کرتا ہے۔ عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان صر ف رشتہ آئین اور قانو ن اور ادارو ں کا ہو تا ہے۔ اسی بنا ء پر مولا نا فضل الرحمان کو کہنا پڑا کہ اس ملا قات کو متنا زعہ نہ بنا یا جا ئے ۔
         عمر ان خان کہہ رہے ہیں کہ وہ نئے این آراو کو تسلیم نہیں کر ینگے۔ وہ یہ کیسی بات کررہے ہیں حال میں جو نیا این آر او منظر عام پر عملا ًآیا ہے وہ خو د اس کے حصہ دار بنے انھو ں نے بلو چستان میں بننے والی نئی حکومت کی تائید کی اور یہا ں تک کہ اپنے تما م سینٹر وں کی ڈور ان کے ہا تھ میں تھما دی۔ خو دکے ہاتھ کیا آیا تو اس بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جس این آر او کے ذریعے انھو ں نے پی پی سے وزیر اعلٰی بلو چستان کے دستانے پہن کر ہاتھ ملالئے۔ آصف زرداری بقول خان صاحب کے سب سے بڑی بیما ری سے ہا تھ ملایا جب دستانے اتارے گئے تو ہا تھ اسی طر ح خالی نکلے جس طرح پہلے تھے۔ عمر ان خان کو گما ن تھا کہ وزیر اعلٰی بلو چستان کے دستانوں کے ذریعے ان کو ڈپٹی چیئر مین کی نشست نہیں نو ازی گئی تو کیا ہوا اپوزیشن کے قائد کی سیٹ پر تحریک کا نمائندے براجما ن ہوجا ئے مگر وہ بھی ہا تھ نہیں لگی۔اگر چہ عمر ان خان کے ساتھ یہ بڑی زیا دتی رہی ، ان کے ذریعے سینیٹ کی دونو ں اہم ترین نشستیں حاصل کر نے کے بعد چاہیے تھا کہ اپو زیشن کے قائد کی نشست معاوضہ میں نہ سہی تحفہ میں ہی ادا کر دی جا تی ۔
    اب نو از شریف سو ات کے جلسے میں پھبتی کس رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ الزام خان کی چھٹی ہو نے والی ہے۔ پتہ نہیں کس گما ن میں کہہ رہے ہیں۔ شاید سینیٹ کے اہم عہد و ں کے پس منظر میں بات کررہے ہیں ۔ سینیٹ کے ارکان کے انتخا با ت سے سینیٹ کے لیڈر آف اپو زیشن کے انتخابا ت تک جو ہو ا اس کے بعد بھی یہ سوچنا کہ چھٹی ہونے والی ہے نہ سمجھی ہے۔ اس کو سیا سی بصارت نہیں کہا جا سکتا ۔ عمران خان جس طر ح نعر ہ لگا تے ہیں کہ تبدیلی آرہی نہیں ہے بلکہ تبدیلی آگئی ہے گویا چھٹی ہو رہی نہیں ہے ہو گئی ہے ۔سینیٹ کے انتخابات نے دکھا دیا کہ کس کو کس مقام پر کھڑ اکر دیا گیا ہے۔ اس کے علا وہ آصف زرداری نے عملا ًثابت کر دیا ہے کہ ہاتھی مر کربھی لاکھ کا نہیں سوالا کھ کاہو جا تا ہے۔ہا تھی کی قیمت اس کی جسامت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے قیمتی اعضا ء کہ بنا ء پر بڑھتی ہے ۔
    جہا ں تک سینیٹ کے انتخا بات میں اصطبل بکنے کا تعلق ہے تو اس میں سب سے بڑا اصطبل پی ٹی آئی کا بکا ہے جس اس وقت عمر ان خان کے گلے پڑا ہو ا ہے۔ عمر ان خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ نوجو انو ں کی اکثریت کو ٹکٹ دینگے مگر انھو ں نے عام طبقہ سے تعلق رکھنے والو ں کو بری طر ح نظر انداز کیا اور ارب پتی لو گو ں کو ٹکٹ دئیے۔ ان کی سیا ست اب عوامی بھر وسے کی نئی رہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گھڑ ریس میں ٹکٹ اسی پر لگا یا جا تا ہے کہ جس کی امید ہو تی ہے کہ یہ جیت جائے گا۔ گھڑ ریس میں بھی ہا ر جیت ملی بھگت سے کی جا تی ہے۔ اس وقت عمر ان خان اپنی پا رٹی کے بکے ہوئے گھوڑوں سے عوام کی نظر بچانے کیلئے دوسری جما عتوں پر ہا ر س ٹریڈنگ کے الزامات لگا رہے ہیں۔ اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کے اقداما ت نہیں کر رہے ہیں کیو ں کہ وہ جانتے ہیں کہ جو بکے ہیں ان کے خلا ف کارروائی کرنے سے عبوری حکومت کا پلان فیل ہو جا ئے گا ۔ ادھر ان کی پارٹی کے12ارکان اعلان بغاوت کر دیا ہے جو مصیبت کا ایک الگ سے پھند ہ بن گیا ہے ۔
     اس سارے کھیل میں ثمر ات پی پی کی جھولی میں گر رہے ہیں گزشتہ 5 سال سے سیا ست کے با غ میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو پھل پی پی کی شاخ سے ٹو ٹتا ہے وہ تحریک کی جھولی میں گرتا ہے اور جو پی ٹی آئی کے شجر سے گر تا ہے تو پی پی کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ مسلم لیگ کے درخت کی  پر نہ ہر یا لی ہے نہ سوکھا ہے تاہم بلا ول بھٹو نے جو ڈیشنل ایکٹو ازم کے بارے میں بیان دیا ہے۔ یہ ان کی عمدہ بلا غت کی دلیل ہے یہی فریا د وزیر اعظم پاکستان لے کر گئے تھے جس کا فریا د ی کہا کر تمسخر اڑا یا گیا ۔
مزید پڑھیں:- - - -  -مصنوعی قیادت

شیئر: