Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دوما پر کیمیکل حملے نے بین الاقوامی محاذ آرائی کا در کھول دیا

عبدالوہاب بدر خان ۔ الحیاة
جب سے بشار الاسد کے حکومت نے شامی علاقے دوما پر کیمیکل حملہ کیا ہے تب سے مذکورہ شہر اور اس کے باشندوں کے انجام کی بابت پوری دنیا میں نہ تھمنے والی بحث چھڑ گئی ہے۔ انہیں بچانے کی مہم فیل ہوچکی ہے۔ سبب یہ ہے کہ روسیوں ، ایرانیوں اور بشار الاسد کے حامیوں کو جنگبندی کے بین الاقوامی فیصلے کو پس پشت ڈالنے پر کسی سرزنش کے بغیر آزاد چھوڑ دیا گیا تھا۔ ڈھونگ رچایا گیا تھا کہ مشرقی الغوطہ اور اس کے باشندوں کو بشار الاسد نظام کے حملوں سے بچایا جائیگا۔ بین الاقوامی فریقوں نے یہی عندیہ دیا تھا ۔ اس حوالے سے شہریوں کے تحفظ کے نام پر سفارتی معرکہ بھی لڑا گیا۔یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی گئی کہ بین الاقوامی دباﺅ روس اور اسکے اتحادیوں کو لگام لگانے میں کامیاب ہوجائیگا۔انہیں شام کے مستقبل کا تنہا فیصلہ کرنے کیلئے نہیں چھوڑدیا جائیگا۔اس ماحول میں کسی کو یہ توقع نہ تھی کہ تنہا دوما کو شامیوں ،ایرانیوں اور روسیوں کا لقمہ تر بننے کا موقع حاصل ہوگا۔ دوما کا دفاع کرنے والے اس فریب میں مبتلا رہے کہ روسی مذاکرات کاروں نے جو تاثر دیا ہے اُس کی بدولت ان کے ساتھ کوئی غیر معمولی دھوکہ نہیں ہوگا۔ 
شہر کا دفاع کرنے والے یہ بھول گئے تھے کہ روس نے جب جب اور جہاں جہاں ناجائز قبضے کئے، وہاں اس نے واردات سے قبل کچھ تاثر دیا اور موقع ملنے پر اپنا ہاتھ دکھا دیا۔حقیقت یہی ہے کہ روس نے ایران -بشار الاسد کھیل سے نکلنے کی بابت کبھی سوچا ہی نہیں۔ انہوں نے شامی باشندوں کے تحفظ کی کسی ضمانت کا اہتمام نہیں کیا۔ 
سوال یہ ہے کہ ایسے ماحول میں جبکہ روسی ”جیش الاسلام“گروپ کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے، ایسی حالت میں جبکہ جیش الاسلام کے قائدین شکست تسلیم کرچکے تھے اور وہ دوما شہر کے باشندوں کے تحفظ کے سوا کسی اور بات کا مطالبہ نہیں کررہے تھے،ایسے عالم میں بشار الاسد کے نظام نے دوما شہر پر کیمیکل اسلحہ کیوں استعمال کیا؟اس سے پتہ چلتا ہے کہ روسیوں کو دوما کے باشندوں کے تحفظ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور وہ جیش الاسلام گروہ کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات صرف اور صرف لڑائی بندکرانے کیلئے کررہے تھے۔ انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ جنگبندی کے ساتھ کس کے ساتھ کیا ہوگا۔زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ روسی دوما کے باشندوں کو سلامتی کی عملی ضمانت فراہم کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے۔ دوما میں انکی موجودگی علامتی تھی۔ وہاں وہ بشار الاسد نظام کی منظوری سے تھے۔ اس کا ثبوت جنگبندی کے بعد متعلقہ علاقے کے شہریوں، قصبوں اور زرعی فارموں میں ہونیوالی لوٹ مار اور ماردھاڑ کے واقعات سے ملتا ہے ۔افسران نے وہاں جو کچھ کیا، اسے کیمروںنے محفوظ کرلیا۔شامی انتظامیہ کے افسران جس انداز میں وہاں سرگرم تھے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں نہ تو روسی مبصرین کی موجودگی سے کوئی تشویش تھی اور نہ ہی روسی فوج کا انہیں کوئی احساس تھا۔ایسا لگتا ہے کہ شامی حکومت نے دوما کے باشندوں کے خلاف زہریلی گیس استعمال کرکے دوما کے مذاکرات کاروں کے عزم و حوصلے پر وار کیا۔شامی نظام حکومت کے کرتا دھرتا مذاکرات کاروں کو اجتماعی موت کا ذمہ دار بھی ٹھہرانا چاہتے تھے۔ایسا لگتا ہے کہ شامی نظام نے دوما پر جو کیمیائی ہتھیار استعمال کئے وہ روسی صدر کی لاعلمی میں کئے۔ اس حملے کے باعث روسی صدر کی پوزیشن پیچیدہ ہوگئی ہے۔ایک طرح سے انہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کیمیائی ہتھیار کے استعمال کا جواب دینے پر مجبور کردیا ہے۔ بشار الاسد کے نظام نے نیا حملہ ایران کی شہ پر کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران ہی نے اس حملے کا حکم جاری کیا تھا۔ 
اگر امریکہ کیمیکل ہتھیار کے استعمال کاجواب دینے پر ہی اکتفاکرلے تو اس سے روسی صدر کو کسی طرح کی پریشانی نہیں ہوگی۔ انہیں پتہ ہے کہ روس ہو یا امریکہ دونوں میں سے کوئی بھی فوجی کارروائی بین الاقومی قانون کے احترام یا محض انسانی جذبے کے تحت نہیں کرتا،اور بھی اسباب ہوتے ہیں۔ اگر امریکہ روس پر یہ الزام لگا رہا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی کارروائی کو معطل کررہا ہے تو روس بھی امریکہ پر اسی طرح کے الزامات عائد کرسکتا ہے۔وہ کہہ سکتا ہے کہ فلسطینیوں کے بالقصد قتل پر اسرائیل کی مذمت کی ہر قرارداد کو امریکہ ویٹو کرتا رہا ہے۔ ویٹو کا اِدھر اور اُدھر سے مسلسل استعمال دنیا بھر کو واضح پیغام دیتا رہا کہ بین الاقوامی انسانی قانون نمائش کیلئے ہے عملدرآمد کیلئے نہیں۔
روس نے تاریخ میں پہلی بار اسرائیل پر شامی ہوائی اڈے پر حملے کا الزام عائد کیا ۔ بنیادی طور پر مذکورہ ہوائی اڈہ ایران کے زیر استعمال تھا جہاں میزائل شکن سسٹم نصب کیا گیا تھا ۔ اس صورتحال نے روس کو بین الاقوامی محاذ آرائی کے دائرے میں داخل کردیا ۔ آئندہ ہونیوالے معرکے 2بنیادوں پر ہونگے۔ پہلا تو یہ کہ بشار الاسد کی منظور ی سے شام میں دخل انداز تمام فریق ایک طرف ہونگے دوسرا یہ کہ فیصلہ کن فوجی کارروائی ہو اور سیاسی صورتحال جوں کی توں برقرار رہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: