دیکھنا ہے کہ ن لیگ کے صدر شہباز شریف معاملات کیسے حل کرتے ہیں
* * * *
صلاح الدین حیدر ، بیورو چیف۔ کراچی
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حلیف ، خاص طور پر مولانا فضل الرحمن ، میر حاصل بزنجو اور محمود خان اچکزئی حکمران جماعت کے لیے درد سر بنتے جارہے ہیں۔ اس بات کا اظہار کئی ایک طرف سے کیا گیاجس میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار ، مشہور و معروف دانشور مجیب الرحمن شامی اور آرمی تک شامل ہیں۔
بحث کا آغاز چوہدری نثار کے ٹیلی ویژن انٹرویو سے ہوا جس میں انہوں نے سخت الفاظ میں (ن) لیگ اور محمود خان اچکزئی کے اختیار ات پرتنقید کی۔ ان کا کہنا تھا مسلم لیگ کا نظریہ اور ہے جبکہ محمودخان اچکزئی کا نظریہ بالکل مختلف۔ دونوں میں کوئی قدرمشترک نہیں،پھر دونوں میں اتحاد کیسا ؟ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر انچیف مجیب الرحمن شامی جو کہ نواز شریف کے خاص قریب سمجھے جاتے ہیں، چوہدری نثار کی باتوں سے اتفاق کیالیکن ان کا کہنا تھا کہ اتحادِ عمل اور اشتراکِ عمل میں بہت فرق ہے۔ اشتراکی عمل مختلف نظرئیے رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے لیے کسی نقطے پر ہمیشہ ہی ہوتا رہا ہے۔
ً یہ صحیح ہے کہ مسلم لیگ نظریۂ پاکستان یا اسلام پر یقین رکھتی ہے جبکہ اچکزئی صاحب ایک تنگ پختون نظرئیے کی حمایت کرتے ہیں لیکن پھر بھی جمہوریت کے لیے دونوں میں اتفاق کوئی نئی بات نہیں ۔ ماضی میں جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی رحمہ اللہ نے جو کہ خالص اسلامی نظریہ کے حامل تھے، کمیونسٹ پارٹی جو کہ بالکل مختلف رائے رکھتی ہے، سے انسانی حقوق کے لیے اشتراک کیا۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے مفتی محمود سے اشتراک کیا اور انہیں موجودہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کی اجازت دی۔بالکل اسی طرح جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن حکومتی حلیف ہیں لیکن قبائلی علاقہ جات کو کے پی کے میں شمولیت کے سخت مخالف،میر حاصل بزنجو جو نواز شریف کابینہ میں پورٹ اینڈ شپنگ کے وزیر تھے، کا بیانیہ بالکل مختلف ہے، وہ محمود اچکزئی کے نظرئیے پر یقین رکھتے ہیں۔
چوہدری نثار کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم لیگ، خواہ وہ ن لیگ یا شین لیگ ، یا کسی اور نام سے پکاری جائے، وہ 34 سال سے اسکے ممبر ہیں، ایک سال پہلے وزارت سے استعفیٰ دینے کے باوجود وہ آج تک مسلم لیگ کے ممبر ہیں لیکن انہوں نے ایک بات اور زور دے کر کہی کہ (ن) لیگ کا کوئی بیانیہ ہونا چاہیے جو کہ پارٹی کی ورکنگ کمیٹی سے منظور شدہ ہو، محض ایک فرد کا بیانیہ نہ ہو ۔ ان کا اشارہ غالباً نواز شریف یا مریم نواز کی طرف تھا جو کہ عدالتوں اور افواج پاکستان پر مستقل حملے کر رہے ہیں۔ سابق وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ان کے بارے میں منفی بیانات کا سلسلہ جاری رہا تو وہ بہت زیادہ عرصے خاموش نہیں رہیں گے لیکن افواج پاکستان نے یہ بات زور دے کر کہی کہ قبائلی علاقہ جات کو جمہوری علاقوں سے جتنا جلد منسلک کیا جائے اتنا ہی ملک کے لیے سود مند ہوگا۔ ملٹری نے بہت سارے علاقوں کو دہشت گردوں سے صاف کردیا ہے لیکن اب وہاں کے لوگوں کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیں تاکہ وہ بھی اپنے آپ کو وطن کا حصہ سمجھیں اور سیاست کے دھارے میں سب کے ساتھ مل کر چلیں، اب سوال یہ ہے کہ موجودہ (ن) لیگ کے صدر شہباز شریف کیسے معاملات حل کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں:- - - - -عدالتی فیصلے سے سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئیگی