شعبان کے نفلی روزے،آپﷺ کی سنت
ماہ ِ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم کے ہیں البتہ آپ نے محرم سے بھی زیادہ شعبان کے روزے رکھے ہیں
* * * *محمد منیر قمر۔ الخبر* * *
ماہ ِ شعبان سے متعلقہ بعض موضوعات کی وضاحت کردینا مناسب لگتا کہ اس ماہ میں کون کون سے اعمال مسنون ہیں ؟اور وہ کون کون سے افعال ہیں جو نہ صرف یہ کہ مسنون نہیں بلکہ بدعات ہیں ؟۔ اسی طرح اس ماہ کی درمیانی یعنی نصف شعبان کی رات کی حقیقت کیا ہے ؟ اس دن کا روزہ رکھا جاتا ہے اور اس رات میں جو ایک مخصوص نماز ادا کی جاتی ہے ،اس کی شرعی حقیقت کیا ہے ؟۔
دیگر اُمور کے سلسلہ میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ نبی اکرم اس ماہ کے کسی خاص دن کو مقرر کئے بغیر اس میں بکثرت نفلی روزے رکھتے تھے، حضرت عائشہؓ سے مروی ہے :
’’نبی نفلی روزے اس کثرت سے رکھتے کہ ہم کہتے کہ شاید آپ کسی دن کا روزہ بھی نہیں چھوڑیں گے اور کبھی مسلسل روزے نہ رکھتے تو ہم سمجھتے کہ آپ کبھی نفلی روزہ نہیں رکھیں گے۔ میں نے آپ کو کسی بھی ماہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے رمضان کے اورمیں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی ماہ کے روزے رکھتے نہیں دیکھا ‘‘(بخاری)
اس موضوع کی احادیث صحاح و سنن میں بکثرت ہیں جن میں سے بعض میں تو کُلِّہٖ کے الفاظ بھی ہیں کہ آپ پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے مگر اُس کل سے مراد اکثر ہے نہ کہ مکمل مہینہ کیونکہ صحیح مسلم و نسائی میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے :
’’نبی جب سے مدینہ طیبہ آئے ،سوائے رمضان کے آپ نے کسی ماہ کے پورے روزے کبھی نہیں رکھے ‘‘(مسلم مع النووی) عربوں میں ویسے بھی اکثر پر کل کا لفظ بولا جانا معروف ہے ،چنانچہ امام ترمذی ؒ نے امام عبد اللہ ابن المبارک ؒ سے نقل کیا ہے :
’’کلامِ عرب میں یہ جائز ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ماہ کے اکثر دنوں کے روزے رکھے توکہا جاسکتا ہے کہ اس نے سارے ماہ کے روزے ر کھے ‘‘(ترمذی مع التحفہ)
یہ بات تقریباً ہر زبان میں ہی معروف ہے۔
صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباس ؓسے بھی مروی ہے :
’’نبی نے رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے روزے کبھی بھی پورے نہیں رکھے ‘‘۔
اسی حدیث ِ شریف میں آپ کے نفلی روزوں کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’آپ کبھی اس تسلسل سے روزے رکھتے چلے جاتے کہ کہنے والا کہتا : اللہ کی قسم ! آپ کوئی روزہ نہیں چھوڑیں گے اور آپ جب روزے ترک کرتے تو مسلسل ترک ہی کئے جاتے حتی کہ کہنے والا کہتا :واللہ! آپ تو کبھی بھی نفلی روزہ نہیں رکھیں گے‘‘ (بخاری مع الفتح)
ان اور ایسی ہی دوسری احادیث کا مجموعی مفاد یہ کہ آپ حسب ِ موقع اور حسب فرصت کبھی مسلسل روزے رکھتے چلے جاتے اور کبھی مسلسل چھوڑ تے ہی چلے جاتے جبکہ ہر ماہ کے ایام ِ بیض یعنی چاند کی 13 ،14 اور 15 تاریخ کے اور ہر ہفتہ میں پیر اور جمعرات کے روزے بھی رکھا کرتے تھے ۔
ماہ ِ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے تو ماہ ِ محرم کے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم اور دیگر کتب ِ حدیث میں وارد ہے البتہ آپ نے محرم سے بھی زیادہ شعبان کے روزے رکھے ہیں اوراس کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ آپ کو ماہِ محرم کے روزوں کا شعبان کے روزوں سے افضل ہونا بعد میں بتایا گیا ہو اور عمر کے آخری حصہ میں اس بات کا علم ہونے کی وجہ سے آپ اس کے بکثرت روزے نہ رکھ سکے ہوں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اتفاق سے ماہِ محرم میں سفر اور مرض وغیرہ کے عذر کی وجہ سے اس کے روزوں کی کثرت نہ فرما سکے ہوں ‘‘۔ علامہ یمانی امیر صنعانی ؒ نے سبل السلام میں لکھا ہے :
’’اس بات کا جواب یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ ماہِ محرم کے روزوں کی فضیلت حرمت والے مہینوں میں سے سب سے زیادہ ہو ، یعنی عام مہینوں کی نسبت سے تو شعبان کے روزے افضل ہوں مگر حرمت والے4 مہینے ذو القعدہ، ذو الحجہ ، محرم اور رجب اس سے مستثنیٰ ہوں ، کیونکہ ان 4 مہینوں کی فضیلت ماہِ رمضان کے سوا دوسرے عام مہینوں سے ویسے ہی زیادہ ہے اور پھر ان زیادہ فضیلت والے مہینوں میں سے بھی ماہِ محرم کے روزے زیادہ فضیلت والے ہوں‘‘ ۔
نبی کے ماہِ شعبان کے اکثر روزے رکھنے کی متعدد وجوہ بیان کی گئی ہیں ، حتیٰ کہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں ، علامہ یمانی ؒ نے سبل السلام میں اور دیگر شارحین نے اپنی اپنی کتب میں بعض روایات بھی نقل کی ہیں جن میں اس کا سبب بھی مذکور ہے مگر وہ چونکہ ضعیف روایات ہیں لہٰذا اُن سے قطع نظر اس سلسلہ میں صحیح ترین حدیث وہ ہے جو کہ ابو داؤد و نسائی اور صحیح ابن خذیمہ میں ہے جس میں حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم سے پوچھا ، اے اللہ کے رسول ! ’’میں نے آپ کو ماہِ شعبان جتنے نفلی روزے کسی دوسرے مہینے کے رکھتے نہیں دیکھا تو نبی اکرم نے فرمایا :’’یہ ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں۔ یہ مہینہ وہ ہے کہ جس میں لوگوں کے اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیںاور میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا عمل ایسی صورت میں اٹھایا جائے کہ میں روزے کی حالت میں ہوں ‘‘ ۔(فتح الباری و سبل السلام)
ماہِ شعبان میں نبی کے بکثرت روزے رکھنے کی ایک حکمت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ایامِ بیض اور پیر و جمعرات کے روزے آپ اکثر رکھا کرتے تھے اور کبھی بعض وجوہ کی بنا پر مسلسل یہ روزے نہ رکھ سکتے تو ان کی کمی پوری کرنے کے لئے آپ شعبان کے اکثر روزے رکھ لیتے تھے۔ اِسی مفہوم کی ایک حدیث بھی طبرانی اوسط میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے ،مگر و ہ ضعیف ہونے کی وجہ سے نا قابلِ استدلال ہے۔
ماہِ شعبان میں کثرتِ صیام کی ایک توجیہ یہ بھی منقول ہے کہ نبی کی ازواجِ مطہراتؓ ماہِ رمضان میں قضا ہونے والے روزے آپ کے موجود ہونے کی وجہ سے مؤخر کرتی رہتیں ، حتیٰ کے شعبان آجاتا تو وہ اپنے قضاء شدہ روزے رکھتیں، ساتھ ہی نبی بھی نفلی روزے رکھ لیا کرتے تھے۔ (فتح الباری و سبل السلام)
بہر حال آپ ماہ ِ شعبان میں بکثرت روزے رکھا کرتے تھے ۔ نبی کی ہر سنت مبنی بر حکمت اور کسی نہ کسی برائی کو دور کرنے والی ہے۔ عربوں میں ڈاکہ اور رہزنی عام تھی مگر حرمت والے4مہینوں میں وہ بھی ان افعال سے رک جاتے تھے اور ماہ ِ رجب کے حرمت والا مہینہ ہونے کی وجہ سے اس میں وہ رکے رہتے اور شعبان کے شروع ہوتے ہی اِدھر اُدھر منتشر ہوجاتے تھے۔ اس ماہ کا نام شعبان رکھا جانے کی وجہ دیگر وجوہ کے علاوہ ایک یہ ’’ منتشر ہوجانا ‘‘ بھی ہے ،جیسا کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے :
’’ ماہِ شعبان کا یہ نام انکے پانی کی طلب یا لڑائی و لوٹ مار و غیرہ کے لئے منتشر ہوجانے کی وجہ سے ہی رکھا گیا ،یہ چیزیں وہ رجب کے گزر جانے کے فوراً بعد ہی وہ شروع کر دیتے تھے ۔ یہ وجۂ تسمیہ سب سے اولیٰ ہے ،اگرچہ اور بھی کئی ذکر کی گئی ہیں ‘‘ (فتح الباری )۔
نبی نے انکی ان حرکات اور افعالِ قبیحہ کے مقابلے میں روزے رکھنے کی سنت قائم فرمائی جس میں ترک ِ طمع و لالچ ، ضبطِ نفس اور فاقہ کشی کی ریاضت ہے جس سے غارت گری ، لوٹ مار اور ظلم و تعدّی کی عادات خود بخود چھوٹ جاتی ہیں ۔
ماہ ِ شعبان کے روزے مطلق ہیں نہ کہ خاص15شعبان کا روزہ کیونکہ خاص15 شعبان کے بارے میں پائی جانے والی روایت ضعیف ہے، جس کی قدرے تفصیل بھی ہم تھوڑاآگے چل کر ذکر کریںگے۔ یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ15شعبان کے بعد نفلی روزے نہیں رکھنے چاہئیں،جیسا کہ ارشاد ِ نبوی ہے :
’’جب نصف شعبان ہوجائے تو بعد میں روزے نہ رکھویہاں تک کہ ماہ ِ رمضان داخل نہ ہوجائے ‘‘(صحیح ابی داؤد)
المرقاۃمیں ملا علی قاری ؒ کے بقول ،اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ شعبان کے روزے چاہے کتنے ہی فضیلت والے کیوں نہ ہوں مگر ہیں تو نفلی ،جبکہ آگے رمضان المبارک کے فرض روزوں کا مہینہ ہے،لہٰذا اُس کی تیاری کے لئے قوت جمع کی جائے تاکہ کہیں آدمی کمزوری و ضعف کا شکار نہ ہوجائے اور کہیں اُس مہینہ کے فرض روزوں میں قضاء کی نوبت نہ آجائے۔ (المرقاۃ بحوالہ تحفۃ الاحوذی )
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒلکھتے ہیں : ’’ شعبان میں کثرت ِ صیام کی فضیلت یا نبی کے کثرت ِ صیام کی سنت اور نصف ِ ثانی کے روزوں کی ممانعت میں کوئی تعارض و تضاد نہیں۔ ان دونوں باتوں میں یوں مطابقت پیدا کرنا ممکن ہے کہ یہ ممانعت اُن لوگوں کے لئے ہے جو عموماً سال بھر کے دَوران روزے رکھنے کے عادی نہ ہوںاور کسی وجہ سے شعبان کے نصف ِ ثانی میں شروع کردیں ،جبکہ ہر ماہ میں جو شخص ایّام ِ بیض ، ہر ہفتہ میں پیر و جمعرات یا ہر دوسرے دن کا روزہ یعنی صوم ِ داؤدی رکھنے کا عادی ہو، اُسے اِن ایام میں روزے رکھنے کی بھی ممانعت نہیں ہوگی ، لہٰذا دونوں طرح کی احادیث کا تعارض ختم ہوگیا ‘‘
اسی طرح ہی ماہ ِ رمضان سے ایک یا دو دن قبل روزہ رکھنے کی بھی ممانعت ہے۔ (دیکھئے: بخاری)
ان دو یا صرف ایک روزے کی ممانعت بھی اُن لوگوں کے لئے ہے جو رمضان المبارک کی ’’سلامی ‘‘ کا روزہ سمجھ کر رکھیں ۔ سال بھر کے عادی روزہ دار کا چونکہ ایسی باتوں یا’’ سلامیوں ‘‘ سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا ،لہٰذا اس کی بات ہی الگ ہے۔ خاص شعبان کی آخری تاریخ کا روزہ محض اس شک کی بنا پر رکھنا کہ شاید چاند ہوگیا ہو مگر کسی وجہ سے نظر نہ آسکا ہو ،لہٰذا ہم اُس دن کا روزہ رکھ لیتے ہیں ، اس بات کی بھی نبی نے سخت تردید فرمائی ہے۔ شک کے دن کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ بعض صحیح احادیث کی رو سے شک کے دن کا روزہ رکھنا نہ صرف ممنوع بلکہ حرام ہے۔