دنیا میں صرف 2چیزیں ایسی ہیں جو کسی بھی شخصیت کی سوچ بدل سکتی ہیں،ان میں ایک بیوی ہے اور دوسرا ٹی وی ۔ ہم پہلے بھی کئی بار یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ہم اپنے ماحول سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ جو کچھ دیکھتے ہیں اسے پہلے پرکھتے ہیں، پسند آجائے تو اسے اپنا لیتے ہیں اور اگر پسند نہ آئے تو اس سے کنی کترانے کی پوری کوشش کرتے ہیں تاہم اس کے اثرات پھر بھی کسی نہ کسی طرح ہمارے جسم اور روح کو متاثر کر گزرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہم نے ٹی وی پر سنا کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ اس چیز نے ہمیں اتنا متاثر کیا کہ ہماری سوچ کے تانے بانے بکھر گئے۔ ہم یہ سوچنے لگے کہ داغ تو کہا ہی بری چیز کو کہا جاتا ہے۔ ہم نے بڑوں سے کئی مرتبہ ڈانٹ کھائی جس پر انہوں نے ہم پر الزام لگایا کہ تُو نے ہمارے خاندان اور اسکے نام پر’’ داغ ‘‘لگادیا ہے۔ کئی مرتبہ ہماری والدہ نے جوتے سے ہماری چھترول کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ ’’جس طرح تو نے اپنی قمیض پر داغ لگایا ہے میں ایسا ہی داغ جوتوں سے تیرے منہ پر لگائوں گی‘‘۔ اسی طرح ہم نے کئی مقامات پر یہ بھی سنا کہ فلاں سیاستدان حادثتاً بہت ہی اچھا ہے اور اس کا دامن بے داغ ہے۔ ہم یہ سمجھتے رہے ہیں کہ داغ ہوتی ہی بری چیز ہے لیکن جب ہم نے ٹی وی پر2 ہمسایوں کو گفت و شنید کرتے ہوئے دیکھاکہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں تو ہماری یوں سمجھ لیجئے کہ سٹی ہی گم ہوگئی۔ ہم نے ہمسایوں کو دروغ گو ،جاہل، بے وقوف اور عقل سے پیدل بھی نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ وہ شکل و شباہت، قد و قامت، عادات و اطوار اور نظر آنے والے کردار کے حساب سے انتہائی معقول دکھائی دے رہی تھیں اور ہمارا دل اور ذہن اس بات پر مصر تھا کہ انکی بات مان لی جائے چنانچہ ہم نے مجبور اً یہ بات مان لی کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم پر بہت سے عقدے واہ ہوئے۔ ہمیں یہ بھی پتہ لگ گیا کہ ہمارے کپڑوں پر میل کچیل کے جو داغ لگتے ہیں ان سے ہمیں کسی قسم کی بچنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہ داغ ہیں جو اچھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں بہت سے سیاستدانوں سے محبت ہوگئی کیونکہ پہلے ہم انہیں سمجھتے تھے کہ انکا ماضی داغدار ہے۔ حال بھی داغوں سے مامور ہے اور مستقبل میں بھی یہ کئی داغ لگائیں گے لیکن جب سے ہم نے وہ اشتہار دیکھا تو اس کے بعد سے ہمیں سیاستدانوں سے بھی قربت اور محبت کا دل چاہنے لگا کیونکہ وہ ہزار داغدار سہی مگر پھر وہی بات کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ ہم نے گزشتہ کچھ عرصے میں اپنے آپ کو اس نہج پر چلانا شروع کردیا اور پھر اس کے عادی بھی ہوگئے۔ اب ہمارے لئے یہ عام سی بات ہے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ 2 روز قبل ہم تمامتر اطمینان کیساتھ ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ ایک اور اشتہار نے ہمارے ذہن اور سوچوں کے ذخیرے میں سونامی بپا کردیا۔ اشتہا ر میں کہا جارہا تھا کہ یہ دال دلیہ چھوٹے پیٹ کی بڑی غذا ہے۔ ہم حیرت زدہ رہ گئے کہ چھوٹے پیٹ کی بڑی غذا کا کیا مطلب ہے۔ چھوٹے پیٹ میں چھوٹی غذا ہوتی ہے اور بڑے پیٹ کی بڑی غذا ہوتی ہے۔ اسکی مثال سیاستدان ہیں جن کے بارے میں ایک ماہر کہنہ مشق اورجہاندیدہ تجزیہ نگار نے کہا کہ ہمارے یہاں بعض سیاستدان ایسے ہیں کہ جن کے ڈھائی ڈھائی مرلے کے منہ ہیں اور انہوں نے قوم کا پیسہ لوٹا اور ملک کو کنگال کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ اس تجزیہ نگار کی اس قیمتی گفتگو سے یہ بات واضح ہورہی تھی کہ چھوٹے پیٹ سے مراد دراصل منہ ہے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ چھوٹے پیٹ کی بڑی غذا تو یہ جملہ گرائمر کے حساب سے غلط ہے۔ یہاں یہ کہا جانا چاہئے کہ چھوٹے منہ کی چھوٹی غذا اور بڑے منہ کی بڑی غذا۔ ہم نے ان تمام باتوں کی حقیقت جاننے کیلئے اپنے استاد سے رجوع کیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ آپ کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ اس جملے میں پیٹ کی جگہ منہ کا لفظ استعمال ہونا چاہئے تھا کیونکہ اگر پیٹ چھوٹا ہوگا تو منہ بھی چھوٹا ہوگا اور چھوٹا منہ اتنی ہی غذا کھا سکتا ہے جو چھوٹے پیٹ کیلئے کافی ہو۔ اسکے برخلاف بڑا پیٹ بڑی غذا طلب کرتا ہے اور بڑا پیٹ بھرنے کیلئے بڑے منہ کی ہی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ محترم تجزیہ نگار نے فرمایا کہ ہمارے یہاں بعض سیاستدانوں کے منہ ڈھائی ڈھائی مرلے کے ہیں۔ یہ بذات خود اس امر پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے کہ جتنا بڑا منہ ہوگا اتنی ہی بڑی غذا ہوگی اوراس بڑی غذاکیلئے اتنا بڑا پیٹ ہوگا لہذا ٹی وی پر یہ اشتہار چلانے سے گریز کیا جاناچاہئے۔ ہماری درخواست ہے کہ وہ تمام ذمہ داران جو ٹی وی پر مختلف پروگراموں اور نشریات پر غور کرتے ہیں اور انہیں بند کرنے ، جاری رکھنے یا سنسر کرنے کے اختیارات کے حامل ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اس قسم کے اختیارات پر خصوصی غور کریں جن میں چھوٹا پیٹ اور بڑی غذا اور بڑا پیٹ اور چھوٹی غذاجیسے غیر معیاری تناسب بیان کیا گیا ہو۔ ہمیں اپنی قوم کو وہی بات پڑھانی چاہئے جو حقیقت پر مبنی ہو تاکہ سیکھنے والے کوئی غلط بات نہ سیکھ سکیں۔ اس حوالے سے یہ بات کہنا بالکل درست ہے کہ بعض سیاستدانوں نے ملک کو اتنا لوٹا ہے کہ جو انکے پیٹ کے برابر ہے۔ غریبوں کا پیٹ انتہائی مختصر ،انہیں2 وقت کی روٹی بھی میسر نہیں جبکہ بڑے پیٹ والے وہ لوگ ہیں کہ جو نہ صرف ملک میں عیش کی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ وہ بیرون ملک بھی اپنی عیاشیوں کے تمام تر سامان سجائے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے یہ کہنابیجا نہیں کہ پاکستان میں چھوٹے پیٹوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ صرف 2فیصد لوگ ایسے ہیں جو بڑے پیٹ والے ہیں۔ کل ہماری بات بھانجے سے ہورہی تھی۔ ہم نے اسے پیٹوں کی تفصیل بتائی۔اس نے ایک جملہ کہا اور ہماری سوچ کا دھارا بدل دیا۔ وہ کہنے لگا کہ ’’ماموں! اگر پیٹ بدل دیں تو کیسا ہو۔ چھوٹے پیٹ کو بڑی جگہ اور بڑے پیٹ کو چھوٹی جگہ دیدیں تو پاکستان شاہراہ ترقی پر سرپٹ دوڑنے لگے گا‘‘۔ اس گفتگو کو کئی گھنٹے گزر چکے ہیں مگر ہمارے ذہن و دل میں صدائیں گونج رہی ہیں کہ ’’پیٹ بدل لو، چھوٹی غذا، بڑی غذا، ترقی میرا وطن‘‘