Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قبائلی علاقہ جات کا معاملہ

ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں فاٹا کو شامل کرنے کی حامی ہیں، نواز شریف اس معاملے پر اب تک خاموش ہیں، انہیں اپنی اتحادی جماعتوں کو خوش کرنا ہے

صلاح الدین حیدر
    وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ فاٹا کو اسی ماہ قومی دھارے میں شامل کر لیا جائیگا۔ انہوں نے اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔ عرصہ درازسے قبائلی علاقہ جات کا معاملہ ایک مسئلہ بنا ہوا ہے تو آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔قبائلی علاقے جسے ٹرائبل بیلٹ بھی کہتے ہیں، شروع سے ہی پاکستانی حدود سے باہر تھے، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے تقسیم  ہند کے وقت اس سے ایک معاہدہ کیا تھاکہ حکومتِ پاکستان ان داخلی امور میں مداخلت نہیں کریگی۔ یہ علاقہ تقریباً 2600کلومیٹر میںپھیلا ہو اہے ۔ اس میں کئی قبائلی علاقے جیسے مہمند ، باجوڑ، جنوبی وزیرستان ، شمالی وزیرستان ، کرم ایجنسی اور افرادی رہائشی علاقے جنہیں ایک پولیٹیکل ایجنٹ کے تحت رکھا جاتاہے، اپنے رسم ورواج میں آزاد ہیں۔ ان پر پاکستانی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن ابھی حال ہی میں پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے ایک قانون پاس کیا جس کی رو سے پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے قوانین اب ان علاقوں پر لاگو ہوں گے،مطلب یہ کہ وہاں انسانی حقوق کا راج ہوگا۔عدالتیں لوگوں کے حقوق کا تحفظ کریں گی۔ اس سے پہلے یہاں کے لوگ قبائلی سرداروں کے احکامات کے تحت تھے، یعنی غلاموں کی زندگی بسر کررہے تھے۔ وہاں کے قبائلی لیڈران پیسے کے ذریعے قومی اسمبلی کے ممبر بن جاتے تھے لیکن زمانے کے ساتھ ساتھ وہاں بھی وقت نے کروٹ لی اور مطالبہ زور پکڑ گیا کہ انہیں بھی آزادی سے اپنی زندگی بسر کرنے کی اجازت دی جائے۔ پاکستان میں بیشتر سیاسی پارٹیاں انکی حامی تھیں، جن میں پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، حتیٰ کہ (ن) لیگ بھی شامل ہیں۔مطالبے نے تحریک کی صورت اختیار کرلی اور پی ٹی آئی کے چیئر مین نے بغیر کسی جھجک کے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کر دیا کہ ان قبائلیوں کو پاکستانی شہری تصور کیا جائے اور انہیں خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا جائے۔ نون لیگ اس بات کی مخالفت نہیں کرتی ،لیکن حلیفوں کی وجہ سے فیصلہ کرنے سے کتراتی ہے۔ ان کی حلیف جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ، پاکستان ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمد خان اچکزئی اور بلوچ لیڈر حاصل بزنجو سر فہرست ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کی رائے لے کر فیصلہ کیا جائے لیکن اس بات سے کیسے انکار کیا جاسکتاہے کہ خود وہاں کے لوگ اس مطالبے میں سب سے آگے ہیں، پھر اختلاف کیسا…؟
    مسئلہ سارا یہ ہے کہ فضل الرحمن ، محمد خان اچکزئی خود پشتون ہیں اور نہیں چاہتے کہ انکی مقبولیت میں فر ق پڑے، مگر سوال سب سے بڑا یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات آخر کتنی نشستیں جیتتے ہیں۔گنتی کی چند ایک، پھر انکی سیاسی حیثیت کیا ہے؟ حاصل بزنجو تو بلوچ ہیں لیکن انہیں بھی خوف ہے کہ اگر ان علاقوں کو، جنہیں عرف عام میں FATA  (federally administered tribal
areas ) کہاجاتا ہے،پاکستان میں ضم کر دیا گیا تو اس کا اثر بلوچستان میں نہ پڑے اور وہاں کے رہنے والے پشتون جو بلوچستان صوبے کے 4 خاص خاص ضلعوں میں رہتے ہیں، جنہیں کوئٹہ ، زوب ، پیشن ، شامل ہیں،کہیں الگ صوبے کا مطالبہ نہ کردیں۔ بلوچستان کی معیشت پر برا اثر پڑے یا اس کی سیاسی حیثیت کم ہوجائے۔ یہ محض مفروضہ ہے ۔ حقیقت سے دور تک واسطہ نہیں۔ اگر جنوبی پنجاب صوبہ بن  سکتاہے اور اسے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بھی قبول کر لیا ہے تو بلوچستان اور سندھ میں بھی 2 ایک صوبے مزید بن جائیں تو کیا فرق پڑے گا؟
    ہندوستان میں 1947 ء میں 14صوبے تھے، آج 34 ہیں۔ افغانستان ، ترکی اور دوسرے ممالک میں درجنوں صوبے ہیں۔ انتظامی امور سے ایسا ہی ہونا چاہیے۔پاکستان میں 1947 میں 5 صوبے تھے، مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا، صرف اس لیے کہ بنگالیوں کے حقوق تسلیم نہیںکیے گئے تھے۔ اب پاکستان جس کی آبادی بڑھ کر 4 کروڑ سے 22 کروڑ ہوگئی ہے، صرف پنجاب کی آبادی 12کروڑ ہے،تو اتنے بڑے صوبے کو لاہور سے کیسے کنٹرول کیا جاسکتاہے؟ملتان، رحیم یار خان، بہاولپور کے درمیان 200  سے ڈھائی سو میل کا فاصلہ ہے۔آخر لوگ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے اتنا لمبا چوڑا سفر کیوںکریں؟کیوں نا پنجاب کو3,2 صوبوں میں تقسیم کر دیا جاتا۔
    یہ سوالات بہت اہم ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی جوپچھلے کئی سالوں سے خیبر پختونخوا میں جس کا نام تاج برطانیہ سے 2008کے بعد تک نارتھ ویسٹ فرنٹیر تھا، بالآخر پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پی پی پی اور پاکستان کے صدر آصف زرداری نے اسے پشتونوں کی خواہشات کے مطابق نیا نام دیدیا اور آج یہ کے پی کے کہلاتا ہے ۔ اچھا فیصلہ تھا۔ اے این پی بھی فاٹا کو KPK  میں ضم کرنے کی حامی ہے لیکن صرف چند روز پہلے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے جنوبی وزیر ستان کے دورے میں کہا تھاکہ فاٹا کو ان کے حقوق دلانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے لیکن نواز شریف اس معاملے پر خاموش ہیں۔
    ایک اور مسئلہ پچھلے چند ہفتوں سے کھڑا ہوگیا ہے۔ وہ ہے ایک نئی تنظیم تحفظِ پشتون موومنٹ کا وجود میں آنا، لیکن تحریک کا سربراہ منظور پشتین وزیر ستان کا رہنے والا ہے۔دراصل اس کا تعلق افغانستان سے ہے، اسی لیے ایک حالیہ جلسے میں اس کے حامیوں نے پاکستان کا نعرہ لگانے اور پاکستان کا جھنڈا لہرانے پر 2ایک لوگوں کو جلسے سے باہر نکال دیا ۔ ان کی حرکت سے سارے ملک میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور خود کے پی کے کے پشتون نے اسے غیر پشتون کہہ کر اسے ہندوستان کا ایجنٹ قرار دیدیا۔ یہ تو افغانی ہے۔ اسے افغانستان بھیج د یا جائے۔ یہ اکثر لوگوں کی زبانی سنا گیا، پشتون اس سے سخت نالاں ہیں۔ اس کی موجودگی دہشتگردی کا باعث بن سکتی ہے۔اسلام آباد سے پشاور اور خیبر پاس افغانستان کے سرحدی شہر جلال آباد تک جو سڑ ک جاتی ہے، وہ مہمند ، باجوڑ، دیر اور چترال، سوات تک مسائل پیدا کرسکتی ہے اسی لیے بہتر ہے کہ ایسی تنظیموں کا قلع قمع کردیا جائے ورنہ نت نئے مسائل جنم لیں گے جو کہ استحکام پاکستان کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔
    منظور پشتین اپنے آپ کو پشتون نہیں کہتا۔ اس کے بارے میں شدید شکوک و شبہات ہیں اور جتنی جلدی اس سے چھکاڑا پا لیا جائے اتنا ہی ملکی و حدت کے لیے بہتر ہے۔ یاد رہے کہ طالبان جو کہ دوسرے ملک کے باشندوں سے مل کر پاکستان میں دہشتگردی کرتے تھے،  وہ زیادہ تر وزیر ستان میں چھپے رہتے تھے۔ پاکستانی افواج باوجو د اسکے کہ ان کے پیچیدہ اور پہاڑی علاقوں کے پیچ و خم سے ناواقف تھیں، حوصلہ اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں نہ صرف گئیں بلکہ بھاری جانی نقصان اٹھانے کے باوجود طالبان کو وہاں سے نکال باہر کیا۔پاکستانی فضائیہ نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ آرمی کی توپوں نے گولہ باری کی تو پاکستانی ایئر فورس کے ہوائی حملوں نے طالبان کی کمر توڑ دی۔ ان کے رابطوں کے ذریعے کو درہم برہم کردیا، جس سے بہت فائدہ ہوا اوراب وہاں امن و امان ہے۔سوات میں جہاں مولوی فضل اللہ کا خوف تھا، وہ علاقہ بھی اب ایک بار پھرسیاحوں کے لیے اطمینا ن کا باعث بن گیا ہے۔
مزید پڑھیں:- - - - -مسلم لیگ کا مستقبل
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں