میاں صاحب کا مستقبل اندھیروں کی طرف بڑھ رہا ہے،قوم کو انتظار کرنا پڑیگا
* * ** *
خلیل احمد نینی تال والا
الیکشن کمیشن کی طرف سے ابھی تک انتخابی شیڈول کا اعلان نہیں ہوا اور نہ ہی کیئر ٹیکر حکومت بنی مگر ہر صوبے میں عوامی دنگل شروع ہوچکے ہیں ۔ ہر پارٹی اپنے آپ کو معصوم ثابت کرکے بجلی ،گیس اور مہنگائی کا ذمہ دار دوسری پارٹی کو بتانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف ہے ۔قوم کی بدقسمتی تو دیکھئے ! دونوں بڑی پارٹیاں پی پی پی اور مسلم لیگ ن ،ق اور اب ش گزشتہ مارشل لائوں کے درمیان مسلسل حکومتیں کرتی رہیں اور کھل کر کرپشن ،مہنگائی اور بجلی ،گیس ،پانی کے بحران پیدا کرتی رہیں۔اربوں نہیں کھربوں روپے کے گھپلے ہوتے رہے۔ فوج ،عدلیہ ،نیب سب خاموشی سے دیکھتے رہے اور کچھ نہ کرسکے ۔صرف 2سال سے جب سے پانامہ لیکس کا کردار سامنے آیا تو سب ہی یکے بعد دیگرے متحرک ہوتے گئے۔ خاص طور پر جب فوج نے کراچی آپریشن کیا تو سب کے بھیانک چہرے ایک ایک کرکے سامنے آتے گئے۔
ہرطرف اور ہرصوبے میں کرپشن کا راج تھا ۔سیاست دان اپنے اپنے صوبوں کے بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر عوام کو بیوقوف سمجھ کر اُن کی دولت رشوت، کک بیک، نوکریوں کے بدلے لوٹ کر اپنی اور اپنے رفقاء کی جیبیں بھر رہے تھے ۔فوج اگر ہاتھ ڈالتی تو پارٹی والے شور مچاتے کہ ان کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اور ثبوت ہونے کے باوجود وہ اندھے قانون کے آڑ میں چھوٹ جاتے۔ عدلیہ،فوج ،نیب اورایف آئی اے سب دیکھتے رہ جاتے ۔سب سے بدقسمت شہر کراچی تھا جس میں ایم کیو ایم ،پی پی پی حکومت سے مل کر دہشتگردی پھیلاتی تو پی پی پی اپنی ہی بنائی گئی امن کمیٹی کے کارندوں کے ساتھ بھتہ اور قتل و غارتگری کا بازار، لیاری اور ملیر کے غنڈوں سے ایم کیو ایم سے مقابلہ کرتی ۔ اگر الطاف بھائی بگڑ جاتے تو سینیٹر رحمان ملک کو لند ن بھجواکر خاموشی سے ان کی مطالبات پورے کردیئے جاتے ۔اس طرح دونوں بڑی پارٹیوں کے ہاتھوں محب وطن عوام خصوصاً مہاجرین ان کے نشانہ بنتے تھے ۔ووٹ عوام ایم کیو ایم کو دیتے اُس کا بدلہ پی پی پی والے یہ کہہ کر لیتے کہ اور دو ووٹ ایم کیو ایم کو۔
پھر گزشتہ 10سالوںمیں ایک ایک کراچی کے ادارے سندھ حکومت کے ماتحت ہوتے گئے ۔پہلے کے ڈی اے، پھر کے بی سی اے ،واٹربورڈ ،کے ایم سی ،کراچی کا روڈ ٹیکس سب چھین لئے گئے ۔اب جب نئے الیکشن کی آمد ہے تو پی پی پی نے میدان میں بلاول بھٹو کو اتارا کہ وہ نووارد ہیں کراچی والوں کو قابو کریں ۔پوری سندھ انتظامیہ کراچی کے جلسے کو کامیاب کرانے اور ایم کیوایم کو نیچا دکھانے میں لگ گئی ۔بلاول نے جئے بھٹو کی صدالگاتے ہوئے فرمایا ہم نے کراچی میں امن قائم کیا ،رونقیں بحال کیں وغیرہ وغیرہ ۔ہم آگئے تو کراچی کو پھر سے روشنیوں والا شہر بنادیں گے، یہ کریں گے وہ کریں گے۔ وہ بھول گئے چند ماہ قبل ایک صوبائی الیکشن میں کراچی والوں نے پی پی پی کراچی کے صدر سعید غنی کو جتواکر موقع فراہم کیا جو انہوں نے اپنے ضمنی الیکشن میں بلوچ کالونی کی سڑکوں کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا آج تک ایک انچ سڑک نہیں بن سکی۔پورے کراچی کی بدحالی کیسے دُور کریں گے ۔سعید غنی کی طرح وہ بھی اپنے علاقے میں نظر نہیں آئیں گے ۔اگر بلاول بھٹو مہاجروں سے مخلص ہیں تو سندھ سے کوٹہ سسٹم ختم کردیں اور سندھ کی آبادی نادراکے شناختی کارڈ کے تحت جاری کردیں۔ الیکشن کے بعد صوبہ کراچی کیلئے ریفرنڈم کا اعلان کریں ۔تب یقین کریں کہ وہ مہاجروں کی تمام سیٹیں حاصل کرسکتے ہیں یا اگر کوئی دوسری پارٹی یہ اعلان کرتی ہے تو وہ سندھ کے الیکشن جیت سکتی ہے۔پی ٹی آئی کے عمران خان بھی دوبارہ کراچی میں ایم کیو ایم کی جگہ لینے کی بھر پور تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں ۔چند سیٹیں کراچی میں ان کو ملی تھیں اُسکے بعد پورے 5سال وہ ایک رات بھی کراچی میں نہیں گزار سکے۔ مسائل کیسے حل کریں گے ؟ نواز شریف نے بھی گزشتہ اقتدار میں ایک رات بھی نہیں گزاری البتہ مشرف طیارہ کیس میں کراچی جیل میں ضرور راتیں گزاریں اور ان کو کھاناپہنچانے والے محسن کو پاکستان کا صدر بناکر کراچی والوں پر احسان ضرور کردیا ہے ۔
ایک اصلی معرکہ عمران خان اور شہباز شریف کے درمیان ضرور ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ شہباز شریف اور نواز شریف نے قومی اور صوبائی بجٹوں کی دو تہائی رقم سے لاہور کو اتنا جگمگادیا ہے کہ لاہوری اس احسان تلے دبے ہوئے ہیں ۔شاید وہ یہ احسان اتار دیں جو بقایا پاکستان کے صوبوں کا حق مار کر دونوں بھائیوں نے چالاکی سے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر لاہور کی نذرکردیا مگر ابھی مسلم لیگ ن گرداب میں ہے۔ کبھی وہ فوج اسٹیبلشمنٹ کو الزام دیتی ہے تو کبھی وہ عدلیہ کی طرف آنکھیں دکھاکر عوام کے ووٹوں کی تذلیل قراردیتی ہے ۔بے چاری پی پی پی کا بوریا بستر بظاہر تو ان دونوں بھائیوں نے پنجاب سے گول کردیا ہے۔ اگر بلاول بھٹو کوئی کرشمہ دکھاکر اپنی والدہ کا واسطہ دے کر پنجاب میں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو معلوم نہیں ۔
رہا صوبہ خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمن ایک مرتبہ پھر ایم ایم اے بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اگر دوبارہ بازار سجا تو وہ مسلم لیگ ن کو ملاکر عمران خان کو سخت مقابلہ دینے کی کوشش کریں گے ۔صوبہ سندھ کا اندرونی ووٹر ابھی تک تذبذب میں ہے اگر کوئی مشترکہ اتحاد بن گیا تو پھر پی پی پی کو شکست ہوسکتی ہے سو ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے ۔
رہا بلوچستان میں الیکشن میں کیا ہوگا ۔فی الحال سینیٹ کے الیکشن اور صوبائی بغاوت کے اثرات ابھی تک زائل نہیں ہوئے۔تمام سیاسی پارٹیاں مولانا فضل الرحمن کی ڈرامائی دستبرداری سے مسلم لیگ ن سے بے وفائی کے ا ثر سے باہرآگئی ہیں۔ فی الحال کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی ۔اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ابھی تک کوئی اشارے نہیں ملے ۔قوم کو انتظار کرنا پڑے گا جب تک الیکشن کا بازار گرم نہیں ہوتا شطرنج کے مہرے کس طر ف جاتے ہیں۔ دانا لوگ اس الیکشن کے بارے میں میاں صاحب کے مستقبل کو اندھیروں میں جاتا دیکھ رہے ہیں ۔ساتھ ساتھ وہ عمران خان کو وزیراعظم کی مسند پر بھی نہیں دیکھ رہے۔ وہ کڑے احتساب کا عندیہ قبل از الیکشن بتاتے ہیں"واللہ عالم بصواب" مگر پیرنی کا کرشمہ اب پتہ لگے گا اگر احتساب اقاموں کا شروع ہوا تو ایسے ایسے بڑے نام آئینگے کہ لوگ دنگ رہ جائیں گے۔
بقول شاعر:
میرے ساقی کو نظریں اٹھانے تودو
جتنے خالی ہیں جام سب بھر جائیں گے