ویسے توہر وہ شے جو دیکھی بھالی ہو،خواہ گوری یا کالی ہو، چاہے وہ گلشن ہو یا مالی ہو،چاہے وہ اپنی ہو یا لے کر پالی ہو،خواہ وہ بینگن ہو یاتھالی ہو،چاہے وہ جھمکا ہو یا بالی ہو، چڑاق کی آواز دینے والا خواہ و ہ تھپڑہو یا تالی ہو،خواہ وہ سرکنڈا ہو یا ٹالی ہو،چیز کوئی اصلی ہو یا جعلی ہو،گھر کی کھڑکی پر چق ہو یا نائیلون کی جالی ہو، خواہ کلام ِ اقبال ہو یا حالی ہو،گھڑا خواہ اوچھا ہو یا خالی ہو،ہم کلام خواہ محض جناب ہو یا جنابِ عالی ہو، خریدا جانے والا مال رخیص ہو یا غالی ہو ، مفت میںملنے والی تعریف ہو یا گالی ہو،گالوں پر نمودار ہونے والا نیل ہو یا لالی ہو،گھر کے سامنے بہنے والا نالا ہو یا نالی ہو،دل توڑنے اور دھوکہ دینے والا ہو یا والی ہو،قصہ مختصر کریں تو یوں کہ ہر وہ شے جو دیکھی بھالی ہو ، انسان کو ضرور یاد رہتی ہے ، بھلائے نہیں بھولتی ۔ یہی حال ہماری عمر رفتہ کا بھی ہے۔ یہ وہ شے ہے جو ہم نے دیکھی بھالی ہے۔اس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ہم نے اسے بھلانے کی کوشش کبھی نہیں کی بلکہ اسے یاد کرتے رہتے ہیں۔
آج وطن عزیز کا سیاسی ماحول انتہائی مکدر ہے۔ عام آدمی بے چارہ در بدر ہے ۔اس کے پاس 2 وقت کی روٹی ہے نہ رہنے کو گھر ہے ، آج بھی ہر کس و ناکس کے دل و ذہن کے کسی کونے کھدرے میں آوارہ گولی کا ڈر ہے ،مہنگائی کا جن بوتل سے باہر ہے،کوئی شنوائی ہے نہ ہمدردی کی نظر ہے ،یہی بے کس و لاچار عوام کا مقدر ہے۔عام انتخابات کا مرحلہ پھر سرپر ہے۔ہم نے اس ماحول کو جھیلا تو سامنے آنے والے حقائق کے باعث منہ میں کڑواہٹ آگئی ۔ہم نے دیکھا کہ باربارباریاں لینے والوں کی آوازیں پھر بلند ہونے لگی ہیں۔ عجب طرفہ تماشا ہے ۔ خود کو ’’سیاسی‘‘ کہنے والی جماعت کے لوگ کسی میدان میں لوگوں کو ’’ہانک‘‘ کر لے جاتے ہیں۔ اپنی مرضی کا نعرہ ان کے منہ میں ڈالتے ہیں اور پھر انہیں بتاتے ہیں کہ میرے کس سوالی نعرے پرآپ نے کونسا جوابی نعرہ بلند کرنا ہے۔یہ ’’رہنما‘‘لوگوں کو دے دلا کر، نعرے لگوا کر، انہیں قسمیں کھلا کر ، وعدے بھلا کرچلے جاتے ہیں ۔ آج کوئی سا چینل کھول لیں، ان پر جتنے بھی دھلے دھلائے، بنے بنائے ، سجے سجائے، چہرے دکھائی دیتے ہیں ان میں زیادہ تر سیاسی ہوتے ہیںجولوگوں سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ آئندہ 5سالوں کیلئے اپنے سروں پر ہمیں مسلط ہونے کی اجازت دیدیں۔ ان میں کئی ایسے بھی ہیں جو ماضی میں 5سال ،10سال، 20سال، 30سال اور 35سال کسی نہ کسی حال میں ’’خدمت ‘‘نام پر عوام کو بحرانوں، مسائل ، ناانصافی، لوٹ مار، منی لانڈرنگ، بدعنوانی، رشوت ستانی اور مہنگائی اور بے اعتنائی کی شکل میں کسمپرسی کی دلدل میں دھکیلتے رہے ہیں۔اس ماحول میں ہمیں بچپن کا سہانا دور اتنا یاد آیا ہے کہ بلاناغہ تکئے میں منہ دیکرخون کے آنسو روتے روتے سوتے ہیں۔یہاں صرف ایک واقعہ آپ کے مطالعے کی نذر کیاجا رہا ہے جو آپ کو آبدیدہ کرنے کیلئے کافی ہوگا۔
لاہور شہر تھا اور 2صدی قبل آباد ہونے والا قدیم محلہ، اس میں گھروں کے باہر چبوترے، تھڑے، جناتی پلنگ، پتھر کے ’’صوفے‘‘ اور چٹانی منڈیریں پائی جاتی تھیں۔ ان پر شام کو مختلف النوع محلے دار آکر براجمان ہوتے تھے ۔ کوئی اپنی بیوی سے لڑ کر چبوترے پہ آ بیٹھتا تو کوئی بیوی سے مار کھا کر تھڑے پر جا بیٹھتا۔ کوئی مستقبل کے منصوبے بنانے کیلئے دوستوں کے ساتھ پتھریلے صوفے پر براجمان دکھائی دیتا تو کوئی اپنا گھر بسانے کی نیت سے چٹانی منڈیر پر بیٹھا آنے جاے والی ہستیوں کو تاڑتا دکھائی دیتاجبکہ جناتی پلنگ پرجمع ہونے والے عموماً ماضی، حال اور مستقبل کے سیاستداں ہوتے تھے ۔’’ووٹو‘‘ ہمارا آئیڈیل تھا۔ نام تو اس کا ’’چنوںمیاں‘‘تھا مگر ہوا یوں کہ ایک روز وہ اپنے دوستوںکے ساتھ تھڑے پر بیٹھا تھا۔ انہوں نے چنوں میاں کو مشورہ دیا کہ آپ گدھا گاڑی چلانے کا کام ترک کر کے ضلعی انتظامیہ کے انتخابات میں حصہ لے لیں۔ اس نے مشورہ مان لیا۔ اگلے ہی روزسے اس نے ووٹ مانگنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ ہرگھر کا دروازہ کھٹکھٹا تا اور کہتا کہ مجھے ووٹ دے کر خدمت کا موقع دیجئے۔لوگوں نے اسکے خلوص، ووٹ مانگنے کے ا نداز اورعوام کیلئے کام کرنے کے وعدوں سے متاثر ہو کر ووٹ دے ڈالے ۔ چنوںمیاں جیت گئے اور ’’بی ڈی ممبر‘‘ بن گئے ۔بس یوں سمجھ لیجئے کہ ان کی آزمائش کے دن شروع ہو گئے۔راتوں کانیند، دن کا چین کافور ہو گیا۔ایک روز ہم چنوںمیاں کے ہاں بیٹھے تھے کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ پینو کی ماں آئی تھی۔ وہ آتے ہی چنوں پر برسنے لگی کہ صبح سے نلکے میں پانی نہیں آ رہا، تمہیں ہم نے ووٹ کس لئے دیا تھا۔ چنوں میاں نے فوراً فون کیا اور پانی جاری کروایا۔ ابھی وہ آ کر بیٹھا ہی تھا کہ پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ یہ نجو کی والدہ تھیں۔ کہنے لگیںکہ میری بیٹی کواسکول میں داخلہ نہیں مل سکا۔ آخر تمہیں ووٹ دیا تھا، کس دن کام آئو گے۔ چنوں نے ٹاٹ اسکول فون کر کے نجو کے داخلے کا بندوبست کیا۔ وہ ابھی ہمارے پاس آ کر بیٹھنے ہی والا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ فرزانہ کی ماں آئی تھیں۔کہنے لگیں کہ بیٹی جوان ہو گئی ہے، کوئی رشتہ نہیں مل رہا۔ بچیوں کی شادی کا بندوبست کرائو۔ آخر تمہیں ووٹ کس لئے دیا تھا۔ چنوں میاں نے ’’انسداد تجرد‘‘ مہم کا اعلان کیا اور چند بوڑھیوں کو گھر گھر جا کر شادی بیاہ کے پیغامات دینے اور انتظامات کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ اب وہ ہمارے پاس بیٹھے اور فوراً ہی اٹھ کھڑے ہوئے ۔گھر کا دروازہ پیٹا جا رہا تھا۔ انہوں نے دروازے کا ابھی ایک پٹ ہی کھولا تھا کہ خالدہ کی والدہ چلانے لگیں کہ 2دن سے جمعدارنی نہیں آئی ، گھر کے دروازے کے سامنے کچرا پڑا ہے ، کون صاف کرے گا، آخر ہم نے تمہیں ووٹ دیئے تھے؟ یہ سن کر چنوں میاں نے جھاڑو اٹھایا اور خالدہ کی والدہ کے پیچھے پیچھے ان کے نقش قدم پر چل دیئے۔ ہمیں بھی مجبوراًان کے ساتھ جانا پڑا۔ہم نے کہا کہ چنوں میاں تم سیاست میں آکر ووٹو بن گئے ہو، پچھتا تو نہیں رہے؟ ووٹو نے جو جواب دیا ، یقین جانئے ، اسے سن کر ہماری سوچ کے دھاروں نے ’’یوٹرن‘‘ لے لیا۔ اس نے کہا : ’’جناب ِمن! ووٹرآپ کو ووٹ کے ذریعے کامیاب بنا کر اپنی زندگی ، اپنے مستقبل کے 5قیمتی سال ’’DEVOTE‘‘ کرتا ہے تاکہ آپ ملک اور قوم کی خدمت کریں۔اگر آپ خدمت نہیں کریں گے تو یہ مستقبل میں آپ کو ’’DE VOTE‘‘ َکر دے گا۔ سیاستدان وہی ہے جو ’’ڈیووٹ‘‘یعنی سونپ دینے اور ’’ڈی ووٹ‘‘یعنی ووٹ سے محروم کر دینے کے معنی سمجھتا ہو۔