گوجرانوالہ کے ہر گھر میں پہلوان ہے، انعام بٹ
گوجرانوالہ: دولت مشترکہ کھیلوں میں پاکستان کیلئے سونے کا تمغہ جیتنے والے پہلوان انعام بٹ نے کہا ہے کہ میرے دادا، میرے والد اور میرے بڑے بھائی بھی پہلوانی کرتے رہے ہیں اس لئے میں خود کو خاندانی پہلوان کہہ سکتا ہوں ۔ انہوں نے بتایا کہ بچپن میں ہمارے پاس کھلونے نہ ہوتے تو ہم آپس میں کشتیاں لڑتے تھے اور میرا بچپن بھی اسی طری گزرا۔ انہوں نے کہا کہ گوجرانوالہ میں ہر گھر میں پہلوان موجود ہیں اور صبح وشام اکھاڑے اور جم نوجوانوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ یہ شوق پورے شہر میں پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بچے پہلوانی کا فن چھوٹی عمر سے ہی سیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور جوں جوں عمر گزرتی ہے اس میں بہتری آتی ہے گھر میں میری پہلوانی کی ابتداء بھی ایسے ہی ہوئی کہ جب کبھی بھائی، کزنز اکٹھے ہو گئے تو کشتی شروع ہو جاتی تھی۔ اس طرح جو چیزیں دوسرے کھلاڑیوں کو10 سال بعد پتہ چلتی ہیں وہ ہمارے گھروں میں ہمیں بہت پہلے سکھا دی جا تی ہیں۔اس لئے جب باقاعدہ پہلوانی یا ویٹ لفٹنگ کا آغاز کرتے ہیں تو ہماری بنیادیں مضبوط ہو چکی ہوتی ہیں جو بعد میں بھی ہمارے مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ محمد انعام بٹ بھی ان پہلوانوں میں شامل ہیں جنھوں نے مٹی کے اکھاڑے سے آغاز کرتے ہوئے میٹ ریسلنگ تک کا کٹھن سفر مشکل حالات میں طے کیا؟ دیسی کشتی اور جدید ریسلنگ کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ جب آپ پاکستان کیمپ یا بین الاقوامی مقابلوں کیلئے جاتے ہیں تو آپ کو مٹی کی کشتی کی بہت سی تکنیکس چھوڑ کر نئی تکنیک اپنانا پڑتی ہے اوریہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں عالمی سطح کی بنیادی سہولتیں بھی موجود نہیں۔ پاکستان نے گزشتہ 4 سال میں ریسلنگ کے مختلف بین الاقوامی مقابلوں میں 62 تمغے جیتے ہیں لیکن پورے پاکستان میں ریسلنگ کی ایک بھی اکیڈمی بھی نہیں یہاں تک کہ گوجرانولہ شہر میں ،جہاں کے کھلاڑی بیشتر تمغے جیتتے رہے ہیں وہاں بھی عالمی معیار کی کوئی اکیڈمی موجود نہیں ۔انعام بٹ نے 2010 میں دہلی میں منعقدہ دولت مشترکہ کھیلوں میں بھی کشتی کے مقابلوں میں سونے کا تمغہ حاصل کیا تھا اور یہ تقریباً 40 سال بعد پہلا موقع تھا کہ پاکستان نے کشتی کے مقابلوں میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔