”حیاتِ ریاست“ریل کو کسمپرسی تک پہنچانے کا ذمہ دار کون؟
تسنیم امجد ۔ریاض
ریل کے انجن ما ضی میں شیر کی ما نند تھے ۔ان کی سیٹیا ں اور چھکا چھک کی باز گشت آج بھی کا نو ں میں گو نجتی ہے۔ریل کا سفر فائدے کے ساتھ ساتھ تفریح کا سا مان بھی مہیا کر تا تھا ۔اسے شاہی سواری کہتے تھے ۔مو سم گر ما کی تعطیلات کا مزہ ریل کے سفر میں ممکن تھا۔لمبے سفر کی تیاری میں گھر کی خواتین با لکل ایسے مصروف ہو جاتی تھیں جیسے کسی شادی کی تقریب کی تیاری ہو ۔ٹفن کیر ئیربھرے جاتے تھے ۔راستے بھروضع وضع کے پکوان تناول کرنے کی تدابیر سو چی جا تی تھیں ۔اس سلسلے میں لڑ کیا ں زیادہ سرگرم نظر آ تی تھیں ۔اکثر سننے کو ملتا تھاکہ یہی تو وقت ہے ایک ساتھ بیٹھنے کا۔بچے ریل میں اکثر کھڑکی کے پاس بیٹھنے کی ضد کرتے۔ہاں اسٹیشن سے پکو ڑے لیکر کھانے بھی ضروری سمجھے جاتے تھے ۔ان کا اپنا مزہ تھا ۔اسی طرح حیدر آ باد، سندھ سے چو ڑیو ں کی خریداری بھی ناگزیر ہو تی تھی ۔اس کے علاوہ ہر اسٹیشن کے نظارے اور الم غلم خریدنا بھی سفر کو خوشگواربنانے کی کوششوں کا حصہ ہوتا تھا ۔اکثر بارات کا انتظام بھی اسی پر کیا جا تا تھا۔ریل کے کوپے اور بوگیاں“بک کرا لی جا تی تھیں۔ اسی میں بڑا نام ہوتا تھا ۔ہلے گلے اور ڈ ھو لکی کے انتظامات بھی خو شیو ں میں ا ضافہ کرتے تھے ۔کیا کیا یاد کریں ، وہ تمام حقیقتیں آج خواب بن چکی ہیں ۔آج سو چنے کا انداز بدل چکا ہے ۔ہوا ئی سفر اب بڑے نام کی علامت ہے ۔ ہر کسی کو یہی چا ہئے کہ:
”اس کی دیوار سے اونچی مری دیوار بنے“
کیا کہنے اس تبدیلی کے کہ پٹریاں خالی پڑی ہیں ۔ملازمین افسر دہ چہرے لئے کسی معجزے کے منتظر ہیں ۔مجبور مسافر ادھر ادھر ٹہلتے نظر آ تے ہیں ۔قلی بیچارے کسی اور مز دوری کا سو چ رہے ہیں ،لیکن کہا ں ؟ملک بھر میں ایسی ہی صورتِ حال ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ چو لھے کیسے جلا ئیں ؟ ضروریاتِ زندگی کو تو بھول ہی جا ئیں ۔پیٹ بھر جائے تو وہ بھی غنیمت ہے ۔آ خر ان حالات کا ذمہ دار کو ن ہے ؟ سبھی کا کہنا ہے کہ یہ محکمہ خود اس کا ذمہ دار ہے ۔
وہ بھی کیا دن تھے کہ ریلوے میں اس قدر رش ہو تا تھا کہ بکنگ نہیں ملتی تھی۔ویٹنگ لسٹ میں نام ڈا لے جا تے تھے ۔یہ حقیقت ہے کہ جہاں ایماند اری نہیں ہو گی وہاں سے بر کت بھی اٹھ جا ئے گی ۔بعض ملازمین نے اپنی ”استطاعت“ کے مطابق اس محکمے کو دو نو ں ہاتھوں سے لو ٹا ۔اقربا پروری زوروں پر تھی ۔کسی بھی کرتے دھرتے کی خا طر ٹرین میں تا خیر معمولی بات تھی ۔ملازمین اور ان کے عزیزواقارب مفت سفر کرتے تھے اور اکڑ کر اس کا ذکر کرتے اور ذرا بھی نہیں ڈرتے تھے ۔اکثر تو کہتے کہ ڈا ئیننگ کار سے بہترین کھا نا بھی ملا ۔یو ں کہئے کہ جب ما ل مفت مل رہا ہو تو دل بے رحم ہو ہی جاتا ہے ۔ انسا نیت نام کی شے کہاں گئی ؟
1861ءکا دور ٹیکنا لوجی میں آج کی طرح تر قی یا فتہ نہیں تھا پھر بھی پہلی ریلوے لا ئن کرا چی سے کو ٹری تک بچھا ئی گئی جسکی لمبائی 105میل یعنی 169کلو میٹر تھی ۔آج یہ ریلوے ٹریک 5072میل یا 8163کلو میٹر لمبا ہے اور ایک اندازے کے مطا بق سا لا نہ 65ملین مسافر اس پرسفر کرتے ہیں۔یو ں قو می آ مدنی کا یہ ایک مو ثر ذریعہ رہی ہے اور مستقبل میں ہو بھی سکتی ہے ۔انجن بنانے کی فیکٹری رسالپو ر میں 251 ایکڑ رقبے پر محیط ہے ۔گویا سہو لتوں کی مو جو دگی میں نقصان اور خسارے کی خبریں ہیں ۔پا کستان ریلوے کا ہیڈ کوار ٹر لاہور میں ہے ۔وزارتِ ریلوے کے مطا بق اس پر وفاقی حکومت کا کنٹرول ہے ۔
سنا ہے کہ 1970ءمیں ریلوے کی حیثیت مضبوط تھی ۔اس کے بعد بجٹ کا زیادہ حصہ سڑ کو ں پر لگا یا جا نے لگا ۔نہ جانے اس میں کیا سا زش تھی کہ سڑ کیں بھی مکمل نہ ہو سکیں اور ادھر بھی زوال آ گیا ۔نیشنل ہا ئی ویز کا کمال یقینا قابلِ تعریف ہے کیو نکہ بجٹ کا تنا سب 45.5بلین اور155بلین رہا ۔2011ءمیں گمبھیر مسا ئل تب سا منے آ ئے جب 700 ملین روپے کا چیک پا کستان ریلوے کی جا نب سے پا کستان اسٹیٹ آ ئل کو جاری کیا گیا تو بینک اکا ﺅ نٹ میں رقم نہ ہو نے کی وجہ سے باﺅنس ہو گیا ۔نتیجتاً ایندھن کی فراہمی فوری روک دی گئی جس سے 30 مال گا ڑیاں بڑے بڑے ریلوے اسٹیشنوں کے قریب رک گئیں ۔آ مد و رفت میں رکاوٹ کے سبب ایک بھو نچال سا آگیا ۔لو گو ں کے پروگرام متا ثر ہو ئے ۔صرف ایک ٹرین ،مظفر گڑھ کے قریب حرکت میں رہی ۔کابینہ نے فو راً 11.1ملین کا بجٹ پاس کیا جو صرف کا غذوںتک رہا ۔وہ کہاں گیا ؟ کسی کو خبر نہیں ۔اس کے بعد کروڑوں روپے کا بل ادا نہ ہو نے پر بجلی بھی منقطع کر دی گئی ۔اس بحران کے باعث بسوں اور ٹرکوں نے اپنے دام بڑ ھا دیئے ۔عوام ا حتجاج پر مجبور ہوگئے ۔ذمہ داران کو کچھ خبر نہ ہو ئی ، نہ ہی انہو ں نے صورتحال جاننے کی کوشش کی ۔انہیں یہ بھی خیال نہیں آیا کہ ایک ہی وقت میں آ زادی حا صل کر نے والے ہمسایہ ملک نے اپنی ریلوے انڈسٹری کو
کہا ں سے کہاں پہنچا دیا ہے ۔جدید ٹیکنا لو جی کا وا فر استعمال کر کے وہ اسے چین کے ہم پلہ لے آ یا ہے ۔ ہمارے ہا ں جب یو میہ 60 ملین روپے آ مدنی تھی تب بھی اس کے ملا ز مین تنخوا ہیں نہ ملنے کا رونا روتے تھے ۔ٹکٹ کے نر خو ں میں بھی 10فیصد ا ضافہ کیا گیا لیکن حالات ٹس سے مس نہ ہو ئے ۔اسے یتیم و مسکین بنا دیا گیاجبکہ ریلوے عوام کی سستی سواری تھی ۔
کراچی اپنی آ بادی اور وسعت کے لحاظ سے کو ئی حدود ہی نہیں رکھتا ۔2 کروڑ سے زائد آ بادی کا یہ شہر 5 ا ضلاع اور 18 ٹا ﺅنز پر مشتمل ہے ۔قیامِ پا کستان کے وقت اس کی آ با دی 5 لا کھ سے بھی کم تھی ۔اپنی قدرتی بندر گاہ اور اس وقت ایشیا کیلئے فضا ئی گزر گاہ” گیٹ وے ٹو ایشیا “ ہو نے کی وجہ سے یہ شہر دن دگنی اور رات چو گنی تر قی کرتا ہوا صنعتی اور اقتصادی اعتبار سے دنیا کے صفِ اول کے شہروں میں شامل ہو گیا ۔چا ہئے تو یہ تھا کہ اس کو تر قی کی جا نب گا مزن کیا جا تا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔اس کے عوام کو بنیا دی سہو لتوں سے محروم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھو ڑی گئی ۔جب سر برا ہو ں نے کر پشن کی تو ما تحتوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو ئے بلکہ غسل کیا ۔کر پٹ اہلکاروں نے انتہاءکرتے ہوئے ریل کی پٹریاں بھی فرو خت کردیں ۔سوال یہ ہے کہ لائف آف دی کنٹری یعنی ”حیاتِ ریاست“ کو اس کسمپرسی تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے ؟ آ مدو رفت کا بحران عوام کے لئے مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے ۔شا عر نے شاید انہی حالات کے لئے کہا ہے کہ:
ہے انتہائے یاس بھی اک انتہائے شوق
پھر آ گئے وہیں پہ چلے تھے جہا ں سے ہم
دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر صد فیصد محکمہ ریلوے کے حقیقی احوال کی عکاس ہے ۔افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکو متیں اور وزارتیں اہلیت و قابلیت کی بجائے کچھ لو اور کچھ دو کے ا صول کے تحت تقسیم ہو تی رہیں ۔اس تقسیم سے بیو رو کریسی مستفید ہو تی رہی ۔کسی نے نہ سوچا کہ زمینی را بطے کا یہ ذریعہ دفا عی اہمیت بھی رکھتا ہے ۔عسکری نقل و حمل کے لئے ریل بہترین ہے ۔آج کے حالات سے امید بندھی ہے کہ حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں ۔دیکھئے او نٹ کس کر و ٹ بیٹھتا ہے ۔کبھی ریلوے اتھا رٹی حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے اور کبھی حکو مت ان کو ۔اسی ر سہ کشی میں حالات سد ھر نے کی بجائے بگڑ تے جا رہے ہیں۔
کاش حکو متیں اس حقیقت کا ادراک کر لیںکہ عوام کے مسائل حل ہونے سے ہی حکومت اور عوام کے ما بین روا بط مستحکم اور اعتماد بحال ہو تا ہے ۔اس طرح ہی خو شگوار نتائج بر آ مد ہو نگے ۔ان شا ءاللہ۔