گزشتہ ہفتے راقم امریکہ اور کینیڈا میں دوستوں سے ملنے گیا ہوا تھا ۔یہ دوست کاروباری طبقے اور بینکنگ سے تعلق رکھتے تھے۔ ہمارے ایک پاکستانی بینک کی 50سالہ تقریب میںاُن کی خصوصی دعوت پر گیا تھا۔ وہاں بینکنگ پر کم اور پاکستان کی سیاست پر زیادہ بات چیت رہی ۔ہمارے یہ پاکستانی گزشتہ 3چار دہائیوں سے وہاں مقیم ہیں ۔ پی پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائیزیشن کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے ۔آج وہ سب کے سب کامیاب ترین بزنس مینوں میں شمار ہوتے ہیں ۔وہ موجودہ حکومتوں کی کرپشن پالیسیوں پر ناراض تھے ۔ اب جب نیب اور عدلیہ فوج کی مدد سے ان کو پکڑنا چاہتی ہے تو لیگی حامی ان اداروں کے خلاف ہوکر اس برائی کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔وہ نواز شریف کو ان کے نااہل رفقا یہ باور کرارہے ہیں کہ سرجی تسی ڈٹے رہو تسی شیر ہو ۔اس جھنجھلاہٹ میں ان سے ایسے ایسے بیان دلوارہے ہیں کہ خود اُنکی اپنی پارٹی ہی نہیں شہباز شریف بھی پریشان ہیںجو ان کا دفاع کرتے کرتے تھک گئے ہیں ۔ خصوصاًوہ بیان جو ان کی سیاسی حماقت ہی کہا جاسکتا ہے اور جسے صرف نامزدوزیراعظم خاقان عباسی اینڈ کمپنی Own کرکے یہ کہہ کر جان چھڑا رہے ہیںکہ یہ ہند کی شرارت ہے ۔میاں صاحب کی حب الوطنی کیلئے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں جبکہ خود قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ اس کی تردید کرتا ہے اور وہ نااہل وزیر اعظم کو پاکستان اور افواج پاکستان کو بدنام کرنے کا مرتکب قرار دیتا ہے مگر میاں صاحبان دُھٹائی پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ سرحد پار دہشت گردوں کو پاکستان سے بھیجا گیا تھا ۔
اجمل قصاب تو 2ماہ قبل سے ہی ہند میں پولیس کی قید میں تھا۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود تھی مگر Rawنے چالاکی سے اُس کو ملوث کرکے پچھلا ریکارڈ چھپا کر نیا ڈرامہ ترتیب دیا ۔پاکستانی حکومت کی نااہلی انہوں نے اجمل قصاب کو پاکستانی ماننے سے انکار کردیا ۔جس سے ہند مظلوم بن کر دنیا بھر سے ہمدردیاں سمیٹتا رہا مگر جب میاں صاحب نے اپنی کرپشن اور پانامہ لیکس کیس کو آخری مراحل میں داخل ہوتا دیکھا تو اس مقدمہ کے منطقی انجام سے بھاگنے کیلئے یہ گھنائو نا شوشہ چھوڑا ۔اب ان کے رفقا ء ان کا دفاع کرنے پر مجبور ہیں اور یہ کہہ کرکہ یہی باتیں اُس وقت عمران خان سمیت دیگر سیاسی رہنمابھی کہہ چکے ہیں وہ یہ بھول رہے ہیں کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پاکستان نے ممبئی بلاسٹ کیلئے دہشت گرد بھجوائے تھے ۔
خصوصی طور مسلم لیگ ن کے وزراء باربار قوم کو یہ باور کرارہے ہیں کہ وہ شخص جس نے تنہا امریکہ کے صدر بل کلنٹن کا مقابلہ کیا اور نیو کلیئر دھماکہ کرڈالا ،وہ کیسے غدار ہوسکتا ہے ۔اتفاق سے 16مئی کو ڈاکٹر اے کیو خان ہماری کے این اکیڈمی ملیر کیمپس میں عبدالقدیر خان آڈیٹوریم کے افتتاح کیلئے تشریف لائے ہوئے تھے۔میں نے ان سے پوچھا اس ایٹمی دھماکہ کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے تو انہوں نے بڑے دُکھی دل سے بتایا کہ میں اُس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب کو باربار ایٹمی دھماکہ کرنے کیلئے درخواست کرتا رہا وہ باربار ٹالتے رہے جب میں نے زیادہ دبائو ڈالا تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں اخبار والوں سے رائے طلب کی تو نوائے وقت کے مجید نظامی مرحوم کھڑے ہوگئے اور کہا ہم تو خوشخبری سننے کے منتظر تھے آپ ہم سے رائے پوچھ رہے ہیں ۔پھر بھی میاں صاحب جواب گول کرگئے ۔20مئی کو ڈاکٹر صاحب نے میاں کو صاف الفاظ میںخط لکھا ،اگر آپ نے دھماکے کا اعلان نہیں کیا تو وہ اور ان کے تمام رفقا ء مستعفی ہوجائیں گے اور وہ پریس کانفرنس میں قوم کو بتادیں گے کہ ہمارے ایٹمی دھماکے کے تمام انتظامات مکمل ہیں مگر وزیراعظم نواز شریف ٹال مٹول کررہے ہیں اور یہ خط ریکارڈ پر ہے، تب جاکر انہوں نے ہمت پکڑی پھر بھی دھماکے سے ایک دن قبل جب کلنٹن نے فون پر ایک پیکیج 8ارب ڈالر امداد کا پیش کیا تو اُس وقت کے فارن منسٹر گوہر ایوب خان 27مئی کو صبح وزیراعظم ہائو س آئے اور 28مئی کا پروگرام پوچھا تو شہباز شریف نے گوہر ایوب کو بتایاکہ کلنٹن صاحب کی نوازشریف سے ٹیلیفون پر بات چیت ہورہی ہے، اگر اچھا پیکیج ملا تو ہم یہ دھماکہ ملتوی کردیں گے تب گوہر ایوب صاحب نے بتایا جناب دھماکہ کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اور دوسرے مرحلے میں ہم پہنچ چکے ہیں لہذا اب یہ ملتوی نہیں ہوسکتا پھر قوم کو کیا جواب دیا جائیگا، تومجبور ہوکر میاں صاحب نے دُکھی دل سے فیصلہ تبدیل کرکے دھماکہ جاری رکھا ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر نے مزید بتایا نواز شریف صاحب چاغی بھی نہیں آئے یہ تمام ثبوت کی کلپ انہوں نے شام کو اسلام آباد واپس پہنچتے ہی مجھے بھجوائے یہ ایک ٹی وی چینل کے تھے جس میں اینکر طلعت حسین کو بھی لائیو فارن منسٹر گوہر ایوب تصدیق کررہے تھے ۔ اس کا سارا کریڈٹ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہی دے رہے تھے ۔یہ وزیراعظم نواز شریف کے دو چہرے کھل کر سامنے آتے جارہے ہیں بالکل جب وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے 2لاکھ بہاریوں کو پنجاب لاکر بسانے کا وعدہ کیا تھا مگر جب وزیراعظم بنے تو صرف 350 بہاریوں کا ایک جہاز بنگلہ دیش سے لاکر وعدہ بھلادیا ۔جس طرح قوم کی مظلوم بیٹی ڈاکٹرعافیہ جو امریکہ کی قید میں ہے آج تک اُس کی بہن ڈاکٹر فوزیہ سے لانے کا وعدہ کرنے کے باوجود ریمنڈ ڈیوس اور اب کرنل جوزف کے بدلے بھی بات نہیں کی اور راتوں رات اُن کی حکومت نے قاتل کرنل کو چھوڑدیا ۔
ان کے نامزد وزیراعظم خاقان عباسی امریکہ میں پی آئی اے کے روزویلٹ ہوٹل کا سودا 2ارب ڈالر کے بدلے صرف 600 ملین ڈالر میں خاموشی سے کرکے آئے ہیں ۔ پنجاب کے کالم نویس یک زبان آج ان کو سیکیورٹی رسک بتار ہے ہیں وہ اپنی ذات کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔اگر ان کو لگام نہیں ڈالیں گے توپاکستان، عدلیہ،فوج،نیب،ایف آئی اے کو بھی بدنامی میں آخری درجے تک لے جاسکتے ہیں مگر قدرت نے ہر ظالم کا وقت مقرر کررکھاہے حالات بتارہے ہیں اُن کاانجام اب آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔
تعجب ہے وہ 3مرتبہ معزول اور اب نااہل ہونے کے باوجو د اپنے آپ کو شیر ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر اب وہ سیاست کے میدان میں بکری بن چکے ہیں اور یہ کارنامہ بھی ان کے خوشامدی عاقبت نا اندیش رفقاء نے ہی اس انجام تک پہنچایا ہے ۔کا ش وہ اب بھی ہوش کے ناخن لیں اور مزید غلطیاں نہ دہرائیں ۔