Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہتھیار اور احتجاج کا چولی دامن کا ساتھ

***وسعت اللہ خان ***
آپ اپنے کسی بھی دادا یا نانا سے پوچھ لیجئے کہ ان کے زمانے میں نہ پیلٹ گنز تھیں ، نہ پانی کی توپیں اور نہ ہی ہجوم کی نگرانی کرنے اور وڈیوز بنانے والے ہیلی کاپٹر ، بس ایک سپاہی ہوتا تھا اور وہی ریاست کا نمائندہ ہوتا تھا ۔ریاست طاقت دکھا کے نہیں بلکہ قانون کے رعب و دبدبے  کے بل پر چلتی تھی۔
  پولیس والے کی کمر سے لگا فٹ بھر کا ڈنڈا غصیلے شہریوں کو قابو میں رکھنے کے لئے کافی سمجھا جاتا تھا۔ یہ ڈنڈا سب سے پہلے لندن پولیس کو 1848ء میں فراہم کیا گیا۔مگر ہجوم کو منتشر کرنے کی تربیت و آلات سے مسلح  پہلا خصوصی پولیس دستہ چین کے شہر شنگھائی میں 1925ء میں برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے استعمال کیا۔اس وقت کا شنگھائی افیون کی تجارت کے سبب اسمگلنگ اور جرائم پیشہ مافیا کا عظیم مرکز تھا۔برطانوی ہندوستان میں پولیس کا سب سے بڑا ہتھیار5،5  فٹ کی وہ لاٹھیاں تھیں جنکے ایک سرے پر لوہے کا سانچہ منڈھا ہوتا تھا۔ مجمع پھر بھی قابو میں نہ آتا تو پولیس کو پہلے ہوائی فائرنگ اور پھر سیدھی گولی چلانے کا حکم ملتا۔یوں درجنوں مظاہرین ہلاک ہو جاتے۔
مگر 60 کے عشرے میں امریکہ ، برطانیہ اور بعد ازاں اسرائیل نے کراؤڈ کنٹرول کے لئے نت نئے غیر مہلک موثر ہتھیار بنانے پر سنجیدگی سے کام شروع کیا۔آج دنیا بھر میں کراؤڈ کنٹرول کے لئے جو ہتھیار یا مواد استعمال ہو رہا ہے وہ زیادہ تر برطانیہ اور امریکہ کی عرق ریزی کی دین ہے۔
60کے عشرے میں امریکہ میں سیاہ فاموں نے شہری آزادیوں کے لئے مظاہرے شروع کئے تو انہیں منتشر کرنے کیلئے تربیت یافتہ کتوں ، گھڑ سوار پولیس دستوں اور سی ایس گیس  ( آنسو گیس )  کے گولوں کا استعمال شروع ہوا۔بعد کے برسوں میں پیپر ا سپرے (مرچیلی پھوار ) بھی آزمایا جانے لگا۔اس کے استعمال سے وقتی اندھا پن اور متلی جنم لیتی ہے اور نشانہ بننے والا کچھ دیر کیلئے مفلوج ہوجاتا ہے۔ ہند میں ڈرونز کے زریعے مرچ مصالحہ بم گرانے کے تجربات ہو رہے ہیں۔ممکن ہے کشمیر جیسے خطوں میں اگلی بار مظاہرین کو کنٹرول کرنے کیلئے ریموٹ کنٹرولڈ مصالحے دار ڈرونز استعمال ہوں۔ڈرون ٹیکنالوجی کے زریعے فضا سے سی ایس گیس کے شیل گرانا بھی ممکن ہے۔
60 کے عشرے میں ہی امریکہ میں شہری آزادیوں کے طالبوں کے خلاف واٹر کینن ( آبی توپ )  کا استعمال شروع ہوا۔اس میں بعد ازاں نت نئی اختراعات ڈالی گئیں۔جیسے رنگین پانی کا پریشر پائپ استعمال کرنے سے نہ صرف مجمع اکھڑ جاتا ہے بلکہ جس جس پر یہ رنگین پانی پڑتا ہے اسے بعد ازاں حراست میں لینا آسان ہوتا ہے۔فلسطینی انتفادہ کے دوران اور آج بھی اسرائیلی پولیس اور فوج جو آبی توپیں استعمال کرتی ہے ان میں کیمیکلز کی مدد سے ایسی بدبو پیدا کی جاتی ہے جو کئی کئی دن بدن سے نہیں جاتی۔اس کے علاوہ گلے سڑے پھلوں ، انڈوں اور انسانی فضلے کی شدید بو پیدا کرنے والے ا سٹنک بم بھی متعدد ممالک کے پولیس اسلحہ خانوں میں پڑے ہیں۔
ربڑ کی گولیوں کا پہلے پہل استعمال برطانوی فوج نے1970ء میں شمالی آئرلینڈ کے فسادات پر قابو پانے کیلئے شروع کیا۔ 1973ء میں پلاسٹک کی گولیاں بھی استعمال ہونے لگیں۔70ء  سے2005ء کے درمیان برطانوی فوج نے شمالی آئر لینڈ میں سوا لاکھ سے زائد ربر اور پلاسٹک کی گولیاں فائر کیں۔ان سے 17ہلاکتیں ہوئیں۔100 سے زائد لوگ معذور اور ان گنت زخمی ہوئے۔اسرائیلی دستے ربڑ کی گولیاں بکثرت استعمال کرتے ہیں۔جبکہ امریکی پولیس اور برطانوی نوآبادیاتی دور کی ہانگ کانگ پولیس نے نوکیلی چوبی گولیوں کو بھی مظاہرین پر بارہا  آزمایا۔کہنے کو ربڑ ، پلاسٹک یا لکڑی کی گولیاں غیر مہلک بتائی جاتی ہیں بس ہڈی ہی تو توڑ سکتی ہیں اور قریب سے فائر کی جائیں تو بس اندرونی اعضا کو نقصان ہی تو پہنچا سکتی ہیں۔
اور اب امریکہ میں 21ویں صدی کے ہجوم کو کنٹرول کرنے کیلئے21ویں صدی کا ہتھیار لراڈ ( لانگ رینج ایکوئسٹک ڈیوائس ) بھی میدان میں اتار دیا گیا ہے۔لراڈ ایک سائرن کی طرح ہے۔اس  کی آواز اس قدر شدید ہے کہ اسے شوریدہ سمندر میں ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر تیرتے جہازوں کو پیغام پہنچانے کے لئے تخلیق کیا گیا۔لراڈ کی مدد سے مشرقی افریقی ساحل پر متحرک بحری قزاقوں کا حوصلہ پست کرنے کا بھی کام لیا جاتا ہے۔ہنگامی حالات میں اسے لوگوں کو خبردار کرنے کے بھی کام لایا جاتا ہے۔مگر اب اسے مجمع بھگانے کیلئے برتا جا رہا ہے۔ امریکہ میں وال ا سٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک کے مظاہرین اور گزشتہ برس فرگوسن میں سیاہ فام بے چینی کو کنٹرول کرنے کے لئے لراڈ کا استعمال ہو چکا ہے۔ صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے لراڈ سے اتنی فریکوئنسی کی  آواز پیدا کی جاسکتی  ہے گویا صورِ اسرافیل پھونک دیا گیا ہو۔مظاہرین عارضی طور پر بہرے اور شدید سر درد میں مبتلا ہو کر اپنے حواس کھو سکتے ہیں۔
کراؤڈ کنٹرول آلات کی تیاری کرنے والی ایک امریکی کمپنی تیسر انٹرنیشنل نے شاک ویو ڈیوائس کی تیاری بھی شروع کردی ہے۔ ایک شیل میں 25 فٹ یا اس سے زیادہ کی تارگچھے کی شکل میں ہوتی ہے اور جب یہ شیل فائر کیا جاتا ہے تو تار ایک ہلال کی صورت مجمع پر گرتی ہے۔جس جس کا جسم چھوتا ہے اسے 20 سیکنڈ کیلئے اتنے شدید برقی جھٹکے  لگتے رہتے ہیں کہ انسان باؤلا ہوجائے اور پھر متاثرین کی گرفتاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ امریکی فوج نے عراق میں ڈائزل لیزر بھی استعمال کی ہے۔ایم فور رائفل پر یہ لیزر ڈیوائس باآسانی نصب ہو سکتا ہے اور اس سے نکلنے والی سبز شعاع چند گھنٹے کے لئے اندھا کر سکتی ہے۔امریکی فوج اس آلے کا استعمال فوجی چوکیوں کے قریب آنے والے مشکوک عراقی ڈرائیوروں کے خلاف کرتی رہی ہے۔
زیادہ تر کراؤڈ کنٹرول آلات شروع میں فوجی مقاصد کے لئے ڈیولپ کئے جاتے ہیں اور بعد میں ان کا سویلین استعمال شروع ہو جاتا ہے۔مظاہرین اور کنٹرول کرنے والوں کے درمیان یہ دوڑ نہ ختم ہونے والی ہے۔مگر ہر نیا جبر اپنے ہتھیار اور ان کا توڑ لاتا رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شیئر: