دھوکہ دینا آسان اور سمجھانا مشکل
پاکستانی جمہوریت ہر وقت لرزتی رہتی ہے حالانکہ سیاستدانوں کو جمہوریت جمہوریت کھیلنے کا شوق بہت ہے
* * * *
وسعت اللہ خان
جمہوریت کی تعریف میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اب تک دنیا میں جتنے بھی نظام ہائے حکومت آئے جمہوریت میں ان میں سب سے کم برا نظام ہے۔جمہوری نظام کسی ایک شے کا نہیں بلکہ پیکیج کا نام ہے۔ ایک جزو بھی کم ہو تو پورے پیکیج کی افادیت کمزور پڑ جاتی ہے۔
شخصی یا گروہی آمریت کو طاقت پر انحصار کی سہولت حاصل ہے اور طاقت خوفِ جوابدہی سے آزاد ہوتی ہے۔مگر جمہوریت میں سے جوابدہی کا عنصر نکال دیا جائے تو وہ کوئی بھی نظام ہو سکتا ہے پر جمہوریت نہیں۔
یوں سمجھ لیجئے کہ جمہوری نظام کی تعمیر بندرگاہ بنانے جیسا ہے۔صرف کشتیوں کے لئے جیٹی بنا دینا بندرگاہ نہیں۔آپ کو ایسی برتھیں تعمیر کرنا پڑتی ہیں جنہیں نمکین پانی نقصان نہ پہنچا سکے ، ان برتھوں کی گنجائش اتنی ہو کہ ان پر ہر حجم کے جہاز لنگر انداز ہو سکیں۔دیوہیکل کرینیں نصب کی جا سکیں۔مال بردار ٹرک آسانی سے نقل و حرکت کر سکیں۔ایسی برتھوں کی تعمیر کے لئے موزوں میٹیریل ، ڈیزائن ، ماہرینِ تعمیرات ، معیاری تعمیراتی مشینری اور اس مشینری کو استعمال کرنے کے لئے ماہر ہاتھ درکار ہیں۔اور پھر صرف برتھیں بنانے سے تو بندرگاہ مکمل نہیں ہو گی جب تک کہ ایک بڑا سا کسٹم ہاؤس اور پھر مسافروں کی آمد و روانگی و طعام و قیام کے لئے مناسب بنیادی سہولتیں میسر نہ ہوں۔ اس بندرگاہ کا رابطہ دیگر علاقوں سے جوڑنے کے لئے ایسی سڑکیں ہوں جو ہر طرح کا ہلکا بھاری ٹریفک برداشت کر سکیں۔غرض بندرگاہ کی تعمیر پوری نئی دنیا بسانے جیسا ہے۔اور اس سے بھی اہم مسلسل نگہداشت و مین ٹیننس کاذیلی نظام ہے جو ناقص ہو تو ساری محنت اکارت ہو جاتی ہے۔
اب آئیے جمہوریت کی جانب۔صرف یہ سمجھ لینا کہ ایک عدد آئین بنا کر اس میں یہ لکھ دو کہ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور ایک غیر جانبدار عدالتی نظام ہوگا اور یہ کہ تمام شہری اپنی مرضی سے اپنے نمائندے چننے کے لئے با اختیار ہیں اور یہی نمائندے حکومت تشکیل دیں گے اور ووٹروں کی امنگوں کے مطابق پالیسیاں بنائیں اور نافذ کروائیں گے۔اور اس اختیار کی ہر بار ایک طے شدہ مقررہ مدت کے بعد انتخابی تجدید ہوگی اور اس انتخاب کا انتظام ایک الیکشن کمیشن کرے گا اور پھر جمہوری عمل نافذ ہوجائے گا اور خود بخود آگے بڑھتا جائے گا۔مگر ایسے کہاں ہوتا ہے۔
اگر آپ واقعی جمہوریت کے دلدادہ ہیں اور اس کے تھوڑے بہت ثمرات سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو پھر یہ سمجھ لیجئے کہ آئین ، عدلیہ ، انتظامیہ ، مقننہ ، الیکشن ، پولنگ ، سیاسی جماعتیں ، سیاستداں۔یہ سب بذاتِ خود جمہوریت نہیں لا سکتے۔یہ سب اس عمارت کی تعمیر کے لئے پلاٹ ، اینٹوں سیمنٹ ، بجری ، گارے ، سریے اور لکڑی جیسے ہیں جن سے جمہوری ریاست کی عمارت تعمیر ہونی ہے۔بذاتِ خود ان اشیا کا ایک ساتھ ڈھیر لگا دینے کو ملبہ تو کہا جا سکتا ہے عمارت نہیں۔
جمہوریت کی دکان میں بھانت بھانت کے ڈیزائن سجے ہیں۔سب سے پہلے تو آپ کو جن جن ’’ معتبرین ’’ پر اعتماد ہے انہیں بیٹھ کر یہ طے کرنا ہوگا کہ آپ کے ملک کی سیاسی ، سماجی ، علاقائی و نسلی ساخت کے اعتبار سے کس شکل اور سائز کی جمہوریت مناسب ہے۔اور جب ساخت پر اتفاق ہوجائے تو پھر اگلا مرحلہ یہ ہے کہ ایسے کون سے ذیلی تعلیمی ، مباحثی راستے اختیار کئے جائیں جن پر عدم برداشت اور تنگ نظری کی جھاڑیاں کم سے کم ہوں۔پھر جب ہر ادارے کا دائرہ کار طے ہوجائے تو پھر ان اداروں پر یہ واضح ہو کہ کون سی ایسی قوتیں ہیں جنہیں نیوٹرائلز کرنا یا جمہوری دھارے میں لانے کی کوشش کرنا یا انکار کی صورت میں قلع قمع کرنا ہے۔تاکہ یہ امر یقینی ہو سکے کہ بھیڑ کی کھال پہن کر جمہوری میوزیکل چییر گیم میں گھسنے اور اس پر استبدادی پنجے گاڑنے والوں کا راستہ بند ہو سکے۔
اس کی واحد صورت یہ ہے کہ جمہوریت کے کھیل میں شریک کھلاڑی کوئی ایسی سنگین حرکت نہ کریں جس کے سبب تماشائیوں (ووٹروں ) کا کھیل پر سے اعتماد اٹھنے لگے اور اتائیوں کو تماشائی گمراہ کرنے کا موقع مل سکے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کھیل میں صرف انہیں شریک ہونے کی اجازت ہو جن کے بارے میں اطمینان ہو کہ وہ قواعد و ضوابط کی پابندی کریں گے اور طے شدہ آزادیوں کا کسی بھی الہامی و غیر الہامی عذر کے سہارے گلا نہیں گھونٹیں گے۔
دورِ حاضر میں اس کی سب سے بڑی مثال ہٹلر ہے جو مروجہ جمہوری قواعد و ضوابط کے راستے ہی جرمنی پر مسلط ہونے میں کامیاب ہوا۔ہند میں بی جے پی کے نظریے نے جمہوری دروازے کو ہی اپنے فروغ کے لئے استعمال کیا۔پاکستان کے سیاستدانوں کو شوق تو بہت رہا ہے جمہوریت جمہوریت کھیلنے کا لیکن چونکہ جمہوریت ہوتی کیا ہے اور اس کی حفاظت کیسے ہوتی ہے کا سوال کلئیر نہیں ہے لہذا پاکستانی جمہوریت ہر وقت 16 برس کی دوشیزہ کی طرح لرزتی رہتی ہے کہ کچھ غلط نہ ہوجائے۔
مورل آف دی اسٹوری : جمہوریت کے پودے کو تناور درخت بننے تک اور تناور درخت بننے کے بعد بھی مسلسل نگہداشت اور کسی بھی جانب سے اچانک اٹھنے والی آندھی اور بادِ صموم سے تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ تحفظ کوئی ایک فرد یا گروہ یا طبقہ نہیں دے سکتا۔پوری ریاست اور اس میں بسنے والے لوگ کر سکتے ہیں۔ذرا سی غفلت و تساہل مضبوط سے مضبوط درخت کو بھی کیڑا لگانے کے لئے کافی ہے۔لہذا جو لوگ یہ مہنگا شوق پالنا چاہتے ہیں انہیں اس شوق کے ساتھ لگی ذمہ داریاں اور ان کی قیمت بھی معلوم ہونا چاہئے۔
’’ لوگوں کو دھوکہ دینا کہیں آسان اور انہیں یہ سمجھانا کہیں مشکل ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے‘‘ ( مارک ٹوین )۔