رمضان ، فرمانبرداری کی مشق کا مہینہ
رمضان کا روزہ چھوٹا روزہ ہے اور اسلام کا روزہ بڑا روزہ ہے، اسلام کا روزہ بالغ ہونے سے شروع ہوتا ہے اور موت کی ہچکی پر افطار ہوتاہے
* * * محمد کبیر بٹ ۔ ریاض* * *
حقیت یہ ہے کہ رمضان المبارک کے بے حدوحساب فیوض و برکات کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ رب کائنات نے اپنے گنہگار بندوں کو معاف کرنے اور اپنے قرب سے نوازنے کا فیصلہ فرمایاہے۔ وہ کمزور اور خطاکار انسان جو اپنے عمل کی بنیاد پر حسابِ یسیرکا متحمل بھی نہیں ہوسکتااور نہ ہی استحقاق کے طور پر مغفرت کا سوچ سکتا ہے اُس کے بچنے کی ایک ہی صورت ہوسکتی ہے اور وہ ہے اللہ کریم کا بے پایاں فضل و احسان ہے لہذا گنہگارو!اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اسکی مغفرت کے حصول کے لئے دلوں کی کھیتی کو پہلے سے تیار کروکہ خیروشرکا منبع اور سرچشمہ انسان کا دل ہے۔
بخای شریف کی روایت ہے ’’سنو !انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، وہ درست ہوجائے تو ساراجسم درست ہوجاتا ہے ۔ اگر اس میں بگاڑ اورفساد پیدا ہوجائے تو سارا جسم بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے، سنو!اسی کا نام دل ہے۔‘‘
سیدناابوہریرہؓفرماتے ہیں کہ’’ دل انسانی جسم کا بادشاہ ہوتا ہے اور اعضاء اور جوارح اسکا لشکر ہوتے ہیں۔ ‘‘بادشاہ یعنی دل اللہ کا مطیع و فرمانبردار اور وفادار ہے تو اس کا لشکر(اعضاء و جوارح) سب مطیع و فرمانبردار ہونگے اوراگر بادشاہ ہی نافرمان اور باغی ہوجائے تو اس کا لشکر بھی نافرمان بن جائیگا۔ یہ اللہ کے نبیکے فرمان کی بہترین تشریح ہے۔ آئیے اس بات کا جائزہ لیں کہ دل کی اصلاح یعنی تزکیۂ نفس میں روزے کا کردار کیا ہے؟ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اے لوگو!تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگاربن جاؤ۔‘‘(القرآن)۔
روزوں کی فرضیت کا یہ پہلا حکم تھا جو 2ھ میں مدینہ طیبہ میں نازل ہوا۔ روزے کیلئے عربی زبان میں لفظ ’’صوم‘‘استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ ہیں رکنا، باز رہنا۔ عرب گھوڑے کے منہ پر توبڑا ڈال کر اسے بھوکا پیاسا رکھتے تھے اور شدت کی گرمی میں لو کے تھپیڑوں میں اسے بھگاتے تھے اور اس عمل کو صوم کہتے تھے تاکہ حالت جنگ میں گھوڑا بھوک پیاس برداشت کرنے کا عادی بھی ہوجائے اور سخت مشقت کیلئے بھی تیار ہو۔اب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ نفس کے گھوڑے کو بھوک پیاس کی لگام ڈال کر اسے رب کریم کی اطاعت کا عادی بناؤ اور اس عمل کی مشق ہرسال ایک مہینہ مسلسل کروائی جاتی ہے ۔
نفس کی 3اقسام ہیں جن میں ایک نفس امّارہ ہے،یہ وہ نفس ہے جو ہمیشہ انسانی جسم کو خواہشات اور لذتوں کی طرف ڈھکیلتا اور کھینچتا رہتا ہے ۔ سیدنا یوسف ؑ کوجب زلیخانے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تو آپ فرماتے ہیں اِنَّ النَفْسَ لأمّارَۃٌبّاالسُّوء اِلاَّمَارَحِمَ ربِّی ’’نفس تو برائی پر اُبھارنے والا ہی ہے مگر یہ کہ میرا رب ہی رحم فرمائے۔ ‘‘گویا کہ نفس امّارہ تو برائی ہی کی طرف ابھارتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بچالیتا ہے ۔ نبی نے فرمایا ہے کہ: الصّومُ جُنَّۃٌ ’’ روزہ ڈھال ہے۔‘‘ یعنی خواہشاتِ نفس اور شیطانی حملوں سے انسان کو بچاتا ہے ۔رسول اللہ کا فرمان ہے کہ ’’جب تم میں سے کوئی روزے کی حالت میں ہوتو نہ گالی گلوچ اور بدکلامی کرے اور نہ کوئی بے حیائی کا کام کرے اور اگر کوئی اسے برا بھلا کہے یا لڑائی جھگڑا کرے تو وہ اس کے جواب میں کہے کہ میں تو روزے سے ہوں۔‘‘(رواہ امام احمد) اس کا مطلب یہ ہوا کہ روزے کی حالت میں آدمی کو صبر وبرداشت سے کام لینا چاہیئے۔ جب آدمی کے ساتھ کوئی لڑائی جھگڑا یا تنازع ہوتا ہے تو انسان کو لازماً غصہ آتا ہے اور غیظ و غضب کی حالت میں نفسِ انسان کو جو چوٹ لگتی ہے وہ فوراً ترکی بہ ترکی جواب کا تقاضا کرتا ہے ۔ ایسی حالت میں روزہ نفس کو ایسی لگام ڈال دیتا ہے کہ وہ اس کی اکساہٹ کے باوجود خاموش رہ کر اجر عظیم حاصل کرلیتا ہے اسی لئے نبی نے فرمایا’’ روزہ تو نام ہے صبر کا اور صبر کی جزاجنت ہے ۔‘‘
انسانی جسم کے 3اہم تقاضے اور مطالبات ہیں ۔ بھوک ، پیاس، آرام اور نیند اور جنسی لذت کا حصول ۔ یہ محض خواہشات ہی نہیں بلکہ جسم کی صحت اور سلامتی اور نسلِ انسانی کے ارتقاء کیلئے اہم ترین ضروریات بھی ہیں۔ ان ضروریات کا حد سے زیادہ تجاوز بگاڑاور فساد کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔ روزہ وہ عبادت ہے جو نفس انسانی کے ان مطالبات اور داعیات کو اعتدال کی راہ پر لاتاہے۔
امام ابن جوزی اپنی شہرہ آفاق تصنیف’’ منہاج القاصدین ‘‘میں لکھتے ہیں : خواہشات کھانے پینے سے قوت پکڑتی ہیں، جب تک خواہشات کی زمین ہری بھری رہیگی شیطان اس چراگاہ میں آتے ہی رہیں گے البتہ خواہشات ختم ہونے سے ان پر راستے تنگ ہوجاتے ہیں۔ ‘‘یہی مطلب ہے اس حدیث کا جس میں اللہ کے نبیفرماتے ہیں ’’رمضان میں شیاطین کو جکڑدیا جاتاہے۔‘‘انسان جب پیٹ بھر کرکھاتا ہے اور خواہش کے مطابق مرغوباتِ نفس کا اہتمام کرتا ہے پھر لمبی تان کر خوب سوتا ہے تو نفس امّارہ کے منہ زورگھوڑے کو خوب طاقت حاصل ہوتی ہے تو پھر وہ ’’ھَلْ مِنْ مَزِیْد‘‘ کی صدا لگاتا ہے اور اس کی یہ پیاس بجھتی نہیں بلکہ بڑھتی ہی جاتی ہے ۔ روزہ ان خواہشات کو ایمان کی لگام ڈال کر اعتدال کی راہ پر لاتا ہے ۔
رسول اللہ نے ایمان کی تعریف یوں کی ہے: لاَیُومِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعاً لِماَ جِئتْ بِہ ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو ا س چیز کے تابع نہ کردے جو میں لایا ہوں۔‘‘ سید مودودیؒفرماتے ہیں کہ ’’ایمانِ حقیقی کا مرتبہ یہ ہے کہ آدمی کا نفس وہی چاہنے لگے جو خود اللہ چاہتا ہے یعنی وہی چیز پسند کرے جو اللہ تعالیٰ کی پسند ہو اور اس چیز کو ناپسند کرے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے۔آئیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ روزے سے یہ کیفیت کیسے حاصل ہوتی ہے ؟
روزے کا عمل سحری سے شروع ہوتا ہے۔ نبی نے فرمایا ’’سحری کھاؤ ،سحری میں برکت ہے۔‘‘ اور سحری میں تاخیر کو پسند فرمایا۔ کھانے کے معاملے میں آپ نے فرمایا کہ پیٹ کو 3حصوں میں تقسیم کیا جائے اور کھانا کم سے کم کھایا جائے جو انسان کی کمر سیدھی رکھنے کیلئے کافی ہو،نیز آپ نے فرمایا ’’انسان جن چیزوں کو بھرتا ہے ان میں سے بدترین عمل پیٹ کا بھرنا ہے ۔‘‘ بسیارخوری کو آپ سخت ناپسند فرماتے تھے۔ اب ان ہدایات کی روشنی میں ایک مسلمان کم سے کم کھانے پر اکتفاکرے اورسحری سے روزے کی نیت کرکے دن بھر کھانے پینے سے رکا رہے اور دن بھر محنت مشقت کے کام بھی کرے ۔ روزے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم کھاکر دن بھرسوئے پڑے رہیں۔اب دن بھر آدمی کو بھوک پیاس ستا رہی ہے لیکن روزہ اسے خواہش سے روک رہا ہے حتیٰ کہ تنہائی میں بھی ایک مسلمان کچھ نہیں کھاتا پیتا،وہ صرف اللہ کی رضا کا طالب ہے اور اس سے ڈرتا ہے اور یہی روزے کا مقصد اور حاصل ہے جس کو قرآن نے تقویٰ کانام دیا ہے ۔
تقویٰ کے معنیٰ ہیں بچنا اور رکنا۔ اللہ کی نافرمانی سے بچنا اور خواہشاتِ نفس سے رکنا۔ تقویٰ کے دوسرے معنیٰ ہیں اللہ تعالیٰ کا خوف ،ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور اس کے حکم کی خلاف ورزی سے بچنا اور اس کی ہدایات پر عمل کرنا ۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کا یہی مقصد بیان فرمایا: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ’’تاکہ تم متقی ( پرہیز گار ) بن جاؤ۔ ‘‘
جب ہم سحری کھارہے ہوتے ہیں،اذان کی آواز آتے ہی فوراً ہم کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ دن بھرکھانے سے رکے رہتے ہیں ،مغرب کے وقت انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات سامنے رکھے ہیں۔آدمی کسی چیز کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا۔ اذان کی آواز آتی ہے ہم بسم اللہ کرتے ہیں اور کھاناپینا شروع کردیتے ہیں۔ اس عمل پر ذرا غور کیجئے یہ سب کیا ہے؟ یہ اس چیز کی مشق کرائی جارہی ہے کہ ایک مسلمان کھانے پینے کے معاملے میں آزاد و خودمختار نہیں بلکہ رب کی مرضی کا پابند ہے۔ اسے کھانا اس وقت کھانا چاہیئے جب شدید ضرورت ہو اور وہ کچھ کھانا چاہیئے جس کے کھانے کی اللہ نے اجازت دی ہو حتیٰ کہ اگر وہ حلال کھانے سے بھی روک دے تو رک جانا چاہیئے ۔ اب اگر یہ عمل محض ایک روٹین سمجھ کر نہ کیا جائے بلکہ اصل حقیقت پر غور کیا جائے تو روزہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی زبردست مشق ہے جس کے ذریعے بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی چیزوں سے رک جاتا ہے اور اس کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔
روزہ محض کھاناپینا چھوڑنے کا نام نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے باز رہنے کی مشق ہے جو ایک مہینہ اس لئے کروائی جاتی ہے تاکہ بندۂ مومن اسی طرح ساری زندگی اپنے رب کی رضا کے کام کرے اور اس کو ناراض کرنیوالے عمل ترک کردے۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒنے کتنی عمدہ مثال دی ہے ،فرماتے ہیں ’’رمضان کا روزہ چھوٹا روزہ ہے اور اسلام کا روزہ بڑا روزہ ہے۔ اسلام کے روزے سے مراد یہ ہے کہ جس طرح ہم طلوعِ آفتاب تک اللہ کے احکامات کی اطاعت کرتے ہیں اور پورے جسم و جان کو روزے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچاتے ہیں اسی طرح بالغ ہونے سے لیکر موت کے آنے تک پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں۔ رمضان کا روزہ طلوع ِفجر سے شروع ہوتا ہے اور غروب آفتاب تک رہتا ہے جبکہ اسلام کا روزہ بالغ ہونے سے شروع ہوتا ہے اور موت کی ہچکی پر افطار ہوتاہے۔‘‘
روزے کی اصل حقیقت یہی ہے کہ آدمی اپنے اعضاء و جوارح کو اپنے آقاومالک کی نافرمانی سے بچائے،بدقسمتی سے بعض لوگ روزے کے اس مقصد کو نہ سمجھنے کی وجہ سے زبان سے گالی گلوچ، غیبتیں، جھوٹ اور کانوں کا روزہ نہ رکھ کر موسیقی سے دل بہلاتے ہیں ۔ آنکھوں سے بے حیائی کے مناظر اور غیر محرم کو دیکھتے ہیں اور وقت پاس کرنے کیلئے گھنٹوں ٹی وی اور انٹرنیٹ سے دل بہلاتے ہیں۔ کوئی تاش لیکر بیٹھ جاتا ہے، علی ھذاالقیاس۔لوگ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ انہوں نے صبح سے شام تک منہ باندھ لینے اور جنسی خواہش سے رکے رہنے کا نام روزہ سمجھ لیا ہے۔ نبی کا فرمان ہے: مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِوَالْعَمَلَ بہ فَلَیْسَ ِللّٰہ حَاجَۃً فِیْ اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہُ وَشَرابَہُ ’’جس کسی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا ہی نہ چھوڑا تو اس کا کھانا پینا چھڑ ادینے کی اللہ کو کوئی حاجت نہیں۔‘‘یعنی کھانا پینا چھوڑدینا کوئی مقصد نہیں بلکہ یہ تو محض اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی نافرمانی کو چھوڑدینے کی مشق ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح آدمی دن بھر کھانا پینا چھوڑدیتا ہے اسی طرح ساری زندگی اپنے جسم کے تمام اعضاء کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچائے ۔ اگر روزے سے یہ مقصد حاصل نہ ہوتو سوائے بھوک پیاس کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ ارشاد نبیہے:اِنَّ الصِّیامَ جُنَّۃٌ مَالَمْ یَخْرِقْھَاقِیْلَ بِمَایَخْرِقُھَا؟قَالَ بِکِذْبِِ اَوْغِیْبَۃ ’’ بیشک روزہ ڈھال ہے ( جو گناہوں اور شیطان کے حملوں سے بچاتا ہے) یہاں تک کہ اس ڈھال میں سوراخ نہ کردیا جائے۔‘‘ آپ سے پوچھا گیا کہ کس چیز سے وہ سوراخ ہوتا ہے تو آپ نے فرمایا ’’جھوٹ اور غیبت سے ۔‘‘(رواہ نسائی و امام احمد والبیہقی)۔
یہاں جھوٹ اور غیبت کو بطور مثال بیان کیا گیا ہے۔ اصل حقیقت تو یہ سمجھانا ہے کہ جس طرح جھوٹ اور غیبت جیسے گناہوں سے زبان کا روزہ بیکارہوجاتا ہے اسی طرح دیگراعضاء و جوارح سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرنے سے ان اعضاء کا روزہ بھی ختم ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حدیث نبویؐ ہے ’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں کہ اس قیام سے رت جگے کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔‘‘
آج ہمارے روزوں اور تراویح کا یہی حال ہے الاماشاء اللہ!جولوگ سحری کے وقت خوب پیٹ بھر کر کھاتے ہیں پھر دن بھر ان کو ڈکارآتی رہتی ہے اور پھر شام کو افطاری کے بعد اس قدر کھاتے ہیں کہ ان کیلئے نماز ادا کرنا اور رات کو قیام کرنا مشکل ہوجاتا ہے تو ایسے لوگ بھی روزے کے مقصد ِحقیقی سے غافل ہیں جس طرح سحری کے وقت پیٹ بھرتے ہوئے نبی کی ہدایت کو پیش نظر رکھنا چاہیئے اسی طرح افطاری کے بعد اور رات کے کھانے میں بھی حدیث نبویؐ اور سنت رسول کو پیش نظر رکھنا چاہیئے تبھی روزے کا اصل مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔
کھانے پینے کی خواہش اور روزے سے اس خواش اور ضرورت کو اعتدال پر لانے کی اس بحث کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان المبارک نیند اور آرام کے معاملے میں ہماری کیسی تربیت کرتا ہے۔ افطاری کے فوراً بعد ہم پیٹ بھر کر کھانے کے بجائے نماز مغرب کی طرف چل پڑتے ہیں پھر آکر کھانا وغیرہ کھاتے ہیں، اس میں بھی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم کم سے کم پرگزارہ کریںتاکہ نماز تراویح میں نیند نہ آجائے ۔ عموماًکھانے کے بعد نیند اور آرام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن ماہ رمضان ہماری یہ تربیت کرتا ہے کہ کم سے کم کھاؤ اور عبادت کی لذت حاصل کرو۔ اب رات کو نماز تراویح کے بعد کچھ وقت آرام کے لئے ملتا ہے پھر گہری نیند کے وقت آرام کو چھوڑکرجونفس کی بڑی اہم خواہش ہوتی ہے ہم سحری کیلئے اٹھ جاتے ہیں ۔ گرمی کے طویل دنوں اور قصیر راتوں میں یہ تجربہ بڑا ہی کارگراورنفس پر گراں گزرتا ہے لیکن اس کی مسلسل مشق ایک مہینہ ہوتی ہے پھر سحری کے وقت عموماً کھانے کو جی نہیں چاہتا لیکن بادل ناخواستہ بھی ہم کچھ کھاپی لیتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ روزہ ہمیں مسلسل یہ تربیت دے رہا ہے کہ مسلمان خواہشاتِ نفس کے پیچھے دوڑنے والا نہیں ہوتا وہ خواہشات کو اللہ کی اطاعت کے تابع بناکر اس کی فرمانبرداری کا خوگربناتا ہے۔