ڈاکٹر فہد بن محمد جمعہ۔ الریاض
سعودی مجلس شوریٰ میں مقامی شہریوں کے محنتانے کی کم از کم حد 6ہزار ریال مقرر کرنے کی سفارش زیر بحث ہے۔ جلد اسکا فیصلہ متوقع ہے۔نجی ادارے کے ہر سعودی ملازم کو کم از کم 6ہزار ریال تنخواہ ماہانہ دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ پبلک انشورنس جنرل اتھارٹی نے اسکی تائید وحمایت کررکھی ہے۔ اگر مجلس شوریٰ بھاری اکثریت سے اس سفارش کی منظوری دیگی تو سعودی لیبر مارکیٹ پر اس کا مثبت اثر پڑیگا۔ یہ تاریخی واقعہ ہوگا جسے کبھی نہیں بھلایا جاسکے گا۔ اسکی بدولت لیبر مارکیٹ میں رائج اوسط محنتانے کی حقیقت بھی منعکس ہوگی۔ محکمہ شماریات ہر سہ ماہی پر اعدادوشمار جاری کرکے لیبر مارکیٹ میں اوسط محنتانے کی بابت رپورٹ دے رہی ہے۔ مبینہ سفارش کی منظوری سے کارکن کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ ملازم کی آمدنی میں اضافے کا اثر اشیاءاو رخدمات پر بھی اچھا ہی پڑیگا ۔ سعودی شہری زیادہ سے زیادہ سامان خرید کرخدمات حاصل کرسکیں گے۔ اس سے سعودی مارکیٹ کی شرح نمو مضبوط اور مستحکم ہوگی۔
محنتانے کی کم از کم حد کسی بھی ریاست کی لیبر مارکیٹ کے معیار کی علامت ہوتی ہے۔ اکثر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اپنے یہاں محنتانے کی کم از کم حد مقرر کئے ہوئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ معاشی اخراجات کے تناسب سے محنتانے کی کم از کم حد میں اضافہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس اضافے کے باوجود انکی شرح نمو محدود نہیں ہوتی بلکہ حق اور سچ یہ ہے کہ قومی مجموعی پیداوار میں 60فیصد سے زیادہ نجی ادارے ہی ملکی ترقی کے شریک بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے ادارے قومی معیشت میں 22فیصدکے حصے دار ہیں جبکہ ہمارے یہاں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نجی ادارو ںمیں سعودی ملازمین کے محنتانے کی کم از کم حد مقرر کرنے سے بے روزگاری بڑھے گی یا نجی اداروں کو اس عمل سے نقصان پہنچے گا، اس حقیقت سے ان کے اس دعوے کی تردید ہورہی ہے۔
محنتانے کی کم از کم حد کا فیصلہ سعودی وژن 2030 کے عین مطابق ہے۔ نجی اداروں میں کام کرنے والے سعودیوں کی سماجی و اقتصادی زندگی پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ نجی اداروں کی طرف سعودی شہریوں کے یہاں ملازمت کا رجحان بڑھے گا۔ انشورنس جنرل کارپوریشن میں زر اشتراک کے اوسط میں اضافہ ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭