Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ رات جس کی صبح معرکہ ہوا

    یہ اس رات کا واقعہ ہے جس کی صبح کو بدر کی لڑائی پیش آئی۔
     اس مبارک رات باران رحمت کا نزول ہوا جس کے 3فائدے ہوئے۔
     ایک یہ کہ مسلمانوں کو پانی کی کافی مقدار مل گئی اور انہوں نے فورا ًحوض بناکر بارش کا پانی روک لیا۔
     دوسرے یہ کہ مسلمان چونکہ وادی کے بالائی حصے پر تھے اس لئے بارش کی وجہ سے ریت جم گئی اور زمین اتنی مضبوط ہوگئی کہ قدم اچھی طرح جم سکیں اور نقل وحرکت بآسانی ہوسکے۔
    تیسرے یہ کہ لشکر کفار نشیب کی جانب تھااس لئے وہاں اس بارش کی بدولت کیچڑ ہوگئی اورپاؤں دھنسنے لگے۔اس بار ش کا یہ فائدہ بھی ہوا کہ اہل ایمان پاک ہوگئے۔
    معرکہ کی رات ہی رسول اکرم نے صحابہ کرام  ؓ کو خوشخبری دے دی کہ کہاں کس کی قتل گاہ ہوگی۔ آپ   اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے کہ کل یہ فلاں کی قتل گاہ ہوگی اور یہ فلاں کی قتل گاہ ہوگی۔
    اس رات صحابہ کرامؓ  کو عجیب وغریب تجربہ پیش آیا ۔ اس حالت میں صحابہ کرام پر نیند طاری کردی گئی۔ خود صحابہ کرام  ؓ کا بیان ہے کہ ہم پر اونگھ کا ایسا غلبہ ہورہا تھا کہ تلواریں ہاتھ سے چھوٹی پڑی تھیں۔ارشاد ربانی ہے:
    ’’اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان وبے خوفی کی کیفیت طاری کر رہاتھا اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسارہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعہ سے تمہارے قدم جمادے۔‘‘(الانفال11)۔
    جو موقع شدت خوف او رگھبراہٹ کا تھا اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں کو ایسے اطمینان سے بھردیا کہ ان پر غنودگی طاری ہونے لگی۔اس طرح مسلمانوں نے پر سکون نفس اور تابناک افق کے ساتھ رات گزاری۔ ان کے دل اعتماد سے پر تھے اور انہوں نے راحت اور سکون سے اپنا حصہ حاصل کیا۔وہ رات اللہ کے رسول نے ایک درخت کی جڑ کے پاس گزاری ۔
    آپ نے رات بھر اللہ تعالیٰ سے فتح ونصرت کی دعا کی:
    ’’اے اللہ ! تونے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرمادے، اے اللہ! میں تجھ سے تیرا عہد اور تیرے وعدے کا سوال کر رہا ہوں۔ اے اللہ! اگر آج مسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو تیری عبادت نہ کی جائے گی۔‘‘
    آپ نے خوب تضرع اور تذلل کے ساتھ دعا کی یہاں تک کہ دونوں کندھوں سے چادر گرگئی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے چادر درست کی اور عرض پرداز ہوئے:
    اے اللہ کے رسول !بس فرمایئے، آپ نے اپنے رب سے بڑے الحاح کے ساتھ دعا فرمالی۔
    اس کے بعد رسول اللہ   کو ایک جھپکی آئی، پھر آپ نے سراٹھایا اور فرمایا:
    ’’ابوبکر! خوش ہوجایئے! اللہ کی مدد آگئی،یہ جبریل ہیں، گرد وغبار میں اٹے ہوئے، اپنے گھوڑے کی لگام تھامے فرشتوں کے لشکر کی قیادت کر رہے ہیں۔‘‘
مزید پڑھیں:- - - -رمضان المبارک ، برکات و تجلیات کا مہینہ

شیئر: