آج دنیا میں کرکٹ کا شاید ہی کوئی ایسا پرستار ہوگا جو انڈیا کے آج تک کے سب سے بڑے کھلاڑی سچن تندولکر کو نہ جانتا ہو۔
عام طور پر زیادہ تر کھلاڑیوں کے لیے یہ کہا جاتا ہے ان کے ریکارڈز ان کی عظمت کو بیان نہیں کرتے لیکن سچن تندولکر جتنے عظیم کھلاڑی ہیں اس سے کہیں زیادہ عظیم الشان ان کے ریکارڈز ہیں۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں انڈیا میں کرکٹ کا ’دیوتا‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن کچھ ایسے حقائق بھی ہیں جنھوں نے تندولکر کو عظیم بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کے بارے میں لوگ کم ہی جانتے ہیں اور جو جانتے ہیں وہ کم ہی بات کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
اولمپکس میں 125 سال بعد کرکٹ کی واپسی، پاکستان شرکت کر پائے گا؟Node ID: 888169
سچن تندولکر ایک ایسے زمانے میں دنیائے کرکٹ میں آئے جب کرکٹ عظیم بولروں سے بھری ہوئی تھی اور ایسے میں ان کے ایک ایک رنز قیمتی ہو جاتے ہیں۔
لیکن جو ریکارڈز تندولکر کے نام ہیں ان میں ان کے کپتان محمد اظہرالدین کا زبردست کردار رہا ہے۔
آج ہم سچن رمیش تندولکر پر اس لیے بات کر رہے ہیں کہ آج سے 52 سال قبل آج ہی کے دن 24 اپریل 1973 کو انہوں نے ممبئی کے ایک نرسنگ ہوم میں آنکھیں کھولیں۔ ان کے والد رمیش تندولکر مراٹھی زبان کے ناول نگار تھے جبکہ ان کی والدہ انشورنس کے شعبے سے منسلک تھیں۔
تندولکر نے پاکستان کے خلاف اپنے کريئر کا آغاز کیا اور انہوں نے عمران خان کی مضبوط ٹیم کے سامنے 16 سال کی عمر میں اپنے جوہر دکھائے۔ عبدالقادر کے ساتھ ان کی چشمک نے دنیا کرکٹ کو اس ’ینگ پروٹیجی‘ پر بات کرنے کا موقع فراہم کیا۔

15 نومبر1989 میں کراچی میں اپنے ٹیسٹ کیريئر کا آغاز کرنے والے تندولکر نے پہلی اننگز میں صرف 15 رنز بنائے جبکہ دوسری اننگز میں بیٹنگ کرنے کی نوبت نہ آئی۔
چار میچ کی چھ اننگز میں انہوں نے 215 رنز بنائے جس میں دو نصف سینچریاں شامل تھیں۔ یہ کوئی بہت اچھا ڈبیو نہیں تھا۔
اگرچہ ان کی عمر کے حساب سے ان کی تعریف ہو رہی تھی لیکن یہ ایسا کوئی آغاز نہیں تھا جس کی بنیاد پر ان کا موازنہ بعد میں بریڈمین سے کیا جا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ بعد میں بریڈمین نے خود کہا کہ انہیں تندولکر کا کھیل دیکھ کر اپنا کھیل یاد آتا ہے۔
اظہرالدین اور مینیجر اجیت واڈیکر کے فیصلے سے قبل سچن تندولکر نے ون ڈے انٹرنیشنل میں کوئی سینچری نہیں بنائی تھی لیکن ان کے پاس چند ایک نصف سنچریاں تھیں۔
واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کے 1994 کے دورے میں اظہرالدین نے ایک بڑا فیصلہ کیا۔ اس وقت تک تندولکر پانچویں اور چھٹی پوزیشن پر بیٹنگ کرنے کے لیے آتے تھے اور ان کی صلاحیت کے مطابق رنز بنانے کا انہیں موقع نہیں ملتا تھا۔
انڈین کپتان محمد اظہرالدین نے اس کے متعلق سپورٹس سٹار سے بات کرتے ہوئے آج سے پانچ سال پہلے کہا: ’میں دیکھ رہا تھا کہ سچن کے ساتھ کچھ بھی بڑا نہیں ہو رہا تھا حالانکہ وہ نمبر 5 اور 6 پر اچھی بلے بازی کر رہے تھے۔ ہم نے (اور واڈیکر سر) نے اس معاملے پر بات کی اور باقاعدہ اوپنر سدھو (نوجیوت سنگھ) کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے سچن کو اوپنر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔‘

اس ایک فیصلے نے نہ صرف تندولکر کی قسمت کا فیصلہ کر دیا بلکہ انڈین کرکٹ ٹیم کی بھی کایا پلٹ دی۔ تندولکر نے بطور اوپنر پہلے ہی میچ میں 82 رنز بنائے اور انڈیا کو سات وکٹوں سے جیت دلائی۔ وہ مین آف دی میچ قرار پائے۔
یہ ان کا 69 واں میچ تھا۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اپنے 79ویں میچ میں انھوں نے ون ڈے کی پہلی سینچری سکور کی اور پھر دنیائے کرکٹ پر چھا گئے۔
اس بابت سچن نے خود کمنٹیٹر اور کرکٹر آکاش چوپڑہ سے ان کے ٹی وی شو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ ’اظہر کپتان تھے اور اجیت واڈیکر کوچ تھے۔ جب شیری (نوجوت سنگھ سدھو) نے ہمیں بتایا کہ ان کی گردن اکڑ گئی ہے اور وہ کھیل نہیں پائیں گے، تو میں نے واڈیکر سر سے کہا، سر کیا مجھے اوپنر بھیجا جا سکتا ہے کیونکہ میں اپنے شاٹس کے بارے میں بہت پر اعتماد محسوس کر رہا ہوں۔ اور میں نے اظہر سے کہا کہ اگر میں ناکام ہو گیا، تو میں پھر کبھی ان کے پاس نہیں آؤں گا۔‘
سچن تندولکر نے مزید کہا: ’میں نے ان سے کہا مجھے ایک موقع کی ضرورت ہے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میں شروع میں جا کر شاٹس کھیل سکتا ہوں۔ پارٹنرشپ بنانے اور ابتدائی وکٹ نہ گنوانے کے بجائے، میں اٹیک کر سکتا ہوں اور ان پر دباؤ ڈال سکتا ہوں۔ تو کیوں نہ ایک کوشش کی جائے۔‘
ان کے مطابق دونوں نے خوشی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے اتفاق کیا کہ ’اگر آپ اتنے پراعتماد ہیں تو ہم آپ کا ساتھ ہیں۔‘
اظہرالدین نے سٹار سپورٹس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نہ صرف ہم ایسا چاہتے تھے بلکہ تندولکر خود بھی ایسا چاہتے تھے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم نے اس پر رضامندی ظاہر کی اور اس فیصلے نے ایک آل ٹائم عظیم ترین کرکٹر کو پیدا کیا۔‘

اظہرالدین نے مزید کہا کہ ’میں اس کا سہرا اپنے سر نہیں لیتا اور سچ مانیں تو کوئی نہیں لے سکتا کیونکہ ان میں صلاحيت تھی اور انھیں بہت آگے جانا تھا۔‘
اظہرالدین نے اس سے قبل سچن تنڈدولکر کی بولنگ کو بھی آزمایا تھا۔ یہ 1993 کے ہیرو کپ کے سیمی فائنل کی بات ہے جب جنوبی افریقہ کے خلاف اظہر نے تندولکر کے روپ میں ایک بڑا سرپرائز تیار کیا۔
کلکتے کا ایڈن گارڈنز میدان کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جنوبی افریقہ کو جیت کے لیے آخری اوورز میں چھ رنز درکار تھے اور دو وکٹیں باقی تھیں تو اظہرالدین نے نوجوان تندولکر کو سرپرائز پیکج کے روپ میں پیش کیا۔
اس کے بارے میں اظہر نے کہا: ’ہمیں معلوم تھا کہ کسی بھی بولر کے خلاف اس موقع پر پانچ رنز آسانی سے بنایا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہم نے ایک مختلف حکمت عملی کے بارے میں سوچا۔ تین سے چار منٹ کی اچھی بات چیت ہوئی اور خوش قسمتی سے امپائرز بھی لبرل تھے۔‘
انھوں نے تندولکر کو آخری اوور دیا جنھوں نے آخری چار گیندوں میں صرف ایک رن دیے اور انڈیا یہ میچ دو رنز سے جیت گیا۔

بہر حال تندولکر نے 463 ون ڈے میں انڈیا کی نمائندگی کی اور 18426 رنز بنائے جن میں 49 سینچریاں اور 96 نصف سینچریاں شامل ہیں۔ اگرچہ ان کا سینچری کا ریکارڈ وراٹ کوہلی نے توڑ دیا ہے لیکن باقی ریکارڈز ان کے نام ہے۔ وہ پہلے کھلاڑی ہیں جنہوں نے ون ڈے میں ڈبل سینچری سکور کی ہے۔
اسی طرح انہوں نے 200 ٹیسٹ میچوں میں انڈیا کی نمائندگی کی اور 15921 رنز بنائے جس میں 51 سینچریاں اور 68 نصف سینچریاں شامل ہیں۔ ان کی سینچری اور رنز کا ریکارڈ فی الحال ٹوٹتا نظر نہیں آتا کیونکہ کوئی دور دور تک ان کے آس پاس نہیں ہے اور آج کے بدلے ہوئے کرکٹ ماحول میں ٹیسٹ میچز بھی کم ہی ہو رہے ہیں۔
تندولکر نے ٹیسٹ میں 46 وکٹیں بھی حاصل کی ہوئی ہیں جبکہ ون ڈے میں ان کے نام 154 وکٹیں ہیں۔ دیکھا جائے تو وہ کرکٹ کے سب سے اعلی مقام پر براجمان ہیں اور وہ اس لیے بھی عظیم ہیں کہ انھوں نے دنیا کے عظیم ترین بولروں کے خلاف یہ رنز بنائے ہیں۔
ان کے خلاف اگر ایک جانب وسیم اکرم، وقار یونس، ثقلین مشتاق تھے تو دوسری جانب میکگرا، شین وارن، بریٹ لی، ایلن ڈونلڈ، اینٹنی، وٹوری، شین بانڈ، ایمبروز، والش اور اینڈرسن تھے۔