سعودی وزارت اسلامی امور سے تبدیلیوں کی توقعات
امل عبدالعزیز الہزانی ۔ الشرق الاوسط
سعودی عرب میں وزارت اسلامی امور و دعوت و رہنمائی کے ذمے بہت سارے فرائض ہیں۔ نمایاں ترین اسلام کی دعوت، رہنمائی، قرآن پاک کے حفظ ،تشریح اور تفہیم نیز اعتدال پسند عقائدو تصرفات کی ہدایت،مساجد اور دنیا بھر میں اسلامی مراکز کی تعمیر و تشکیل ہیں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حرمین شریفین کے پاسبان ملک سعودی عرب کیلئے مذکورہ مقاصد کی تکمیل بیحد آسان ہے۔ حقیقت حال مختلف ہے۔ وزارت اسلامی کا کام نہایت نازک ہے۔ مستقل نگرانی اور پیروی کا متقاضی ہے۔ یہ واحد سرکاری ادارہ ہے جس کا بنیادی کام دنیا بھر میں اپنے دفاتر کھولنے کا ہے۔ یہ دفاتر بیرونی دنیا میں مقیم مسلمانوں کو مطلوب خدمات پیش کرنے کے پابند ہیں۔ ہم اسکے ساتھ اس امر کا اضافہ بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ اس سے وابستہ کارکنان کا ایک لشکر ہے جن میں سے بیشتر معمولی درجے کے ہیں۔ یہ پہلو اپنے اندر بہت سارے خطرات لئے ہوئے ہے۔ اہلکاروں میں انتہا پسندانہ فکری رجحانات رکھنے والے بھی ہیں ۔ بعض اپنی حقیقت منکشف کئے ہوئے ہیں اور دیگر چھپائے ہوئے ہیں۔
بہت واضح الفاظ میں یہ بات کہنا چاہونگی کہ سعودی وزارت اسلامی امور ان سرکاری اداروں کے زمرے میں آتی ہے جنہیں انتہا پسندی کی وباءلگی ہوئی ہے۔ ان اداروں میں وزارت تعلیم بھی ہے ۔ الاخوان کے ارباب فکر و نظر گزشتہ کئی عشروں کے دوران وزارت اسلامی امور میں اپنی جگہیں گہری کرچکے ہیں۔
اس قسم کے افراد کو وزارت کے ایوانوں سے نکالنا اہم بھی ہے اور مشکل بھی۔ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے ”بیخ کنی“کی تعبیر استعمال کی۔ یہ بڑی اہم تعبیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انتہاپسند عناصر جو اپنی جڑیں پکی کئے ہوئے ہیں انہیں جڑ سمیت ہٹانا لازم ہے۔ یہ کام ، عزم ، طاقت اور صبروتحمل کا طلبگار ہے۔ وزارت کا ہر کام فوری تبدیلی کا متقاضی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کریم حفظ کرانے والے مدارس کا جال بچھایا جانا ضروری ہے تاہم کوئی شخص بھی اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرسکتا کہ تحفیظ قرآن کے بعض مدارس انتہا پسندانہ افکار کے پرچا ر کے سینٹر ز بن چکے ہیں۔ ان مدارس سے فارغ ہونیوالے کئی لوگ دہشتگردانہ جرائم کے مجرم پائے گئے۔ اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ اس قسم کے مدارس اور تحفیظ قرآن کی انجمنوں کو فکری فساد سے پاک صاف کرنا پڑیگا۔
لوگوں کو اسلام کی دعوت دینایا عوام الناس میں بعض عبادتوں کا شعور بیدار کرنا وزارت کا اہم فریضہ ہے۔ اس کیلئے ایسے مبلغین کا انتخاب لاز م ہے جو عوام سے خطاب کریں تو لوگ انہیں سنیں، ان کی رائے اپنائیں، عوام ان پر بھروسہ کریں اور اس سرکاری ادارے کو بھی اعتبار کی نظر سے دیکھیں جس نے ان کا انتخاب کیا ہے۔ اس سلسلے میں بیرون ملک بھیجے جانیوالے مبلغین کے انتخاب میں انتہائی ذمہ دارانہ کردار کی ضرورت ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ بیرون ملک جو کام بھی کریں گے اور جوکچھ بھی کہیں گے وہ سب کچھ سعودی عرب سے منسوب ہوگا۔ ماضی میں بعض لوگ خود کو اسلام کا مبلغ قرار دیکر دنیا بھر میں گھومتے رہتے تھے اور انہوں نے دعوت و تبلیغ کو منافع بخش کاروبار بنا لیا تھا اب یہ دور لد چکا ہے۔ مبلغ اپنے ملک اور اس وزارت کا سفیر ہوتا ہے جس نے اس کا انتخاب کیا ہوتا ہے۔
سعودی وزارت اسلامی امور دعوتی عمل کیلئے مساجد تعمیر کراتی ہے، ائمہ اور خطیبوں کا انتخاب کرتی ہے۔ بعض ائمہ سیاسی واقعات پر ذاتی افکار کے پرچار میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے۔ ان میں وہ بھی ہیں جو مختلف عنوانوں سے خود سعودی شہریوں کو الٹی سیدھی دھمکیاں نکالتے رہتے ہیں۔ حالیہ ایام میں اس قسم کی سرگرمیوں کا دائرہ محدود ہوا ہے تاہم منفی سرگرمیاں ابھی موجود ہیں۔
غالباً سب سے اہم ذمہ داری بیرون مملکت دنیا کے تمام براعظموں کے بڑے شہروں میں اسلامی مراکز کے قیام کی ہے۔ یہ انتہائی اہم کام ہے ۔ کئی مقامات پر اسلامی مراکز کے قیام کا تجربہ کامیاب ثابت ہوا جبکہ دیگر جگہوں پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ داعش سے منسوب کئی لوگ اسلامی مراکز کے دورے کرکے وہاں اپنے افکار انڈیلتے رہے ہیں۔
جیسا کہ میں نے مضمون کے آغاز میں توجہ دلائی تھی کہ بظاہر سعودی عرب کی ذمہ داری آسان نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔وزارت کے اندر اور باہر جملہ سرگرمیوں کی نگرانی، پیروی اور منفی عناصر کی بیخ کنی کیلئے کافی کچھ کرنا ہوگا۔
خوش قسمتی سے وزارت کے نئے وزیر شیخ عبداللطیف آل الشیخ مقرر کئے گئے ہیں ، یہ میانہ روی اور اعتدال پسندی کیلئے معروف ہیں۔ یہ حق کے اظہار میں بے باک ہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ حق کو باطل سے جدا کرنا کافی نہیں بلکہ عمل درآمد میں طاقت کا استعمال اور غلط دھارے کو صحیح کرنے کیلئے عزم محکم بھی اشد ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭