ڈاکٹر سمیر یونس ۔ کویت
بچوں کی نفسیاتی حاجات و ضروریات میں سے ایک محبت ہے۔ لازم ہے کہ والدین کی جانب سے اس ضرورت و تشنگی کو پورا کیا جائے۔ والدین اگر بچوں سے محبت نہیں کریں گے تو اس کے نتیجے میں بچوں میں محرومی پیدا ہوگی اور محرومی سے بچوں کیلئے متعدد نفسیاتی روگ اور بگاڑ جنم لیں گے۔ والدین جب اپنے بچوں سے بغل گیر ہوتے ہیں تو اس سے بچوں کو نفسیاتی سکون اور قلبی قرار ملتا ہے لہٰذا ماں باپ کو اپنی اولاد سے بغل گیر ہونے میں بخل و تردّد سے کام نہیں لینا چاہیے۔ یقین جانیے کہ بچوں کو والدین سے معانقہ کرنے اور ان کے ساتھ محبت سے لپٹنے کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی انھیں کھانے پینے اور سانس لینے کی حاجت ہوتی ہے بلکہ محبت کی چاہت و حاجت خوراک کی حاجت سے بھی بڑھ کر ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس فطری حاجت کو پورا کریں۔
بوسۂ شفقت :
رسولِ رحمت ایک بار اپنے نواسوں حضراتِ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو چوم رہے تھے کہ ایک بدو سردار الاقرع بن حابس آیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا تو بہت حیران ہوا۔ اس کیلئے یہ ایک عجیب بات تھی چنانچہ تعجب سے پوچھا: کیا آپ اپنے بچوں کو چومتے ہیں؟ میرے10 بچے ہیں، اللہ کی قسم! میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی کبھی نہیں چوما۔ حضور اکرم نے اس سے فرمایا:
’’اللہ نے اگر تمہارے دل سے اپنی رحمت سلب کرلی ہو تو مَیں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘
والدین جب بچے کو چومتے ہیں تو اس سے بچے کے قلب و نفس پر رحمت و شفقت چھا جاتی ہے۔ اسے امن و امان کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ ہم بچوں کو بوسہ دے کر ہی انھیں اپنی محبت و شفقت کے احساس سے سرشار کرسکتے ہیں۔ اگر ہم بچوں کو محبت و شفقت کے بوسے سے محروم کریں گے تو وہ ہم سے دور ہٹیں گے۔ نفرت و بیزاری اور سنگدلی و سختی ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگی۔ وہ بچپن سے ہی دوری اور کم آمیزی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ والدین کے بوسۂ شفقت سے ہی بچوں کے درد و الم دور ہوتے ہیں۔ ان کے نفسیاتی زخم مندمل ہوتے ہیں اور ذہنی روگ ختم ہوتے ہیں۔ ہم محبت آمیز بوسے سے اپنے بچوں اور بچیوں کو خوشی و مسرت سے ہم کنار کرسکتے ہیں اور انھیں محبت و الفت، رضامندی اور شوق و وارفتگی سے معمور کرسکتے ہیں۔
محبت بھری مسکراہٹ :
اولاد کے سامنے ہماری مسکراہٹ بے شمار فوائد رکھتی ہے۔ ہمارے اس تبسم سے انھیں مسرت نصیب ہوتی ہے۔ یوں ہمارے اور ان کے مابین ایک خوش گوار رابطہ استوار ہوتا ہے اور باہم محبت بڑھتی ہے۔ اس مسکراہٹ سے خوشیاں ملتی ہیں اور خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ دلوں کے سرچشمے سے مسرتیں پھوٹتی ہیں۔
والدین سے گزارش ہے کہ آپ ذرا آئینے کے سامنے کھڑے ہوجایئے۔ ایک بار مسکرایئے اور پھر آئینے میں دیکھئے۔ ایک بار ترش رُو ہوکر آئینے میں دیکھئے اور پھر دونوں کا فرق ملاحظہ کیجیے۔ یقیناوالدین کی خندہ پیشانی، ان کی مسکراہٹ اور انکی قربت سے اولاد کو مسرت و فرحت ملتی ہے۔ والدین کے قرب کا حصول، اولاد کی دیرینہ تمنا ہوا کرتی ہے۔ وہ اس قربت سے اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں،یوں
ان کے دل ماں باپ کیلئے کھل جاتے ہیں، وہ سچی محبت و یگانگت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ وہ والدین سے سچی محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب بچے ہم سے محبت کرتے ہیں تو پھر وہ ہمیں ترجیح دیتے ہیں اور ہماری فرماں بردار ی کرتے ہیں۔
رسول اکرم کا اپنے گھر میں اہلِ خانہ کے ساتھ جو طرزِعمل ہوتا تھا اُس کی عکاسی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یوں کی ہے:
’’رسول اللہ سب سے بڑھ کر نرم دل، مسکرانے اور ہنسنے والے تھے۔‘‘
حضرت ابوذرؓ غفاری سے مروی رسول کا ارشاد ہے:
’’تمہارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے۔‘‘ (ترمذی)۔
والدین کو چاہیے کہ وہ محبت کے ذریعے بچوں کی تربیت کا ضرور تجربہ کریں۔ اس تربیت میں انھیں یہ اقدامات کرنا ہوں گے:
*کلامِ محبت۔
*نگاہِ محبت۔
*محبت بھرا لمس۔
*محبت سے بغل گیر ہونا۔
* بوسۂ شفقت اور
* محبت آمیز مسکراہٹ۔
(ترجمہ: محمد ظہیرالدین بھٹی۔ کراچی)
مزید پڑھیں:- - - -امیر المؤمنین فی الحدیث ، امام بخاری