Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدی کی شامی ڈیل

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
یہ سوال ہر کس و ناکس کی زبان پر ہے کہ آخر اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتنیاہو ،ٹرمپ، پوٹین سربراہ کانفرنس سے غیر معمولی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں؟عرض یہ ہے کہ نتنیا ہو کو امید ہے کہ یہ دونوں رہنما صدی کی حقیقی ڈیل میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس ڈیل کا مسئلہ فلسطین کے حل سے کوئی تعلق نہیں۔ اس ڈیل کا صدی کی اس خیالی ڈیل سے بھی کوئی رشتہ نہیں جس کا چرچا ان دنوں عام ہے۔ اسکا اسرائیل سے بھی کوئی براہ راست تعلق نہیں۔
سوال یہ ہے کہ نتنیاہو صدی کی کس ڈیل کا خواب دیکھ رہے ہیں؟جواب یہ ہے کہ نتنیاہو چاہتے ہیں کہ امریکی صدر روس سے سودے بازی کریں۔ سودا یہ ہو کہ وہ جزیرہ نما القرم اور مشرقی یوکرین پر روس کے ناجائز قبضے کو تسلیم کرلیں۔ روس پر عائد پابندیاں ختم کردیں اور روسی صدر کو شام پر قبضہ جمانے کی اجازت دیدیں۔ اس کے بدلے پوٹین ایرانیوں اور انکے پیروکاروں کو شام سے نکال دیں اور نتنیاہو کو تاریخی فتح کا موقع دیں۔
یہ بات اسرائیلی جریدے یدیعوت احرنوت میں سیاسی امور کے ایڈیٹر ناحوم برنیاع نے بیان کی ہیں۔ علاقائی اور بین الاقوامی عظیم تبدیلیو ںکے باوجود ناحوم نے شکوک و شبہات ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”اسرائیلی“ پوٹین پر بھروسہ کررہے ہیں۔ میںیقین سے یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ اسرائیلی صحیح شخصیت پر انحصار کررہے ہیں۔ شام میں اسرائیل کی حقیقی طاقت (بشار الاسد) پر انحصار سوالیہ نشان ہے۔ فی الوقت بشار الاسد کو روسی لڑاکا طیاروں اور ایران کی سازشی ملیشیاﺅںکی ضرورت ہے تاہم جب بشار الاسد کو پورے ملک پر کنٹرول حاصل ہوجائیگا اور وہ خانہ جنگی میں فاتح اکبر کی حیثیت سے منظر عام پر آئیگا تب اس کی خواہش ہوگی کہ وہ شام کا حقیقی حکمراں ایک بار پھر بن جائے۔ ایران اپنا کرداراداکرچکا ہے۔ اب اسے وہاں سے رخت سفر باندھنا ہی ہے۔ بشار الاسد کے والد حافظ الاسد بھی یہی تصرف کرتے۔
اسرائیلی صحافی ناحوم برنیا کی سوچ یہی ہے تاہم القرم اور مشرقی یوکرین کا تنازع امریکہ کیلئے اسٹراٹیجک نوعیت کا ہے۔ یہ بات بعید از امکان ہے کہ امریکی صدر شام کی خاطر ان دونوں علاقوں سے دستبردار ہوجائیں۔ الا یہ کہ اس حوالے سے زیادہ اہم سمجھوتے طے پاجائیںورنہ کیا مطلب ہے کہ امریکی القرم اور مشرقی یوکرین سے ماسکو کے حق میں دستبردار ہوں بلکہ اتنا ہی نہیں روس کو شام میں اپنا خواب بھی پورا کرنے دیں۔ یہ سارا کام امریکی ایران کی خاطر روس کو اپنی جانب مائل کرنے کیلئے انجام دیں یہ ناقابل فہم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ صدی کی ڈیل کا مجوزہ خیال روس کے حوالے سے انتہائی فیاضانہ ہے۔ ہاں اگر اس ڈیل کی بہتر قیمت سامنے آجائے تو بات دیگر ہوگی۔
شام میں روس نے کیا عہد و پیمان کررکھے ہیں اس حوالے سے منظر نامہ واضح نہیں البتہ گزشتہ دنوں ایک اہم تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ وہ یہ کہ ایرانیوں او رانکی ملیشیاﺅںکو درعہ اور گولان کی شامی پہاڑیوں کی جنگ میں حصہ لینے سے اسرائیل کی خاطر روکا گیا۔ روسی عسکری پولیس نے ایرنی پاسداران انقلاب کی جگہ لی۔ یہ امریکہ، اسرائیل، روس اور شام کے درمیان ایران کو جنوبی شام سے ہٹانے کی بابت منفرد قسم کا تعاون تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔ کیا روسی اگلے مرحلے میں ایرانیوں ، حزب اللہ اور عراقی ملیشیاﺅں سے دو ، دو ہاتھ کرنے کی اجازت دیدیں گے؟ مثلاً اگر یہ لوگ رضاکارانہ طور پر شام چھوڑنے سے انکار کریں تو کیا ایسا ممکن ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نتنیا ہو کو ایسا کیا کچھ نظر آرہا ہے جو ہمیں نظرنہیں آرہا۔ کیا انکی نظر میں ایسا کوئی منظر نامہ ہے جس کے تحت انہیں بشار الاسد کو شام پر مکمل اقتدار دلانے کے بدلے گولان کی شامی پہاڑیوں کا تنازع حل ہونے کی امید نظر آرہی ہو۔
صحیح بات یہ ہے کہ ہمارے سامنے بالکل نئی صورتحال ہے۔ آج کا شام 2011ءکے شام سے بالکل مختلف ہے۔ نتنیا ہوکو یقین ہے کہ وہ ایک تیر سے کئی شکار کرسکتے ہیں۔ صدی کی حقیقی ڈیل کرکے وہ شام میں حالت جنگ کا خاتمہ گولان کے تنازع کا حل ، ایران اور لبنان کے جنگجوﺅں سے گلو خلاصی سمیت سارے اہداف کیونکر پورے کرسکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: