Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غرور ، تکبر اور ریا ،دل کے امراض

 ریاکار کا مقصد یہ رہتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، اس کی عزت کریں، اسے دیندارسمجھیں، اس پر بھروساکریں حالانکہ وہ اس قابل نہیں
 
*  * *عابدہ رحمانی ۔امریکہ* * *
آج کل کے زمانے میں جبکہ ہر طرف دل کی بیماریوں کا تذکرہ ہے اوراس کے علاج معالجے میں نت نئی تحقیق ہو رہی ہے،ہم یہ
  دیکھیں کہ دینی اصطلاح میں دل کن بیماریوں میں مبتلاہیں۔ حضوراکرم  کا ارشا دہے:
    ’’آگاہ ہو جاؤ کہ سینے میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، جب یہ تندرست ہو تو تمام بدن تندرست رہتا ہے اور اگر اس میں خرابی و فساد پیدا ہو جائے تو سارے جسم میں خرابی و فساد پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘
    دل کی بیماریوں سے مراد تکبر، ریا، غصہ، بغض، حسد، کینہ، منافقت یہ بیماریاں انسانی اخلاق و کردار کو گھن کی طرح کھا جاتی ہیں۔
    تکبراور غرور :
      غرور کا مطلب دھوکا، تکبر کا مطلب بڑائی، تفاخر جتانا اور دوسروں کو حقیر جاننا ہے۔غرور و تکبر ابلیس کی سرشت ہے۔ اس نے   اپنے رب کے حکم سے سیدناآدم ؑ  کو سجدہ کرنے سے  انکار کیا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھا۔ ابلیس کے تکبر کی بنیاد یہ تھی کہ وہ آگ سے اور سیدنا آدم ؑ  مٹی سے ہیں۔تکبر اور کبریائی صرف اللہ کیلئے ہے۔ ہم کہتے ہیں{ اللہ اکبر} یعنی اللہ بڑا ہے،اللہ کے سوا کسی کی کبریائی نہیں۔
    تکبر کن باتوں پر ہوتا ہے؟:
    ٭ حسب و نسب۔
    ٭    مال و دولت و اولاد کے لحاظ سے۔
     ٭  خوشحالی کے لحاظ سے۔
     ٭ خوش شکلی کے لحاظ سے۔
    ٭ تقویٰ دینداری و علم یہ تمام عطیۂ  ربانی ہیں اور اُس ذات کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
    حسب ، نسب، مرتبہ :
    قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
    ’’ بے شک تم میں عزت والا وہ ہے  جو سب سے زیادہ متقی ہو، اللہ سے ڈرنے والا ہو گناہوں سے بچنے والا ہو۔‘‘(الحجرات13)۔
    مال و دولت اور اولاد کیلئے قرآن میں ارشاد ہے:
    ’’ مال اور اولاد دنیا کی رونق ہیں، باقی رہنے والے تو نیک اعمال ہیں، وہ تمہارے رب کے نزدیک ثواب اور امید کے لحاظ سے
 ہزار درجہ بہتر ہیں۔‘‘(الکہف46)۔
     اسلئے مال ودولت ، اولاد کی قابلیت ، کثرت ، صرف اس دنیا کی شان ہے۔اللہ تعا لیٰ کی نظر میں انکی چنداں حیثیت نہیں ۔ اگر کوئی حیثیت ہے تو نیک اعمال کی  جو انسان انجام دیتا ہے، اپنے مال سے  دنیا میں کوئی نیک کام انجام دیتا ہے، اولاد نیک اور صالح ہو تو اسکے لئے مرنے کے بعد صدقۂ جاریہ بن جاتا ہے۔دنیا کی زندگی کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہے:
    ’’دنیا کی زندگی دھوکے کے سرمائے کے سوا کچھ نہیں ۔‘‘(الحدید20)۔
    غرور کے معنیٰ دھوکے کے ہیں اور اس طرح ہم اپنی بڑائی جتلا کر دوسروں کو حقیر جان کر اپنے آپ کو دھوکے میں مبتلا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے تو یہ سارے عطیئے ہم سے چھین سکتا ہے۔ وہی عزت دینے والا ہے، وہی ذلت دینے والا ہے(وتعزُمن تشائُ وتُذِلُّ مَن تشاء)بلکہ اس طرح کی مثالیں ہماری اپنی زندگی میں ہی مشاہدے میں آتی ہیں ۔
    شکل وصورت بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ اس نے کسی کا رنگ گورا بنایا تو کسی کا کالا، کوئی پیلا ہے تو کوئی بھورا، کسی کا ناک نقشہ کیسا ہے اور کوئی کیسا، کسی کو جسمانی معذوری دی ہے اور کوئی ذہنی معذور ہے۔ اپنے حسن پر ناز کرنا بھی غرور وتکبر کی نشانی ہے۔ حجتہ الوداع کے خطبے میں حضور اکرم  نے ارشاد فرمایا:
    ’’ کسی عربی کو عجمی پر،اور کسی عجمی کو عربی ، گورے کو کالے پر اورکالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ، اگر فضیلت ہے تو تقویٰ کی بنیاد پر۔ ‘‘
    اب ہم یہاں جائزہ لینگے کہ تمام اعمال  کی کسوٹی تقویٰ ہے۔
    دینداری پر غرور:
     اب جو لوگ اپنی زندگیوں میں نیک اور عملِ صالح کر رہے ہیں وہ اس بناء   پر غرور کے پندار میں مبتلا ہو جائیں کہ ہم تو نیک ہیں، اچھے ہیں باقی لوگ بے حد خراب ہیں اور اس بناء   پر دوسروں کو کم تر و حقیر جانیں یہ طریقہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ ہے۔    حضور اکرم   کا ارشاد ہے :
    ’’ نہ تو میرا عمل مجھے جنت میں لے جائے گا اور جہنم سے بچا سکے گا اورنہ تمہارا مگر اللہ کے فضل و کرم سے، اس لئے اللہ کا خوف اور اس سے امید رکھنی چاہیے۔‘‘
    حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول نے فرمایا :
    ’’جس کے دل میں رائی برابر بھی غرور ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘
    ایک شخص نے کہا کہ آدمی اچھے کپڑے اور جوتے پسند کرتا ہے تو حضور نے جواب دیا:
    ’’ اللہ تعالیٰ صاحبِ جمال ہے، وہ نفاست اور پاکیزگی کوپسند کرتا ہے،تکبر تو یہ ہے کہ حق بات کو نہ مانا جائے اور لوگوں کوحقیر جانا
 جائے۔‘‘
     حضرت عبداللہ بن عمرؓ  فرماتے ہیں کہ رسولنے فرمایا:
    ’’ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف نگاہ بھی نہیں کرے گا جو تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹ کر چلتا ہے۔‘‘
    ایک اور حدیث میں روایت ہے کہ رسول نے فرمایا :
    ’’میں تمہیں دوزخ والوں کی خبر دوں جن میں سرکش، بخیل اور متکبر ہیں۔‘‘
    پہلے تو یہی سوچنا چاہیے کہ ہماری ابتداء   و انتہاء کیا ہے۔ ابتداء   نجس وناپاک قطرہ اور انتہاء   مردہ لاش اور کیڑے مکوڑوں کی غذا۔ حیاتِ دنیا میں منوں نجاست پیٹ میں بھری ہے جیسا کہ سورۃ الدھر میں ہے:
    ’’ کیا انسان پر ایک ایسا وقت بھی تھاکہ وہ زمانے میں کوئی قابل ذکرچیز نہیں تھا۔‘‘(الدھر1)۔
    جس علم سے تکبر پیدا ہو وہ جہل سے بھی بدتر ہے۔ حقیقی علم سے اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت بڑھے گی۔ رسول مقبول  کا ارشاد ہے:
    ’’ ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کی زبان پر ہی رہے گا ،نہ حلق سے نیچے اترے گا اور نہ قلب تک اس کا اثر پہنچے گا، لوگوں سے کہیں گے ہم قاری ہیں، عالم ہیں ہمارے برابر دوسرا نہیں، سن لو یہ لوگ دوزخ کا ایندھن ہوں گے۔‘‘
    ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ  نماز میں امام بنے۔سلام پھیر کر کہنے لگے :
    ’’ صاحبو اپنے لئے کوئی دوسرا امام تلاش کرو یا ،علیحدہ علیحدہ نماز پڑھ لیا کرو ،میں امامت کے لائق نہیں ہوں کیونکہ اس وقت میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ چونکہ میری برابری میں ساری جماعت میں کوئی شخص نہیں اس لئے مجھے امام تجویز کیا گیا۔‘‘
    ریا:
    اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
     ’’اُن نمازیوں کیلئے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ ) ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں۔‘‘ (الماعون 6-4)۔
    ہر مسلمان کیلئے لازم ہے کہ اپنے اعمال و عبادات کو ریا و نمود سے بچائے کیونکہ ریا شرکِ اصغر ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے  دن جب اللہ تعالیٰ بندوں کو جزا و سزا اور انعامات عطا فرمائیگا تو ریاکاروں کو حکم دے گا کہ انہی کے پاس جاؤ جن کے دکھاوے کو نمازیں پڑھتے اور عبادتیں کیا کرتے تھے اور انہی سے اپنی عبادتوں کا ثواب لو، دیکھو وہ کیا دیتے ہیں۔
    دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسولنے مجھ سے  فرمایا کیا:
     ’’ جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ کی عدالت میں غازی، عالم اور سخی کی پیشی ہوگی اور تینوں اپنے جہاد فی سبیل اللہ، تعلیم و علم اور مشغلۂ علم دین اور اپنے خیرات و صدقات کا اظہار کریں گے تو حکم یہ ہو گا کہ چونکہ یہ اعمال دکھاوے کیلئے کئے ہیں کہ تمہیں عالم، سخی اور شہید یا غازی کہلائے جاؤ تو دنیا میں تمہاری خوب واہ واہ ہوتی رہی اب جاؤ جہنم میں۔‘‘
    نیک اعمال صرف اس وقت کئے جائیں جبکہ دیکھنے والے موجود ہوں یا اس کو اتنا مشتہر کر دیا جائے جیسا کہ آج کل ہوتا ہے کہ خدمت خلق کے کاموں کی اخبارات اورٹیلی ویژن  اور دیگر ابلاغ سے تشہیر کی جاتی ہے۔
    نیکی کے دوسرے اعمال میں اخلاص سے زیادہ نمائشی پہلو ہے اور پھر یہ توقع کہ ہماری تعریف کی جائے اور واہ واہ ہو۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں اگر نیت دکھاوے کی ہو گی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں  اور جس چیز کو اسے مقصود بنایا ہوتا ہے وہ زندگی بھر اسے دھوکے میں مبتلا رکھتی ہے حتیٰ کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پہنچتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ جن اچھائیوں پر وہ زندگی بھر پھولتا رہا وہ تو اس کے نامۂ اعمال میں سرے سے موجود ہی نہیں۔
    حضرت ابوسعیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولگھر سے نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے، ہم اس وقت مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے۔حضو نے فرمایا :
    ’’ میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دوں جو میرے نزدیک دجال سے بھی زیادہ خوف کھا جانے والی ہے؟‘‘
     ہم نے عرض کیا:کیوں نہیںتو آپ نے فرمایا :
    ’’وہ شرکِ خفی ہے کہ کوئی نماز پڑھنے کھڑا ہو اور جب کسی کو متوجہ دیکھے تو اپنی نماز کو خوب بنا سنوار کر پڑھنے لگے۔ ‘‘
    ریاکار کا مقصد یہ رہتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، اس کی عزت کریں، اسے دیندارسمجھیں، اس پر بھروساکریں حالانکہ وہ اس قابل نہیں ۔
    ریاکار کے تعلقات میں خلوص کا عنصر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی ریا پر مبنی ہوتا ہے اور اس کے بندوں سے تعلق میں بھی ریا ہو تو خلوص و محبت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ کسی بھی نیک کام کو کرنے میں نیت کا اخلاص لازمی ہے۔ اگر ہمارا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو گا تو دوسروں کی واہ واہ سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
    غصہ :
    دل کی بیماریوں میں غصہ کی حیثیت کافی اہم ہے۔ روحانی لحاظ کے علاوہ طبی لحاظ سے بھی غصہ ہماری صحت اورخصوصاً صحتِ قلب کیلئے بے حد نقصان دہ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی جو صفات بیان کی ہیں ان میں یہ اہم ہے:
    (والکاظمین الغیض)۔
    ’’ اور جو غصے کو پی جاتے ہیں۔‘‘(آل عمران134)۔
    غصے کے عالم میں انسان اپنے آپے سے باہر ہو جاتا ہے اس لئے حضور  کا فرمان ہے کہ کسی شخص کو پچھاڑنے سے آدمی پہلوان نہیں ہوتا ،بہادر وہ ہے جو غصے میں اپنے نفس کو پچھاڑ دے۔
    حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضورکی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے نصیحت کیجیے۔آپنے فرمایا :
    ’’ غصہ نہ کیا کرو۔‘‘
    آپ سے اس نے  دوبارہ یہی سوال کیا تو  آپ نے یہی جواب دیا۔
    غصے کے عالم میں انسان کو اپنی زبان پر اختیار نہیں رہتا۔ گالی گلوچ، بدزبانی، لعن طعن حتیٰ کہ مارپیٹ کی نوبت آجاتی ہے  جیسا کہ آج کل ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں کہ غصے کی حالت میں مسلمان بھائی آپس میں دست و گریباں ہیں، بات بے بات اسلحہ کا استعمال ہوتا ہے اور معمولی معمولی باتوں پر قتل و غارتگری ہو رہی ہے۔ روزانہ اخبارات اس قسم کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں پھر غصے کے عالم میں انتقامی کارروائیاں ہوتی ہیں جس سے انسان حیوان کا روپ دھار لیتا ہے۔
    البتہ خلاف شرع باتوں پر ناجائز افعال پر اور دین کی ہتک پر غصہ اور ناگواری لازم ہے۔ غصے کو اپنے تابع کرنے کے بعد ایسا کر دیا جیسا کہ شکاری کتا ہوتا ہے کہ جب مالک کہے تو وہ اپنے شکار کے پیچھے بھاگے اورحملہ کرے ورنہ خاموش بیٹھا رہے۔غصہ برداشت کرنے کی ایسی ترکیب ہونی چاہیے کہ نفس کی باگ قابو میں ہو، حلم و برداشت کی عادت ہو،اپنے نفس کی نافرمانی پر  غصہ آئے،پھر جس کسی  کی بات پر غصہ آ جائے تو یہ سوچا جائے کہ میرا اس پر کیا حق ہے اور اللہ تعالیٰ کا مجھ پر کیا حق ہے پھر یہ کہ میں اس کا مالک نہیں، خالق نہیں، اس کورزق نہیں دیتا، اس کی زندگی اللہ کی عطا کردہ ہے،پھر یہ کہ میں خود اپنے مالک حقیقی کی کتنی نافرمانیاں کرتا ہوں، بیسیوں خطائیں مجھ سے سرزد ہوتی ہیں۔ جب وہ سب برداشت کرتا ہے تو میری یہ حالت کیوں ہے کہ ذرا سی بات مزاج کے خلاف ہو تو میں اس کی جان کے درپے ہو جاتا ہوں پھر جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔حضرت سلیمان بن اوس ؓبیان کرتے ہیں کہ میں رسول کے پاس بیٹھا ہوا تھاکہ2 آدمی باہم گالی گلوچ کرنے لگے۔ ان میں سے ایک کا چہرہ سرخ ہو گیا، گلے کی رگیں تَن گئیں تو رسول نے فرمایا :
    ’’ مجھے ایک کلمہ معلوم ہے، اگر یہ شخص اسے کہہ لے تو اس کی یہ حالت جاتی رہے(پھر فرمایا) اعوذباللہ من الشیطن الرجیم پڑھ لیا کرو۔‘‘
    اس پر صحابہ کرامؓ نے  زیادہ غصہ کرنیوالے شخص سے کہا کہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ لے تو وہ کہنے لگا:کیامجھے جنون ہو گیا ہے ؟۔
      جب غصہ بہت آئے تو اعوذباللہ پڑھ لینا چاہیے کیونکہ غصہ شیطانی اثر ہے۔شیطان کے شر سے جب پناہ مانگی جائے تو اثر زائل ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:- - - - - -

شیئر: