Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جو پنجاب سے جیتا وہی سکندر

کراچی (صلاح الدین حیدر )انگریزی کا محاورہ ایک ملین ڈالر کا سوا ل ہے یہاں پوری طرح صادق آتا ہے کہ الیکشن میں کیا واقعی معنی خیز تبدیلیاں آسکیں گی۔ عوام کی خواہشات پوری ہوتی ہیں کہ نہیں۔یہی سب سے اہم سوال ہے ۔ تبدیلی کا نعرہ تو ضرور لگتا رہا ہے۔پہلے تین چار برسوں سے، خاص طور پر گزشتہ 4،5 ہفتوں سے جب سے 2018کی انتخابی مہم نے زور پکڑا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 25جولائی کو ہونے والے انتخابات قوم کی اُمیدوںاور عوام نے جو خواب اپنی آنکھوں میں سجا رکھے ہیں ، اُن کی صحےح تعبیر ثابت ہوتی ہے یا نہیں۔مایوسی کفر ہے۔ اُمید کے چراغ ابھی اتنے روشن نہیں کہ جن سے سب کچھ راتوں رات ٹھیک ہوجانے کی توقع کی جا سکے ۔عوام الناس پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسے اپنا نمائندہ چنتی ہے۔ کیا آنے والی پارلیمنٹ قومی اور صوبائی سطح پہلے سے بہتر ہوگی،یا پھر وہی فرسودہ روایت اور دھوکہ دہی ہی قوم کا مقدر اگلے 5سال تک اُن کا منہ چڑاتی رہے گی ۔؟تبدیلی آئی بھی تو کیسی ہوگی، فی الوقت تو وزیر اعظم جیسے اہم عہدے کے لیے پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور نون لیگ کے صدر شہباز شریف اور تحریک انصاف کے چیئرمین، سابقہ کرکٹر عمران خان ہی مرکز نگاہ ہیں، کچھ لوگ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کو بھی اسی صف میں شامل کر رہے ہیں لیکن چوہدری نثارآزاد اُمیدوار کی حیثیت سے راولپنڈی اور ملحقہ علاقوں سے امیدوار تو ہیں لیکن ان کے پاس کوئی تنظیم، کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے جس پر وہ بھروسہ کرسکیں۔بہرحال 2018کے انتخابات یوم حساب بن کر سروں پر چھایا ہوا ہے۔10 کروڑ ووٹرز، تقریباً 11ہزار اُمیدوار میں سے قومی اسمبلی کی 207نشستوں کا انتخاب کریں گے۔نتائج کیا ہوںگے اس کا علم تو صرف غیب کو ہی ہے، لیکن قومی سطح پر ویسے تو مقابلہ چار بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف، نواز شریف کی مسلم لیگ ن، جس کی سربراہی اب ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں، آصف زرداری کی پیپلز پارٹی، جس کی لگام فی الحال اُن کے صاحبزادے بلاول کے ہاتھوں میں ہے اور متحدہ مجلس عمل جو دینی جماعتوں کا مجموعہ ہے اور جس کی سربراہی مولانا جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی ذمے ہے،مگر چھوٹی بڑی اور بھی جماعتیں میدانِ عمل میں موجود ہیں، انہیں علاقائی جماعتیں ہی کہا جا سکتا ہے، ان میں اسفندر یار ولی کی عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان میں نوزائیدہ عوامی پارٹی، سندھ میں جی ڈی اے، ایم کیوایم اور مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی کا نام سرفہرست ہےں۔مقابلہ تو ایک ایک ووٹ کا ہوگا، لیکن پانی پت کی طرح پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے نا تے اصل میدان جنگ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میدان جنگ بنا رہے گا۔ قومی اسمبلی کی کل207نشستوں میں پنجاب کی 141نشستیں ہیں ، جو یہاں سے جیتا وہی سکندر،اندازے تو بیشمار ہیں ۔ ماہرین کی اکثریت عمران خان کا پلڑا بھاری دیکھ رہی ہے، جتنے منہ اتنی باتیں تجزیہ نگاروں کے درمیان عمران کو ن لیگ پر پنجاب میں فوقیت حاصل ہے۔ تناسب کیا ہوگا، مختلف آراءہیں ، کوئی 51/49پی ٹی آئی کے حق میں نتیجے کو دیکھ رہا ہے ،تو کوئی پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان واضح فرق پر زور دینے پراصرار کررہاہے۔ بہرحال ایک بات تو ہے کہ مقابلہ سخت ہے ۔عمران خان قومی اسمبلی کے5حلقوں سے لڑ رہے ہیں۔ لاہور کی 14 نشستوں میں 50-50فیصدنتائج کی امید ہے تو کچھ تجزیہ نگار وں کے عمران کو زیادہ نشستیں جیتتے دیکھ رہے ہیں۔جنوبی پنجاب تو بہتوں کی نظر میں نون لیگ کے ہاتھوں سے نکل گیا، ویسے بھی نون لیگ کے 191ممبران میں 113پارٹی چھوڑ چکے ہیں، ان کی بڑی تعداد پی ٹی آئی میں شامل ہوچکی ہے ، باقی اچھی خاصی تعداد میں آزاد امید وار کی حیثیت میں لڑ رہے ہیں، شہباز شریف نے جنوبی پنجاب کو دوبارہ نون لیگ کی طرف رُخ کرنے کے لیے ڈیرہ غازی خان میں اےک شاندار جلسہ کیا وہ نتائج پر اثر انداز ہوگا، یہ تو دیکھنا ہے، شہباز شریف کا کراچی میں مقابلہ تو خیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ لاہور جو ان کا آبائی شہر ہے ۔ اس کے حلقہ این اے 132پر ان کی حریف پیپلز پارٹی کی ثمینہ خالد اور تحریک انصاف کے چوہدری منشاءسندھو سے ہے۔صوبائی سطح پر دیکھا جائے تو عمران خان کی پی ٹی آئی، جماعت اسلامی سے علیحدہ ہونے کے بعد کچھ مخمصے کا شکار ضرور ہے ، لیکن پھر بھی کے پی کے میں اس کا پلڑا بھاری ہے ۔ وہ پاکستان کی تاریخ میں شاید واحد پارٹی ہو جو دوسری مرتبہ صوبے میں اقتدار سنبھالے۔ اے این پی ، جماعت اسلامی اور آفتاب شیرپاﺅ کی قومی وطن پارٹی بھی مقابلے میں ہے ۔ ظاہر ہے کہ عمران کو کچھ نا کچھ دھچکا تو ضرور پہنچے گا لیکن وہ حکومت بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔ بلوچستان میں عوامی پارٹی ایک نیا عنصرشامل ہوگیا ہے۔ اس نے حال ہی میں اپنا نمائندہ سینیٹ میں چیئرمین منتخب کروا کے ملک میں ہلچل مچا دی۔بلوچی سردار اور قبائلی رسم و رواج یقینا پھر سے اہم رول ادا کریں گے لیکن عوامی پارٹی کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ کراچی میں دوسرا بڑا دنگل سجے گا۔ یہاں ایم کیو ایم پاکستان جو اب ایک ہوگئے ہیں اور پاک سرزمین پارٹی ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی وغیرہ میں نشستیں تقسیم ہونے کا امکان تو ضرور ہے لیکن اصل میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی ہی حاوی نظر آتی ہیں،ڈاکٹر فارو ق، اور خالد مقبول صدیقی اب بھی مصر ہیں کہ ایم کیو ایم کراچی کی 21نشستوں میں سے 14سے15حاصل کرلے گی لیکن مصطفی کمال بہت پر عزم نظر آتے ہیں کہ کراچی اور حیدر آباد میں ان کی پارٹی کلین سوئپ کرے گی، تجزیہ نگار بھی پی ایس پی سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا ابھی تک سکہ بولتا ہے، وہ تیسری مرتبہ سندھ کے اندرونی علاقوں سے جیت کر حکومت بنائے گی مگر شاید اسے پہلے جیسی اکثریت نہ مل سکے۔ گرینڈ ڈیموکریٹ الائنس جس کی سربراہ پیر پگارا کررہے ہیں،ان کےلئے درد سر بنی ہوئی ہے۔ ویسے بلاول بھٹونے اقتدار کا خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ پی پی پی ، شاید اب تیسری سیاسی قوت بن کر ابھرے ،کیا ہوگا یہ تو نتائج مکمل ہونے کے بعد ہی پتہ چلے گا لیکن کراچی اور لاہور پر سب کی نظریں آخری وقت تک لگی رہےں گی۔ 

شیئر: