بس دوسری بار وزیراعظم بن جانے دو
ظفر قطب
ہندوستانی وزیراعظم کی زبان یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتی ہے کہ ’’میں بد عنوانی و بے ایمانی کے خلاف لڑنے کے لیے میدان میں اترا ہوں‘‘ انھوں نے خود کو عوامی خدمت گار کہا ۔پردھان منتری کی جگہ خود کو ’’پردھان سیوک‘‘ کہا حالانکہ یہ لفظ آزادی ملنے کے چند دنوں بعد ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا ۔ پورے 71 برس بعد وزیر اعظم نے اسی لفظ کو اپنا لیا۔ انھوں نے شاید یہ سوچا ہوگا کہ اس دوران نئے ہندوستانیوں کی دو نسلیں جوان ہوچکی ہیں ، اب کسے یاد ہوگا کہ یہ کس نے کہا تھا؟ یا ہوسکتا ہے کہ اپنے سابق ہم عہدہ کی یہ بات اچھی لگی ہو اور انھوں نے اسے اپنا لیا ہو، تو اچھی بات ہے لیکن کبھی اس کا حوالہ بھی تو دے دیتے لیکن ان کے ہم نوا الیکٹرانک چینلوں نے اس کا اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ گویا یہ جملہ ان کی ایجاد ہو۔ اس کی تعریف میں کیا نہیں کہا گیا۔ مودی کو دانش ور ثابت کرنے والے اخبارات نے تو بڑے بڑے مضامین لکھ کر اس جملے کی معنویت اور اس کی گہرائی تک ناپ ڈالی لیکن برا ہو کانگریس کے ایک نوجوان ترجمان سریندر راجپوت کا جنھوں نے ایک سوئی چبھو کر غبارے کی ہوا نکال دی اور انھوں نے پنڈت نہرو کے اس قول کو مع حوالوں کے پیش کرکے ذرائع ابلاغ کی خوشامد کی لہر پر رکاوٹ کھڑی کردی۔
مودی کے زمانے میں اس ملک میں جتنی بد عنوانیاں ہوئی ہیں وہ ملک کے دیگر وزرائے اعظم کے مقابلے بہت زیادہ ہیں ، ڈاکٹر من موہن سنگھ جنھیں ٹو جی اسپکٹرم اور کوئلہ گھپلے کا بادشاہ قرار دے کر جیل بھیجنے کی بات کچھ وہ بی جے پی ارکان کرنے لگے تھے جن کی پرورش اور تربیت آر ایس ایس کے خیموں میں ہوئی ہے لیکن جب سپریم کورٹ کا اس سلسلہ میں فیصلہ آگیا تو دنیا کو سچائی کا پتا چل گیا ۔ عدالت نے انتہائی تکبرانہ بیان دینے والے نام نہاد محبان کو کٹہرے میں کھڑا کردیا۔جن الزامات کے سہارے وہ اپنے مخالفین کو جیل کی تاریک کوٹھری میں ڈالنا چاہتے تھے یا انھیں پھانسی پر لٹکا دینے کے خواہاں تھے ان الزامات کے سلسلہ میں کوئی پختہ ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہے اور عدالت علیا نے سب کو کلین چٹ دے دی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی راج آنے سے قبل وزیراعظم مودی نے بیرون ممالک میں جمع ہندوستانیوں کی ناجائز دولت واپس لانے کا جو وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا؟ ایک نیا پیسہ بھی سوئس بینکوں سے ہندوستان نہیں آیا۔ انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ میری حکومت قائم ہونے کے بعد اس ناجائز دولت سے پندرہ لاکھ روپے ہر ہندوستانی کی جیب میں آجائے گا۔ اب ہر ہندوستانی ان سے سوال کررہا ہے کہ کہاں گئے وہ روپے؟ غیر ملکی بینکوں سے کوئی پیسہ آنے کے بجائے الٹے ہندوستان سے مزید کھربوں روپے باہر چلے گئے اور یہ بے ایمان لوگ کوئی اور نہیں بلکہ حکمراں جماعت کے اعلیٰ لیڈروں کے قریبی سرمایہ دار ہوں چاہے وہ للت مودی ہوں یا وجے مالیہ۔ نیرو مودی ہوں یا دفاعی سودا کرنے والے لوگ ۔ یہ لوگ ملک کی دولت لے کر ہندوستان سے بھاگ چکے ہیں ۔ مودی حکومت نے ان کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس بھی جاری کررکھا تھا لیکن سب آسانی سے ہماری سرحدوں کو پار کرگئے۔ یہ سب کیسے ہوا؟ اس کا جواب آج تک ’’پردھان سیوک‘‘ نہیں سے پارہے ہیں۔
پنجاب نیشنل بینک جو ملک کا بہت بڑا قومی بینک ہے اس میں اتنا بڑا گھپلہ ہوا، اس کے خطاکاروں کے خلاف بی جے ہی حکومت نے کیا کیا؟ کسی کو نہیں معلوم۔ ہندوستان میں حالات اور واقعات بڑی تیزی سے تغیر پذیر ہورہے ہیں، حکومت کی ایک غلطی اور بڑی بد عنوانی کا حل نکل نہیں پاتا کہ دوسرا واقعہ پیش آجاتا ہے ، ہمارے پرائیوٹ چینل او ر اخبارات بڑی چالاکی سے پہلے واقعہ پر مٹی ڈال کر دوسرے واقعہ کو سامنے لاتے تو ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی اقلیتوں سے متعلق کوئی ایسا واقعہ بھی اس کے متوازی لاکر خبروں میں چلانا شروع کردیتے ہیںجس سے لوگوں کی توجہ تقسیم ہوجاتی ہے۔ ہیرا کاروباری نیرو مودی اور میہول چوکسی نے جس طرح پنجاب نیشنل بینک کو لوٹا اس کی جانچ انتہائی لچر طریقہ پر ہورہی ہے۔لگتا ہے اس کے خطاکار بھی ملک میںہونے والے دوسرے گھپلوں کے ذمہ داروں کی طرح بچ کر نکل جائیں گے۔ اس بڑے گھپلے کی نگرانی پر مامور سی بی آئی افسر راجیو سنگھ کو وقت مقررہ سے قبل ہی ان کے اصل کیڈر تری پورہ واپس بھیج دیا گیا۔ راجیو اس وقت سی بی آئی میں جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں ۔ بی جے پی حکومت نے یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا ہے جب ایجنسی نیرو مودی اور چوکسی کو ریڈ کارنر نوٹس بھیج رہی تھی۔ اس طرح پرسونیل اور ٹریننگ محکمہ کے ذریعہ ایک حکم جاری ہوا جس کے مطابق سی بی آئی کے تین اور افسران کو ان کے اصل کیڈر میں واپس بھیج دیا گیا۔ اس سلسلے میں یہ وجہ پیش کی گئی کہ ان کی واپسی ان کی ریاستی حکومتوں کی خواہش کے مطابق ہوئی ہے۔ جن ریاستوں سے وہ آئے تھے انھیں ان کی حکومتیں واپس بلا رہی تھیں اس لیے یہ اقدام کیے گئے۔ اس بات پر ریاستی اور مرکزی حکومتوں نے ذرا بھی روشنی نہیں ڈالی کہ آخر دوران تفتیش ان کے وقت مقررہ سے پہلے ہی انھیں کیوں واپس بلا لیا گیا ؟آخر کون سے وہ اہم کام تھے جو پنجاب قومی بینک گھپلے اور نیرو مودی و چوکسی کی مالی بد عنوانیوں سے زیادہ سنگین تھے۔ مذکورہ افسران نے نیرو مودی کے خلاف جو چارج شیٹ داخل کی ہے اس کے مطابق 2 ارب ڈالر کا پنجاب نیشنل بینک کو دھوکہ دیا گیا ہے انہی افسران نے نیرو مودی اور چوکسی و ان کے دیگر ساتھیوں نے منی لانڈرنگ حوالہ دھندا دوسری مالی بد عنوانیوں میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے ۔ مختلف دفعات کے تحت ان کے خلاف بارہ سو صفحات پر مشتمل چارج سیٹ اور شکایت نامہ خصوصی عدالت میں داخل کی گئی ہے، مجرمانہ شکایت نیرو مودی اور اس کے ساتھیوں اور کمپنیوں کے خلاف داخل ہے۔ اس کے بعد امید ہوچلی تھی کہ نیرو مود اور اس کے ماموں ہیرا کاروباری میہول چوکسی کے دوسری فرد جرم بھی داخل کی جائے گی لیکن محکمہ میں زبردست پھیر بدل کے بعد اب اس کی امیدیں معدوم ہوتی نظر آرہی ہیں ، نیرو مودی فرار ہے اور اس معاملے میں اب تک محکمہ معاشی جرائم کی تفتیش میں اسے شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ جب کہ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ ان دونوں معاشی مجرموں کے ساتھ پنجاب نیشنل بینک کے کچھ افسران بھی شامل ہیں۔ ان سب نے مل کر عوامی زمرہ کے بینکوں کے ساتھ 13 ہزار کروڑ سے زائد رقم کی دھوکہ دہی کی ہے۔یہ سب اس طرح ہورہا ہے کہ معاملات کی جانچ بھی ہورہی ہے او ر ملزمان آزاد گھوم بھی رہے ہیں وہ جہاں بھی جاتے ہیں ان کے ساتھ اہم شخصیات والی آؤ بھگت کی جاتی ہے اور نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن وہ ملک سے فرار ہوگیا۔ اس کے خلاف ہماری جانچ اور تفتیشی ایجنسیوں نے اپنا کام شروع کیا لیکن ابھی تفتیش ان حالات میں نہیں پہنچی تھی کہ عدالتیں ملزمان کو کیفر کردار تک لے جاتیں کہ جانچ افسران کے تبادلے شروع ہوگئے ۔ ان کے اصل کیڈر کی ریاستوں کو اچانک ایسی ضرورت پیش آجاتی ہے جو پنجاب نیشنل بینک گھپلے سے بہت زیادہ اہم ہے۔ اس لیے انھیں دھڑا دھڑ واپس بلا لیا جاتا ہے۔ اس کی جانچ کب شروع ہوگی ملزمان کو کب اور کیسے ملک میں واپس لایا جائے گا۔ اس سلسلے میں فی الحال خاموشی ہے، اس کے بعد سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ حال میں سوئس بینکوں کے حوالے سے جو خبریں آئی ہیں ان سے انکشاف ہوتا ہے کہ بیرون ممالک میںجمع ہندوستان کی ناجائز دولت میں مزید اضافہ ہوا ہے تو کیا اب 2019 کے پارلیمانی الیکشن سے پہلے عوام کی جیب میں 30،30 لاکھ روپے آجائیں گییا یہ کہا جائیگا کہ بس مجھے دوسری بار ملک کا وزیراعظم بن جانے دو۔