عنبرین فیض احمد۔ ینبع
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر دور میں اہل قلم نے دلوں پر راج کیا ہے۔انہوں نے قلم کے زور پرہی علم، محبت ، اخوت ،امن و آشتی کا پیغام دیا ، تاریکی مٹانے کی کوشش کی ۔ انسانیت کے دشمنوں کیخلاف قلم سے جدوجہد کی ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ قلم ہتھیار سے زیادہ طاقتور ہے۔
قلم تو لکھنے کیلئے وجود میں آیا لیکن کچھ اہل قلم نے اسے لکھنے کے علاوہ دوسری چیزوں میں استعمال کرنا شروع کردیا ۔اسی لئے اس کی افادیت بھی بڑھتی چلی گئی۔ قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ یہ واحد اوزار ہے جسے بطور ہتھیار استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ لائسنس کے بغیر اس ہتھیار کو نہ صرف رکھ سکتے ہیں بلکہ استعمال بھی کرسکتے ہیں۔ شوق سے ہر شخص خرید سکتا ہے ۔ اسے کلاشنکوف کے طور پر استعمال کرکے حریفوں پر بڑھ چڑھ کر حملے کرکے ان کے صبر کو آزمایا بھی جاسکتاہے۔
افسوس کہ ہمارے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی ناخواندہ ہے اس کے باوجود بازاروں، مارکیٹوں میںا یک سے ایک خوبصورت ، حسین، سبک رواں اور دیدہ زیب قلم دکھائی دیتے ہیں۔یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ ہر نیا قلم خریدنے والا خود کو قلمکار کہلوانے کا متمنی ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اتوار کی صبح قلم خریدنے والا پیر کی شام تک خود کو نہ صرف قلمکاروں کی صف میں شامل سمجھتا ہے بلکہ مُصر ہوتا ہے کہ اسے قلمکار تسلیم بھی کیا جائے۔ یوں وہ جلدازجلد شہرت کی بلندیوں پر پہنچنا چاہتا ہے۔
کہتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی حالت زار اور کردار کا جائزہ اس قوم کے ادیبوں ، صحافیوں اور دیگر اہل قلم کے نظریات اور کردار سے لگایاجاسکتاہے۔ اگر اہل قلم لالچ، خوف ، دباﺅ یا پھر کسی بھی غرض کی پروا کئے بغیر حق اور سچ کی آواز بلند کرتے ہیں تو ایسے افراد کو کوئی نہ تو مرعوب کر سکتا ہے اور نہ ہی خرید سکتا ہے ۔ جس قوم میں ایسے خوددار موجود ہوں وہ کبھی زبوں حالی کا شکارنہیں ہوسکتی ۔جس قوم کے اہل قلم اور دانشور مالی مفادات ، مراعات اور لالچ میں آکر قصیدہ گوئی اور خوشامد کے راستے کو اپنالیتے ہیں یا خوف و دباﺅ میں آکر حق بات چھوڑ دیتے ہیں، بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
افسوس ہمارے ملک میں ایسے افراد کثرت سے پائے جاتے ہیں جو حق بات کہنے سے گھبراتے ہیں۔ دیکھنے میںآ تا ہے کہ اکثر لوگ قلم کا استعمال بھی دوا کی طرح کرتے ہیں۔ ضرورت پڑی تو قلم اٹھایا اور ایک عدد چھوٹا سا چیک لکھ کر فلاحی اداروں کی نذر کردیااور معروف ہستی بن بیٹھے ۔ان کی چند تحریروں کے آگے ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں ماند پڑ جاتی ہیں۔ یوں احساس ہوتا ہے کہ ادیبوں اور شاعروں نے ناحق عمر یوں ہی گنوا دی کتابیں لکھنے لکھانے میں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اتنی لمبی چوڑی افسانہ یا ناول نگاری کے بجائے چھوٹے موٹے چیک لکھتے تو شاید وہ بھی جلد مشہور و معروف ادیبوں اور شاعروں کی صف میں شامل ہوجاتے۔
دانشوروں کا کہنا ہے کہ قلم قیام امن کیلئے بڑا ہتھیار سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس عالمی جنگوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ محض دانشوروں کی سوچ ہے، ان کی خام خیالی ہے کیونکہ دیکھا جائے تو دنیا کی اکثر جنگیں قلم کے استعمال کے نتیجے میں ہی لڑی گئیں۔اگر قلم کا ایسا استعما ل نہ کیاجاتا توسب عافیت میں رہتے ، سکون سے گھروں میں بیٹھے بندوقیں صاف کرکے دیواروں پر آویزاں کرتے۔ ایک دوسرے سے گپ شپ کررہے ہوتے۔ کافی اور چائے کا دور چل رہا ہوتا۔ ایک دوسرے کے نجی معاملات زندگی سے مکمل آگاہی حاصل کرتے اس طرح معاشرتی علوم میں بھی فروغ پاتے اور آرام سے زندگی بسر کررہے ہوتے۔
آج ہم جب قلم اور ہتھیار کاموازانہ کرتے ہیں تو ہتھیار کے مقابلے میں قلم آگے دکھائی دیتا ہے۔ ہتھیار سے ملک تو فتح کئے جاسکتے ہیں لیکن قلم سے دلوں کو تسخیر کیا جاتا ہے۔ یہ اطاعت دائمی ہوتی ہے۔ اسی لئے قلم کو صحیح انداز میںاستعمال میں لانا چاہئے کیونکہ اس میں دلوں کو ملانے کی صلاحیت ہے ، یہ رواداری پیدا کرتا ہے۔ آج سے قلم کی قدر کریں۔لکھنے کے سوا کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنے سے گریز کریں۔قلم کو سنبھال کر رکھنا چاہئے کیونکہ قلم انسان کو اس کی تحریر کے ذریعے عزت دلاتا ہے ۔ معاشرے میں اچھے اور برے کی تمیز کرنا سیکھاتا ہے۔ قلمکار کہلانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔