Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فریضۂ اقامتِ د ین ، ایمان و عمل سے مشروط

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لئے تفرقہ و اختلاف سے دامن بچائے رکھنا اوراس پر مضبوطی سے جم جانا ضروری ہے

* * * سید شکیل احمد انور۔ ہند * *

    بالعموم فریضۂ اقامت دین کے سلسلے میں سورۃ الشوریٰ کی آیت 13سے استدلال کیاجاتا ہے۔ اُس آیت کا ترجمہ ہے: 
    ’’اس میں تمہارے لئے دین کاوہی طریقہ مقرر کیاہے جس کا حکم اْس نے نوح کو دیاتھا اور جسے (اے محمد !) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسٰی و عیسٰی کو دے چکے ہیںاس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجاؤ۔‘‘
    اس فریضہ کی وضاحت امربالمعروف و نہی عن المنکر کی اصطلاح میں بھی کی گئی ہے:
    ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے میدان میں لایاگیاہے،تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘(آل عمران110)۔
    ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے:
    ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جولوگوںکونیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور بْرائیوں سے روکتے رہیں ، جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے لیکن تم اْن لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایت پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے ،جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے۔‘‘(آل عمران105,104)۔
    اس فریضہ کی ادائیگی بحسن و خوبی انجام پائے، اس کے لئے شرطِ اوّل دونوں مقامات پر (الشوریٰ و آل عمران میں) یہ بتلائی گئی ہے کہ اس فریضہ کا حامل گروہ (یا امت) تفرقہ و اختلاف سے اپنا دامن بچائے رکھے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس فریضہ پر مضبوطی سے جم جائے اور لوگوں کو اس کی دعوت دے۔ ان شرائط کی تکمیل پر انعام واکرام، دنیوی واخروی فلاح کی یقین دہانی کے ساتھ عدم تکمیل پر دنیوی خسران او رآخرت میں عذابِ عظیم سے دوچار ہونے کی دھمکی معاملے کی سنجیدگی کئی گنا بڑھادیتی ہے۔
    دعوتِ حق نہ صرف فریضہ ہے بلکہ پیش کش کے لحاظ سے ’’عمل صالح‘ ‘بھی ہے جس کا دنیوی ثمرہ  ’’حیات طیبہ‘‘ (پاکیزہ زندگی) اور ’’رزق کریم‘‘ ہے۔ ماضی کی اقوام (بنی اسرائیل وغیرہ) نے اس فریضہ اور اسکے تقاضوں کو نظرانداز کیا اور محض اپنے موروثی و نسلی مقام کو بنِائے فضیلت سمجھنے کی نادانی اور اس کی پاداش میں دنیا میں ہی رسوائی، ذلت و مسکنت سے دوچار ہوئے۔
    کلام الٰہی اہل ایمان (مردو خواتین) کی خصوصیات میں فریضۂ  امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تذکرہ کرتا ہے۔ اہل ایمان ایک دوسرے کی رفاقت کاحق ادا کرنے والے عبادات میں ساتھی اور اللہ و رسول  کی اطاعت میں ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔ یہ طرزِعمل اْن کو اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کا مستحق بناتا ہے۔
ً    اس فریضہ کی ادائیگی ایمان و عمل سے مربوط ہے۔ وعدۂ ربانی کے مطابق خلافتِ ارضی کا حصول، امن و عافیت سے معمور دنیوی حیات اور دنیاو آخرت میں رضائے الٰہی کی نعمت کبریٰ سے سرفرازی وہ انعامات ہیں جن کے ملنے کا یقین اس فریضہ کا نہایت طاقتور محرک ہے اسی لئے مومن حیاتِ دنیوی میں اس مشن کے تکملہ کی خاطر اقتدار کا آرزومند ہے۔ اس کی دعا و سلیقہ خود مالک کائنات نے اسے سکھایا ہے۔
    سورۂ بنی اسرائیل، آیت 80کی تشریح کرتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں:
    ’’اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے‘‘ یعنی ’’یا تو مجھے خود اقتدار عطا کر یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنادے تاکہ اس کی طاقت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کرسکوں، فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں اور تیرے قانونِ عدل کو جاری کرسکوں۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصریؒ اور قتادہؓ نے کی ہے اور اسی کو ابن جریرؒ اورابن کثیرؒ جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیار کیا ہے اور اسی کی تائید نبی اکرم  کی یہ حدیث کرتی ہے"اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سدِّباب کردیتاہے جن کا سدِّباب قرآن سے نہیں کرتا۔" اس سے معلوم ہواکہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتاہے وہ صرف وعظ و تذکیر سے نہیں ہوسکتی بلکہ اسکو عمل میں لانے کیلئے سیاسی طاقت بھی درکار ہے پھر جبکہ یہ دعا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول   کو خود سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ اقامتِ دین اور نفاذِ شریعت اور اِجرائے حدود اللہ کیلئے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب و مندوب ہے۔‘‘ (تلخیص تفہیم القرآن)۔
    سیاست دین کاجزو لاینفک تھی اور اہل حق و دیندار لوگ سیاست کو شجرممنوعہ نہیں کہتے مگر عملی روش عموماً یہ ہے کہ سیاست حدبندیوں اور سخت گیر شرائط کی تابع رہی ہے وہ اس بارے میں عملیت پسند اور حکمت عملی کے کبھی قائل نہیں رہے۔ آمادگی ٔ قلب کے ساتھ عملی حصہ لینے کے روادار نہیں رہے۔ اس مخمصہ میں کیاملا؟:
جس کو جان و دل عزیز
وہ اس گلی میں جائے کیوں؟
     نصب العین کی تشریح اس طرح کی گئی ہے:
    ’’عقائد، عبادات، اخلاق سے لے کر معیشت، معاشرت اور سیاست تک انسانی زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جو دین کے دائرے سے خارج ہو۔ یہ دین جس طرح رضائے الٰہی اور فلاحِ آخرت کا ضامن ہے اسی طرح دنیوی مسائل کے موزوں حل کے لئے بہترین نظام زندگی بھی ہے اور انفرادی و اجتماعی زندگی کی صالح و ترقی پذیر تعمیر صرف اس کے قیام سے ممکن ہے۔‘‘
    اس دین کی ’’اقامت‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کسی تفریق وتقسیم کے بغیر اس پورے دین کی مخلصانہ پیروی کی جائے اور ہر طرف سے یکسوہوکر کی جائے اور انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی گوشوں میں اسے اس طرح جاری و نافذ کیاجائے کہ فرد کا ارتقاء ، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل سب کچھ اس دین کے مطابق ہو۔ اس دین کی اقامت کا مثالی اور بہترین نمونہ وہ ہے جسے حضرت محمد  اور حضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے قائم فرمایا۔
    نصب العین کی نظری وضاحت کے بعد اس کا عملی پہلو نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے یعنی اس مثالی منزل تک پہنچنے کی راہ اور لائحہ عمل کیا ہو۔ طریق کار میں وضاحت ہے کہ قرآن و سنت اصولی اساس کار ہوںگی۔ حسب ذیل اصول خطوط کار میں روح رواں کی حیثیت سے شامل ہیں۔ 
     ۰اخلاقی حدود کی پابندی۔
    ۰صداقت و دیانت کے خلاف ذرائع اور طریقوں سے اجتناب۔
    ۰فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کشمکش اور فساد فی الارض کے موجب طریقوں سے اجتناب۔
    ۰ پرامن اور تعمیری طریقوں کو اختیار کرنا۔
    ۰تبلیغ و تلقین اور اشاعت افکار سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح۔
    درجِ بالا اصول اس بات کی ضمانت ہے کہ عصر حاضر میںقانون کی حکمرانی، عدل و قسط کا قیام اور حقیقی مساوات و مواخاہ کا حصول اگر ممکن ہے تو نصب العین ہی کے ذریعے ممکن ہے۔
    کسی شاندار عمارت کاخاکہ تیار کرلینا کافی نہیں بلکہ علم ِتعمیر کے ماہر افراد ،مضبوط وپائیدار سامان اور بہترین و محنتی کارکنوں کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ عمارت کے محل وقوع ، ہوا، روشنی، پانی کے نظام کو بھی دیکھناہوتا ہے۔ اسی طرح ’اقامت دین‘ کے عنوان سے دین کی شاندار عمارت کی تعمیر مطلوب ہے۔ ’’بنیان مرصوص‘‘  کے استحکام والی عمارت بنانی ہے۔ تعمیری مواد و مسالہ دین کی عمارت کے لئے ہے کسی’’دوسری‘‘ عمارت کے لئے نہیں ۔ جن لوگوں پر بطور فریضہ عائد ہواہے وہ کوئی مذہبی رسم نہیں بلکہ فریضہ (Duty) کے طورپر بحسن و خوبی ادا کرنے کے خواہش مند ہیں اور اس کا انعام ابدی قیام اور نعمتوں بھری جنت ہے اور اس کا حقیقی محرک رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ اقتدار ایک امانت ہے جس کا حق مومنین صالحین ہی ادا کرسکتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ’’اللہ نے وعدہ فرمایاہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے اور ان کی (موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا۔‘‘(النور55)۔
    اقتدار کے ذیلی مراکزقوت بھی آج فسّاق و فجّار قائدین کے زیرتصرف ہیں، جو اقامت دین کی راہ میں زبردست رکاوٹ ڈالتے رہتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ بھی مومنین صالحین کو خبردار فرمارہا ہے:
    ’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اورآمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریںگے، ان حالات میں جو لوگ صبر کریں انہیں خوش خبری دے دو۔‘‘(البقرہ155)۔
    صابر و شاکر اور راہ استقامت میں ڈٹے رہنے والے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کا اسوہ ہمارے پیش نظر ہے، جن کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ  کو اپنے نبی  کی صحبت اور دین کی اقامت کے لئے چْن لیاتھا۔
    دعوت واقامت دین کے نصب العین کو جن مومنین صالحین نے اپنی زندگی کا محور ومقصود اصلی قرار دیاہے اور اسے کارگاہِ حیات بنایا ہے انہیں اللہ کی راہ میں ابتلاء و آزمائش کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ایمان کا مفہوم اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں خود کو (جنت اور رضائے الٰہی کے عوض) فروخت کردینا ہے۔

مزید پڑھیں:- - - - -دیدارِ کعبہ ، آتش شوق میں کمی کیوں نہیں آتی

شیئر: