وہ فکر مند تھا مگر بہنوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا
اسے صرف اپنے اسینڈرڈ کی پروا تھی جو دیکھنے والوں کی نظروں میں بہت ہائی تھا، انا کی تسکین کے لئے اسے اپنا کوئی حربہ نا جائز نہیں لگتا تھا
مسز زاہدہ قمر۔ جدہ
(قسط 15)
یوسف صاحب کی بیماری کی خبر نے پورے گھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ اسپتال میں ایڈمٹ تھے ۔ عالم آراءنے اسپتال میں ہی ٹھکانہ بنا لیا تھا۔ ہر وقت خدمت اور عبادت میں لگی رہتی تھیں ۔تینوں بیٹے باری باری آتے اور رات گئے تک ان کے پاس بیٹھ کر ان کا دل بہلاتے۔ بیٹیاں بھی مسلسل چکر لگاتی رہتیں، گھر گھر نہ لگتا تھا۔ والدین کے بغیر بالکل سنسان اور ویران کھنڈر کا سماں پیش کرنے لگا۔ اسپتال سے واپس آکر اللہ تعالیٰ کے حضورسربسجود ہو جاتیں ”کاش”میری ذندگی کے بدلے اللہ تعالیٰ ابو کی عمر دراز کر دیں !!“۔ کشمالہ نے بڑی رقت سے دعا کی ۔غزالہ نے تسبیح ہاتھ سے رکھ دی ”اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے کرم کو محدود مت کرو ، وہ مالک ہر شے پر قادر ہے تمھاری ذندگی لے کر ہی ابو کو ذندگی دے گا۔ نہیں جانو!!اس کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں وہ بیک وقت دنیا کے تمام انسانوں کی دعا قبول کر سکتا ہے اور کسی کی جان لئے بغیر دوسرے کوزندگی دے سکتا ہے۔ وہ تو مردوں کو زندہ کر سکتا ہے ۔ ایسے مُردوں کو جن کا نام و نشان تک مٹ چُکا ہے، تم اس کی طاقت اور قدرت کو کیسے بھول سکتی ہو؟؟ “اس نے بہت پیار سے بہن کو سمجھایا۔
”تم دیکھنا ابو اس طرح صحت مند ہو جائیں گے کہ ہم ان کی بیماری کو بھول جائیں گے“۔” ان شا ءاللہ، کبھی یاد نہیں آئے گا کہ ابو بیمار بھی تھے “۔راحیلہ نے اندر آتے ہوئے کہا۔ وہ اپنے سُسرال سے آئی تھی۔یوسف صاحب کی بیماری کی اطلاع پاتے ہی اس کے شوہر نے فوری طور پر اسے دونوں بچوں کے ساتھ اسلام آباد سے روانہ کر دیا تھا۔ وہ ایک فراخدل اور نیک فطرت انسان تھا۔ اسے معلوم تھا کہ راحیلہ کو اس وقت اس کے گھر والوں کے ساتھ ہونا چاہیئے۔ سو اس نے اپنے آرام کی پروا کئے بغیر بیوی کو اس کے میکے بھجوا دیا تھا۔
”سوپ تیار ہو گیا؟“ شارق نے اپنے کمرے سے آواز دی وہ صارف کے ساتھ اسپتال جانے کے لئے تیار تھا۔ مصارف کے آفس سے آتے ہی دونوں ابو کے لئے جوس اور سوپ لے کر روانہ ہو جاتے۔ صارف ابھی آفس سے آیا تھا اور فریش ہونے کے لئے واش روم میں تھا۔
وہ جیسے ہی نہا کر نکلا شارق نے فوراًابو کے کھانے پینے کے لئے چیزیں لینے کیلئے کچن کا رُخ کیا۔ انیلہ اور رومیلہ نے ٹفن میں پیک کیا ہوا سوپ اور جوس کافلاسک اس کے حوالے کیا ۔ ”بھائی جان!! راستے سے تھوڑے سے پھل بھی لے لیجئے گا، گھر میں ختم ہو گئے ، ابو کوانگور اچھے لگتے ہیں اگر مل جائیں تو اچھا ہے “۔غزالہ نے صارف کو مخاطب کیا وہ بالوں کو ہاتھ سے سنوار رہا تھا۔بہت نکھرا اور خوبصورت نظر آ رہا تھا۔ وہ ایسا ہی تھا وجیہہ اور پُر وقار مودب اور حساس۔ سب کا احساس کرنے والا اور ٹوٹ کر پیار کرنے والا۔ راحیلہ نے بڑے پیار سے بھائی کی سمت دیکھا اور دل ہی دل میں اس کی نظر اُتاری۔
”ہاں! بالکل، فروٹ تو ویسے بھی مجھے لینے ہیں۔ میں امی کو گھر بھیج دونگا تاکہ وہ رات کو آرام کر سکیں۔ تم لوگ ان کے سامنے تسلی رکھنا اور ان کو بھی حوصلہ دینا تا کہ وہ آرام سے سو جائیں۔ ٹھیک ہے؟؟“۔ وہ بہنوں کو سمجھا رہا تھا ”جی بھائی جان!! آپ بے فکر رہیں ان شاءاللہ امی کو بالکل پریشان نہیں ہونے دینگے۔ راحیلہ نے اسے اطمینان دلایا ”یہ بتایئے آج ابو کی فائنل رپورٹس آجائیں گی کیا؟؟صبح ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے جب ہم لوگوں نے پوچھا تھا کہ رپورٹس شام تک آئیں گی“۔ اس نے دریافت کیا۔ ”ہاں !! شام تک صورتحال واضح ہو جائے گی،پھر علاج شروع کیا جائے گا۔ اللہ کرے سب ٹھیک ہو جائے“۔ وہ فکرمند تو تھا مگر بہنوں کو پریشان نہیں کر نا چاہتا تھا۔
”اچھا پھر!! اوکے اللہ حافظ،تم لوگ احتیاط سے رہنا، مشرف بھی اپنے اسپتال سے آکر ابو کے پاس آجائے گا ۔ میں امی کو شارق کے ساتھ واپس بھیج دونگا، سب کو معلوم ہے کہ گھر میں مرد موجود نہیں ہوتے اس لئے جتنا ہو سکے احتیاط کرنا، خصوصاًدروازہ کھولتے وقت اطمینان کر لینا“۔وہ بڑی شفقت سے بہنوں کو سمجھا رہا تھا۔
”جی بھائی جان!!بہنوں نے اطمینان دلایا۔ وہ شارق کے ساتھ باہر نکل گیا۔
XXXXXXXXXXXXXXX
یہ سب سے مہنگا اور ہائی کلاس بوتیک تھا شہر کا ۔ جہاں اس نے قدم رکھا وہ شاپنگ کرتے وقت کسی چیز کی قیمت نہیں دیکھتی تھی۔اسے صرف اپنے اسینڈرڈ کی پروا تھی جو دیکھنے والوں کی نظروں میں بہت ہائی تھا ۔ انا کی تسکین کے لئے اسے اپنا کوئی حربہ نا جائز نہیں لگتا تھا۔
معاشرے میں اس کا ایک مقام بن چکا تھا۔ وہ اپنے سرکل میں بہت سوں کے لئے رشک و حسد کا مرکز تھی۔ اس کے ڈریسز، جیولری اور شوز اسٹیٹس سمبل تھے۔ خواتین اس کی تعریف کرتے نہ تھکتی تھیں۔ وہ مکمل طور پر اپنی ما ں کی ہدایات پر عمل پیرا تھی۔ اس کی ماں نے اپنی دونوں بیٹیوں کو یہی تربیت دی تھی۔ خصوصاً منزہ کی شادی کے وقت تو اسے قریب بٹھا کر اچھی طرح سمجھایا تھا۔
”دیکھ منزہ! تو دلشاد کی ماں بہنوں کی نظر میں اچھی نہیں ہے، اس نے سب کی مخالفت مول لے کر تجھ سے شادی کی ہے، اب زرا سنبھل کر رہنا اور جاتے ہی گھر والو ں کے دل مُٹھی میں کر لینا جیسے ہی موقع ملے۔۔۔ّ“۔
”واہ!! میں ان لوگوں کا دل مُٹھی میں لینے کے لئے کیوں اپنی جان کھپاﺅں؟؟ یہ اچھی رہی کہ میں بُری بھی کہلاﺅں اور خدمت بھی کروں؟َ؟“۔منزہ نے غُصے سے آگ بگولہ ہو کر ماں کی بات کاٹی۔ ”کیا اول فول بَک رہی ہے پاگل !!!“، ماں نے غُصے سے اُسے ڈانٹا۔”میں نے تجھ سے کب کہا ہے کہ تو دلشاد کی اماں بہنا کی خدمت کرنا۔تیری یہی عادت تو مجھے زہر لگتی ہے کہ پوری بات سُنے بغیر شروع ہو جاتی ہے“۔
”تو پھر کس کادل مُٹھی میں کروں ؟؟منزہ نے روٹھے ہوئے انداز میں ناک سُکیڑی ، ”وہی تو میں بتا رہی تھی کہ جاتے ہی دلشاد کے بڑے بھائی فرجاد کو قابو میں کر لیجووہ ویسے بھی تجھے بہت پسند کرتا ہے“۔ ”تم کو کیسے معلوم کہ وہ مجھے پسند کرتا ہے“۔ منزہ کے لئے یہ انکشاف بڑا مسرت انگیز تھا۔ ”ارے!! بےوقوف میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کئے۔ اس کی تجھ میں دلچسپی میں پہلے دِن اس سے ملتے ہی بھانپ گئی تھی۔ بس اس سے بنا کر رکھیو۔ تو نے نوٹ کیا ؟؟ کہ گھر میں فرجاد کا ہی حکم چلتا ہے۔ اماں بہنا تو ایک طرف ۔۔اس کا تو باپ بھی اس سے بات کر تے وقت احتیاط کرتا ہے۔ پورا گھر سنبھل کر فرجاد سے بات کرتے ہیںاس لئے اگر تونے فرجاد کو اپنا حامی بنا لیا تو سب کچھ تیری مُٹھی میں آجائے گا۔۔۔۔۔ سمجھیں میرئی لاڈو!!!اور اس کے گھر کی عورتوں کا کیا بنے گا؟؟“ِ ِ منزہ نے بڑی دلچسپی سے پوچھا۔
”بھاڑ میں جائیں وہ ساری پاگل عورتیں، تو کچھ بھی کرے وہ تجھ سے کبھی خوش نہیں ہو نگی، مرنے دے ان کو ، کرتی رہیں چیں چیں۔۔۔۔“ منزہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭