Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منزہ کے چہرے پر فاتحانہ تبسم تھا،فرجاد گھر کا سار ا راز کھول رہا تھا

’’تنگ آگئے ہو تو اس بالشت بھر کی چڑیل کو لے کر چلے کیوں نہیں جاتے، نویرہ آپا نے بہت دیر بعد لب کُشائی کی اور منزہ کی کوتاہ قامی پر طنز کیا، باپ مارنے دوڑے تو ماں اور بہن روتی ہوئی فرجاد کے سامنے آگئیں
زاہدہ قمر۔ جدہ
(قسط14)
ماہ رُخ کے سُسرال والو ں کو بھی یہی بتایا گیا تھا کہ نویرہ ایک وفاپرست اور خدمت گُزار بیوہ ہے۔ اس نے بڑی محنت اور جانفشانی سے صبرو رضا کے سانچے میں ڈھال کر اپنی بچیوں کی پرورش کی ہے اور یہ کہ اس کی بچیاں فرمانبردار معصوم اور ماہرو وفاکا پیکر ہیں۔ ناصر کی ماں ان سے رشتہ جوڑ کر خوش تھی مگر اس منزہ نے گھر میں آکر سارا معاملہ گڑ بڑ کر دیا تھا۔ نویرہ کو رہ رہ کر منزہ پر غُصہ آ رہا تھا جس کی خاطر دلشاد نے سارے راز اُگل دیئے تھے۔’’اگر یہ بات ناصر کی ماں کو پتہ چل جائے کہ میں طلاق یافتہ ہوں اور ماہ رُخ کا چکر اپنے کلاس فیلو سے چل رہا تھا تو وہ یہ رشتہ توڑنے میںایک لمحے کی تاخیر نہیں کریں گی‘‘۔نویرہ نے سوچا اور ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے دلشاد اور منزہ کے بگڑے تیوروں پر نظر ڈالی۔ پھر اس کی سوالیہ نظریں ماں کی طرف اُٹھ گئیں۔ وہ بیٹی کی نظروں کا مفہوم فوری طور پر پا گئیں۔ 
’’کیا بات ہے دلشاد!! منہ کیوں بنا ہوا ہے تم دونوں کا ؟؟‘‘ وہ اس کے غُصے کا اندازہ لگانا چاہتی تھیں  اور اپنے شوہر افتخار صاحب سے ان دونوں کی طبیعت ’’صاف‘‘ کروانے کی خواہشمند تھیں۔ وہ ابھی ابھی آ کر بیٹھے تھے ۔ بیوی کی بات پر سوالیہ نظروں سے دونوں کی جانب دیکھنے لگے۔ انہیں رات کے واقعہ کا علم نہ تھا کیونکہ ان کے آنے پر دلشاد اپنے کمرے میں چلا گیا تھا اور نویرہ اور خورشید بیگم بھی خاموش ہو گئی تھیں۔ گھر کا ماحول کشیدہ  دیکھ کر وہ تذبذب میں مبتلا ہو گئے تھے۔ 
’’کیا ہوا خورشید بیگم !! وہ بیوی سے مخاطب ہوئے۔’’ہونا کیا ہے ابو!!!‘‘۔فرجاد کی آواز سُن کر سب ہی چونک گئے، وہ ابھی ڈائننگ روم میں داخل ہوا تھا۔ ’’امی ! نے منزہ کی بہت بے عزتی کی ہے۔ انہوں نے اُسے شروع دِن سے بہو تسلیم ہی نہیں کیا، اسی لئے ہر وقت اس کے پیچھے پڑی رہتی ہیں‘‘۔ وہ بہت غُصے سے بول رہا تھا۔ فرجاد کا یہ انداز اسقدر چونکا دینے والا تھا کہ خورشید بیگم اور نویرہ ہی نہیں افتخار صاحب بھی بھونچکا ہو کر اسے دیکھنے لگے۔ حیرت کی شدت سے تھوڑی دیر تک تو کوئی کچھ نہ بول سکا۔ یہاں تک کہ دلشاد تک حیرت آمیز خوشی سے فرجاد کو دیکھ رہا تھا۔ صرف منز ہ پُرسکون اور مطمئن تھی۔ اس کے لبوں پر فاتحانہ تبسم لہرایا جسے اس نے منہ نیچے کر کے فوری طور پر چھپا لیا۔ وہ اپنے مقصد میں کا میاب ہو چکی تھی۔ اپنی ماں کی تربیت پر مکمل طور پر عمل کر کے اس گھر کے دو افراد کو اپنا اسیر کرچکی تھی۔ کامیابی کا تصور اس قدر خوش کُن تھا کہ اس کا دل جھومنے لگا ’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟؟ اس کل کی آئی ہوئی چھوکری کی خاطر اپنی ماں کو اتنی سخت بات کہہ رہے ہو، ایسا کیا کر دیا انہوں نے جو تم بالکل سارے ادب آداب بُھلا بیٹھے ؟‘‘۔آخر افتخار صاحب نے خود پر قابو پاکر فرجاد کو لتاڑا۔ 
’’میں نے کچھ نہیں کیا، صرف منزہ کی لاپرواہی پر اسے تھوڑا سا بُرا بھلا کہا ۔آخر اسے گھر داری کا خیال کرنا چاہیئے جب سے اس گھر میں آئی ہے بالکل غیروں والے طور طریقے ہیںِ ، ہر وقت آئو ٹنگ ، شاپنگ اور ہوٹلنگ ، سارا سارا  دن غائب رہتی ہے، کبھی خود کسی رشتے دار کے گھر چلی جاتی ہے ، کبھی اس کے گھر والے آ جاتے ہیں،شام کو دلشاد کے ساتھ باہر نکل جاتی ہے، گھر اور گھر داری کا ذرا خیال نہیں۔ اب بھی کچن میں سنبھال رہی ہوں یا پھر نویرہ آجاتی ہے تو یہ بے چاری میری مدد کر دیتی ہے۔ آخر ایسا کب تک چلے گا، کل ڈانٹ دیا تو دلشاد نے مجھے کھری کھری سُنا ئیں اور اب یہ فرجاد اس کاحمایتی بن رہا ہے‘‘ ۔ خورشید بیگم نے شوہر کی حمایت پا کر خوب منزہ کی بُرائیا ں گنوانا شروع کر دیں۔
’’امی بس کر یں !! غلط بات مت کریں آپ نے منزہ کو گھر داری پر نہیں ٹوکا تھا بلکہ اس کی کردارکشی کی تھی ‘‘، فرجاد تو آج اور ہی رنگ میں تھا۔
’’مجھے دلشاد نے سب کچھ بتا دیا رات کو ، آپ کو دوسرے کی اولاد کا زرا بھی درد نہیں۔ آپ کے آگے بھی بیٹیاں ہیں کب تک آپ اس کی لو میرج کو نشانہ بنائیں گی۔ کیوں کسی مظلوم کی ہائے لے رہی ہیں‘‘۔ ’’۔۔۔۔۔خاموش!! بکواس بند کرو‘‘، افتخار صاحب دھاڑے‘‘ یہ ساس بہو کا معاملہ ہے تم بیچ میں بولنے والے کون ہوتے ہو؟؟ اپنے والدین کے سامنے اس نیچ بدکردار عورت کی حمایت کر رہے ہو۔ اس لئے ہم اس شادی کے مخالف تھے کہ ایسی عورتیں گھر میں اسی طرح فساد کرواتی ہیں اور ۔۔۔۔‘‘۔ ’’فساد منزہ نے نہیں کروایا، امی اور نویرہ آپا نے کروایا ہے، ان سے اپنے بیٹے کی خوشی برداشت نہیں ہو رہی۔ کل کو میری بیوی کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو گا۔۔۔۔۔‘‘۔ فرجاد نے باپ کی بات کاٹ دی۔
’’ارے بے حیا دلشاد، تو کیوں خاموش بیٹھا ہے کیا پٹی پڑھائی ہے بھائی کو کہ وہ تیری بیوی کی خاطر باپ سے لڑ رہا ہے؟؟‘‘ خورشید بیگم نے دلشاد کو غیرت دلائی۔ ’’فرجاد بالکل صحیح کہہ رہا ہے، آپ لوگوں نے منزہ کو اس گھر میں بہو کا  مقام ہی نہیں دیا ۔ کوئی اس بے چاری کی عزت نہیں کرتا ۔ بات بات پر طعنے اور طنز آپ لوگوں کی عادت ہے۔ میں تو اس گھر سے تنگ آ گیا ہوں‘‘۔ دلشاد نے غضب ناک ہو کر جواب دیا۔
’’تنگ آگئے ہو تو اس بالشت بھر کی چڑیل کو لے کر چلے کیوں نہیں جاتے۔نویرہ آپا نے بہت دیر بعد لب کُشائی کی اور منزہ کی کوتاہ قامی پر طنز کیا۔ ’’مگر بھیا!!! اپنی بیوی پر نظر رکھنا اسے اِدھر اُدھر منہ مارنے کی عادت ہے، کہیں نئے گھر میں تمھیں رسوانہ کر وادے‘‘ وہ زہریلی ہنسی ہنسیں تو جیسے فرجاد کو آ گ لگ گئی ۔ 
’’آپا !! آپ کی ان ہی باتوں کی وجہ سے آپ کا گھر نہ بس سکا، اور جس بات کو آپ منزہ کے لئے طعنہ بنا رہی ہیں زرا بتائیں تو کیا ابو اور امی کی شادی لو میرج نہیں کیا۔ فریدہ باجی اور متین بھائی کی شادی لو میرج نہیں تھی۔  آپ لوگ خود جو کریں وہ جائز اور دوسرا کرے تو نا جائز، یہ کہاں کاانصاف ہے یہ تو۔۔۔‘‘۔
’’بے حیا، نا فرمان، بدکردار لڑکے!!!! افتخار صاحب غُصے سے حواس کھو بیٹھے ان کا بیٹا اپنی بھابی کی خاطر والدین اور بہنوں کے راز کھول رہا تھا، وہ شدید صدمے کی کیفیت سے دوچار تھے۔ حیرت اور غُصے نے جیسے ان کی گویائی سلب کر لی تھی ۔ خود دلشاد بھی اتنی بڑی بات پر حیران تھا۔ وہ منزہ کی حمایت خود کرتا تھا اور اس نے رات کو ٹیرس پر بیٹھ کر فرجاد کو ماں بہن کی کاروائی بھی بتائی تھی مگر یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ فرجاد اس طرح گھر کے راز کھولے گا۔دونوں  کے کمرے برابر برابر تھے اوپر کی منزل پر گھر بنوا تے وقت افتخار صاحب نے دہ کمرے اور خوبصورت سا ٹیرس بنوادیا تھا تاکہ دونوں بھائی ٹیرس پر کوئی بھی گیم کھیل سکیں اور گھر سے باہر کم نکلیں۔ اب بھی وہی صورت حال تھی۔ رات کو کھانے کے بعد دونوں بھائی ٹیرس پر ٹہلتے ہوئے سارا دِن کی باتیں کرتے۔ دونوں میں بڑی دوستی تھی مگر اب ان کے ساتھ منزہ بھی شامل ہوتی جس نے اپنی ادائوں اور دلفریب باتوںسے فرجاد کو غیر محسوس طریقے سے اپنا اسیر کر لیا تھا جس کا یہ بھیا نک  نتیجہ آج سامنے آیا تھا۔ دلشاد گھر کے راز منزہ کے سامنے کھولنے کے بالکل حق میں نہیں تھا اس لئے چور بنا بیٹھا تھا۔ صورتحال بُری طرح بِگڑ گئی تھی۔ افتخار صاحب فرجاد کو مارنے کے لئے لپکے تو خورشید بیگم اور نویرہ روتی ہوئی سامنے آگئیں۔ منزہ تیزی سے اُٹھ کر اوپر اپنے پورشن کی جانب چلدی۔ دلشاد باپ کو سنبھالنے لگا اور فرجاد کڑے تیوروں سے باپ کو گھورتے ہوئے پیر پٹختا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔وہ اپنے کسی فعل پر شرمسار نہ تھا۔ آج کے جھگڑے نے منزہ کی اس گھر میں اہمیت اور اس کی طاقت کا بخوبی احساس دلا دیا تھا۔ اس کے قدم جڑ پکڑ چکے تھے۔
( باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭  

شیئر: