Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد

***جاوید اقبال***
1975ء کے  موسم بہار کی ایک معطر اور خوشرنگ صبح تھی۔ اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر وزیراعظم کیلئے زیر تعمیر رہائش گاہ  پر مزدور کام کررہے تھے۔ ناگاہ شور اٹھا کہ ایک انتہائی اہم شخصیت عمارت پر ہونے والے کام کا معائنہ کرنے آرہی ہے۔ مزدوروں نے ہاتھ روک لئے۔ انہیں ہانک کر زیر تعمیر دیواروں سے دور کردیا گیا۔ لمحوں میں حفاظتی پولیس کا چاک وچوبند دستہ  آن پہنچا اور گاڑیوں سے چھلانگیں لگا کر ادھر ادھر مامور ہوگیا۔ زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ چمچاتی گاڑیو ںکا ایک قافلہ ہاتھی دانت کی گیند کی طرح شاہراہ پر سے رواں اس عمارت کے سامنے آکر رکا۔درمیان میں ایک جھنڈے والی گاڑی تھی اس کا باوردی ڈرائیور بجلی کی سرعت سے چھلانگ لگا کر باہر نکلا اور پھر اس نے عقب کا دروازہ کھول دیا۔ انتہائی دیدہ زیب سوٹ میں ملبوس ذوالفقار علی بھٹو باہر نکلے۔ ڈرائیور نے بھاگ کر دوسرا عقبی دروازہ کھولا اور خوشرنگ ساڑھی زیب تن کئے نصرت بھٹو اتریں۔ پھر وزیراعظم اور انکے اہلیہ چلتے  ہوئے سامنے نصب ایک بڑے بورڈ کے سامنے پہنچے۔ اس پر زیر تعمیر وزیراعظم ہائوس کامکمل نقشہ تھا۔ انجینیئر نے انتہائی مودب انداز میں ڈرائنگ کی تفصیلات سمجھانا شروع کردیں۔ وزیراعظم انہماک سے دیکھتے رہے ۔ یکایک انہوں نے اپنے ہاتھ میں تھامی چھوٹی چھڑی سے نقشے کے ایک مقام کی طرف اشارہ  کیا اور اپنی بیگم کو متوجہ کرتے ہوئے بولے ’’ھنی! یہ ہماری خوابگاہ ہوگی‘‘اور پھر بڑے طمطراق سے مسکرادیئے۔ بیگم بھٹو کے چہرے پر مستقبل کے خواب تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انجینیئر کو تعمیر کے بارے میں چند ہدایات دیں اور پھر قافلہ راولپنڈی کی طرف رواں ہوگیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم کی وسیع، عالیشان اور نظر نواز رہائش کی تعمیر جاری  رہی۔ اس دوران کا تب تقدیر نے بھی اپنا فیصلہ تحریر کردیا۔ 4 اپریل  1979ء کی صبح شاہراہ دستور کی اسی زیر تعمیر ساختمان کے سائے میں اخبارات کے ضمیمے برائے فروخت رکھے تھے۔ ’’ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا‘‘۔ سکوت! ....سکوت! اللہ باقی!.....  ’’ھنی! یہ ہماری خوابگاہ ہوگی!!‘‘
بعد کے برسوں میں بھی تقدیر کے قاضی کا قلم متحرک رہا۔ یکے بعد دیگرے لائے جانے والے وزرائے اعظم کے کارواں زیر تعمیر عمار ت کے سامنے آکھڑے ہوتے رہے او رپرچم بردار کار میں سے گھورتی متلاشی نظریں خاموشی سے جاری تعمیر کا جائزہ لیتی رہیں۔ حسرت سے آسمان کو چھوتی دیواروں کو تکتی رہیں او ردعا گو رہیں کہ اقتدار کی راہداریوں  میں انکاقیام اتنا طویل ہوجائے کہ وزیراعظم ہائوس میں رہائش رکھنے کا بخت جاگ جائے پر یوں نہ ہوا۔ نصیب کھلا تو نواز شریف کا جنہوں نے 2دہائیاں پیشتر اپنی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں ا س دلفریب کاشانے کا افتتاح کیا اور پھر وہاں رہائش پذیر ہوگئے۔ ایک تحیرکن حد تک حسین و جمیل عمارت تھی۔ اس کے انتظام و انصرام پر اس کو سنبھالنے پر اربوں روپے صرف ہونے لگے۔ 136ایکڑ پر محیط اس جہان حشمت و جاہ میں وزیراعظم کا کرو فر اور سلامتی یقینی بنانے کیلئے سالانہ 98کروڑ روپے مختص کئے گئے  اس میں سحے 70کروڑ روپے صرف سیکیورٹی کے عملے کے مشاہروںکیلئے وقف ہوئے۔ وزیراعظم اور انکے خاندان کی محفوظ نقل و حرکت کیلئے 88عالیشان گاڑیوں کا ایک قافلہ خریدا گیا جو ہر دم حالت آمادگی میں  رہتا تھا۔ وزیراعظم ہائو س میں آنے والے مہمانوںکی اشتہا انگیز ضیافتیں کی جاتیں اور پھر روانگی کے وقت انہیں تحائف سے بھی نوازا  جاتا۔ صرف ان تحفوں پر سالانہ 15کروڑ روپے خرچ کئے جاتے۔ حساب سود و زیاں  کا سوال ہی  نہیں پیدا ہوتا تھا جب وزیراعظم بیرونی دوروں پر جاتے تو انکے میزبان حکمران روانگی کے وقت انہیں گراں بہا تحائف دیتے۔ اصولاً بیرونی ممالک سے ملی یہ اشیاء حکومتی توشہ خانہ میں جانی چاہئیے تھیں لیکن واپسی پر انہیں توشہ خانہ بھجواتے تو ضرور لیکن پھر فوراًـ ہی واپس وزیراعظم کے پاس پہنچ جاتیں جواز راہ تلطف بڑی واجبی سی  قیمت ادا کرکے انہیں رکھ لیتے۔ پاکستان سے شوکت عزیز کی لندن کیلئے آخری خصوصی پرواز میں کروڑوں مالیت کی وہ اشیاء بھری تھیں جو انہیں بطور  وزیراعظم پاکستان دوسرے ممالک کے سربراہان نے تحفتاً دی تھیں اور جو حکومت پاکستان کی ملکیت تھیں۔ وزیراعظم ہائوس کا سالانہ بجٹ ایک ارب 85کروڑ روپوں کی حد چھوتا ہے ۔ قابل ذکر اس کا وہ دستر خوان ہے جس پر ہر کھانا یکتا ئے روزگار ہوتا ہے۔ مشرق ، مغرب ، شمال ، جنوب جہاں کا طعام  وزیراعظم کو ان کے دورے کے دوران پسند آجائے  تو سفرۂ رئیس کی طوالت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
نواز شریف کی دریا دلی اور وسیع الظرفی کا بہت چرچا رہا ہے۔ ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران ’’شاہی‘‘ مطبخ سے پرواز کرنے والی مہک اچھے اچھے خوش خوراکوں کا دماغ گھما دیتی تھی۔ پھر ہمارے بعض وزرائے اعظم کی افتاد طبع بھی صفحات تاریخ کو رنگین بناگئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو امریکہ کے دورے پر گئے۔ ہنری کسنجر کو عشائیے کی دعوت دی۔ ایک مسئلہ تھا۔ اس انتہائی اہم امریکی اہلکار کو کیا پیش کیا جائے کہ  اس کے کام و دہن پر سدا بہار لذت بن کر بسا رہے۔ بسیار ردوکد ح کے بعد فیصلہ ہوا کہ بھونے کالے تیتر دسترخوان پر رکھے جائیں۔ اسلام آباد میں وزیراعظم ہائوس اور وزارت خارجہ میں  طوفان آگیا۔ سندھ سے کالے تیتر گرفتار کئے گئے۔ کراچی سے دو ماہر باورچی اور پرندے وزیراعظم کے خصوصی جہاز میں واشنگٹن پہنچائے گئے۔ باورچی کام میں جت گئے۔ عشائیے پر درجنوں کھانے تھے۔ تیتر درمیان میں رکھے گئے۔ کسنجر مختصر وقت کیلئے آئے  بہت مصروف تھے۔ بھٹو  نے کھانے کے دوران دو، تین بار تیتروں کی قاب کسنجر کے آگے سرکائی لیکن امریکی وزیر خارجہ نے  توجہ نہ دی۔ کسی اور قاب سے ایک دو لقمے لئے اور پھر کہیں اور ہونے والی اپنی اگلی ملاقات کیلئے روانہ ہوگئے۔ 
تھر کے صحرائوں سے پکڑے گئے کالے تیتر، خصوصی طیارے کی پرواز، لاکھوں صرف ہوگئے۔ شرف قبولیت پھر بھی عطا نہ ہوا۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!!
اک جہاں نو کی خبر ہے۔ وزیراعظم کی اس شاہانہ قیام گاہ میں کوئی نہیں آئیگا ۔  اسے ایک تحقیقی دانش گاہ میں تبدیل کردیا جائیگا۔ اس قصر تمکنت کی گاڑیاں نیلام کردی جائیں گی۔ 550 کے قریب ملاز موں کو کہیں اور منتقل کردیا جائیگا اور یوں 2ارب کے قریب پس انداز شدہ رقم عام انسان کو سانس کی آسانیاں فراہم کرنے پر بسر ہوگی۔ انتہائی قابل ستائش فیصلہ ہے جبکہ ناکافی خوراک اور شدت گرسنگی سے بچوں کے بدن اور دماغ بلوغت تک نہیں پہنچ پارہے جبکہ ٹھکانوں سے محروم نسلیں نارسائی اور ناداری کے سبب غبار راہ بنی گریہ کرنے کی سکت بھی نہیں پارہی ہیں تو حکمرانوں کے شاہانہ مسکن کیوں اپنا جواز رکھیں؟ حد ہوگئی!! اب تو کوئی ہو جو ریاست مدینہ کے عمر ابن الخطابؓ  کی  طرح اپنی چادر کا حساب دے اور جس سے تھرکے ریگزاروں میں بھوک سے مرتے بچوں  کے لئے جواب طلب کیا جائے۔ اسلام آباد ، مدینہ منورہ نہ بن سکے تو اسلام آباد کو ہی آباد کرلے۔
 

شیئر: