Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساحل کو چھو کر:رضا تمسخراڑانے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتا تھا

امی کے آنسو ثانیہ کو کمزور کررہے تھے،ناز بھی بہن کے دکھ کو سمجھ رہی تھی،کالج میں رضا کے جملے ثانیہ کو مزید ذلت محسوس کرارہے تھے ، پرنسپل صاحب  رضا کو شادی کی مبارکباد دے رہے تھے
(قسط18)
ناہید طاہر۔ ریاض
ہلکی سی دستک سنائی دی۔ثانیہ  نے جلدی سے اپنی آنکھوں کی نمی صاف کی اور رضا نے بے چینی سے پہلو بدلا ،احمد ہاتھوں میں  جوس سے بھرے پیالے ٹرے میں سجائے کمرے میں داخل ہوا۔
رضا نے خاموشی سے گلاس  اْٹھایا اور کوک ایک ہی سانس میں  پی گیا۔ثانیہ پہلو بدل کر رضا کو دیکھنے لگی۔احمد کمرے سے جاچکا تھا۔
اگلے چند لمحے  پثرمردگی کی نذر ہوئے۔پھر وہ چلا گیا۔
توچلاگیامیرے ہمسفرذرادیکھ مڑکے توایک نظر
میری کشتیاں ہیں جلی ہوئیں تیرے ساحلوں سے ذرا پرے "
رات کی سیاہی گہری ہوتی گئی۔۔۔ثانیہ کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔وہ کروٹیں بدلتی رہی لیکن نیند بھی اس کی تقدیر کی طرح اْس سے روٹھ چکی تھی۔آج رضا کے سخت رویے نے اسے اذیت کے سمندر میں جھونک دیا تھا۔وہ ساری رات  سوچ وفکر کی کشتی میں سوار ساحل کی تلاش میں سرگرداں  رہی۔۔۔رات تاریکی کی چادر اڑھے قہقہہ لگاتی رہی اور وہ طوفان میں الجھی کنارہ تلاش کرتی گئی۔۔۔۔آخروہ ساحل کو چھونے کی آرزو میں  ناکامیوں کا منہ تکتی رہ گئی   تھک کر بڑی بے بسی سے  لمبی لمبی سانسیں لینے لگی افسوس ساحل نہ ملا۔!!!!
  ناز نے امی کے سامنے اپنے سلے ہوئے ہونٹوں   سے خاموشی کی مہر ہٹا دی تھی۔اسی کا نتیجہ تھا امی کی آنکھیں کرب و اذیت میں ڈوبی سرخ انگاروں کی مانند سلگتی محسوس ہورہی تھیں۔شاید وہ بھی پوری رات روتی رہی  تھیں۔امی کی آنکھوں میں آنسو۔۔ !!!یہ بات ثانیہ کبھی برداشت نہیں کرسکتی تھی اور آج رضا ان آنسوؤں کا سبب بنے تھے۔رضا آپ کی نفرتیں اپنی ساری حدود تجاوز کرنے لگی ہیں۔وہ تڑپ کر سوچنے لگی، زخم گہرے تھے جوثانیہ کی آنکھوں سے نیند کو چْرالے گئے، کسی پل قرار نہیں آرہا تھا۔
"رضا آپ نے یہ ٹھیک نہیں کیا۔۔۔۔" اس نے بڑبڑاتی ہوئی آنسوؤں سے تر تکیے کو سختی سے بھینچ لیا پھر کوئی حتمی فیصلہ کرتی ہوئی وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی،ہاتھ بڑھا کر بتی جلائی اور سائیڈ ٹیبل سے کاغذ قلم اْٹھا کر استعفیٰ تحریر کیا۔ ایک فیصلہ تو مکمل ہوچکا تھا ایک اور فیصلہ ابھی باقی تھا۔تب ہی موذن کی آواز سنائی دی جو دل و دماغ کو سکون بخشنے لگی۔ وہ بستر سے اٹھی اوروضو  کرکے خشوع و خضوع  سے نماز ادا کیا ، سجدے میں گر کر بہت دیر تک ربِ کعبہ سے دعائے خیر مانگنے لگی۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کے بعد آج کالج کا پہلا دن تھا رات بھر جاگنے سے سر بہت بھاری محسوس ہو رہا تھا خوبصورت آنکھیں   سرخ انگاروں کی مانند دہکتی نظر آرہی تھیں چہرے پر بے پناہ سنجیدگی چھائی تھی ۔ناز نے ثانیہ کے بدلے تیوردیکھ کر ایک جھرجھری سی لی۔
ثانیہ نے محسوس کیا امی اس سے آنکھیں نہیں ملا پارہی ہیں ،شاید انھیں ثانیہ کی زندگی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا غم کھائے جارہاتھا۔۔۔۔یا پھراحساس جرم پر وہ پشیماں تھیں۔جبکہ ان کا کوئی قصور نہیں تھا قصور تو اس کی تقدیر کا تھا، استغفراللہ یہ کفریہ الفاظ ہیں۔۔۔۔۔!وہ سر کو جھٹک کر ناشتہ کرنے لگی۔امی مسلسل نظریں چرارہی تھیں۔
امی۔۔۔۔!آپ کافی پریشان دکھائی دے رہی ہیں۔۔۔۔؟ خیریت تو ہے نا؟
ثانیہ نے کچھ سوچ کر امی سے سوال کیا تاکہ امی اپنے دل میں چھپے ندامت کے غبار کو باہر نکال سکیں اوران کے دل میں ٹھاٹھیں مارتا طوفان تھم سکے۔
ثانیہ۔۔۔۔۔ہم بہت شرمندہ ہیں!!!  وہ بھرائی آواز میں گویا ہوئیں ۔
کس بات پر امی۔۔۔؟
ایک غلط فیصلے نے تمہاری زندگی برباد کردی۔اتنا کہہ کر وہ آواز سے رونے لگیں۔
امی آپ اپنے آنسوؤں کو یوں ضائع نہ کریں۔۔۔۔! آپ کو علم ہے میں آپ کے آنکھوں میں آنسو برداشت نہیں کرسکتی۔۔۔۔کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا گیا۔۔۔سب تقدیر کے کھیل ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں وقتی پریشانی ہے جس کا وقت کے ساتھ خاتمہ بھی طے ہے۔ یہ میں نہیں کہتی، اللہ تعالی کا فرمان ہے۔۔
احمدی بیگم  نے بے اختیار بیٹی کو گلے لگالیا اور رونے لگیں۔
امی۔۔۔۔! رضا ایک اچھے انسان ہیں۔بس ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے میںکچھ وقت درکار ہے۔ آپ دعا کیجئے ان شاء اللہ سب ٹھیک ہوجائیگا۔۔۔۔۔ لاکھ ضبط کے باوجودثانیہ کا گلا بھراگیا۔
احمدی بیگم نے اپنی نم آنکھوں سے ثانیہ کو دیکھا اور اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرنے لگیں۔
امی۔۔! آپ کی دعائیں ساتھ رہیں۔۔۔۔۔ان شاء اللہ زیست کا سفر آسان ہوجائیگا۔
اب آپ تھوڑا سا مسکرادیں۔آپ کی مسکراہٹ میری طاقت ہے اور آپ کے آنسو میری کمزوری۔!!!ثانیہ مسکراتی ہوئی امی کے آنسو خشک کرنے لگی۔
اللہ تعالی تمھیں ہمیشہ خوش وآباد رکھے آمین۔۔۔! ناز نے پیچھے سے آکر دونوں سے لپٹ کر صدقِ دل سے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ نے بوجھل قدموں تلے آفس روم میں قدم رکھا ،رضا وہاں موجود تھا اسے دیکھ کر ثانیہ کی پیشانی پر شکنیں عود آئیں۔
پرنسپل صاحب نہایت گرم جوشی کے ساتھ رضا کو شادی کی مبارکباد پیش کر رہے تھے۔
"بہت بہت مبارک ہو برخوردار ۔۔۔" 
ثانیہ پتہ نہیں کیوں نظریں چرانے لگی۔
دوسرے ساتھی بھی مبارکباد دے رہے تھے۔
اس کا وجود جیسے بے معنی ہوکر رہ گیا تھا۔اس سوچ کے ساتھ  ثانیہ کی پلکیں بھیگ گئیں۔ 
آپ نے شادی پر کیوں نہیں بلایا۔۔۔۔؟
آپ نے گاؤں جاکر شادی کیوں کی۔۔۔۔؟
ہم آپ کو یوں آسانی سے نہیں چھوڑ سکتے۔۔۔۔؟
پارٹی تو بنتی ہے۔۔۔۔!
یار میں پاگل ہوجاؤں گا۔۔۔۔۔!رضا کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر زورسے ہنسا۔ندا  نے  ،ثانیہ کی کلائی مضبوطی سے تھام رکھی تھی اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ خود بھی اشتیاق آمیز لہجے میں سوال کیے جارہی تھی۔۔ 
"یہ بتائیں مسز رضا کیسی ہیں ؟ "
’ 1947کا کوئی عجوبہ۔۔۔‘‘ اس نے  بھر پور تمسخر سے جواب دیتے ہوئے  ایک نگاہ غلط ثانیہ پر ڈالی۔
ثانیہ نے سوچ رکھا تھا کہ رضا تمام اسٹاف سے اس کا  تعارف کروائیں گے۔ لیکن نہیں اْس ظالم ،سنگ دل نے اْسے یکسر نظر انداز کر رکھا تھا۔ثانیہ کا خیال تھا کہ رضا کتنے ہی برے سہی لیکن رشتوں کے تقدس کو یوں پامال نہیں کرسکتے۔
اس قدر ذلت، بے عزتی اور کیا ہوسکتی ہے بھلا !وہ اندر ہی اندر طائربسمل کی طرح تڑپ اٹھی۔
’ لگتا ہے کسی خوبصورت لڑکی کی آہ کا نتیجہ ہے۔۔۔ !!!۔
جن سے آپ نے وعدہ خلافی کی ہوگی ،جو اتنا پرانا ماڈل ملا۔ندا چہکی۔۔
اس میں کوئی شک نہیں۔ثانیہ نے  جیسے تیل ڈالنے کی کوشش کی۔ اس نے  تیز نگاہ سے  ثانیہ کودیکھا پھر بڑی لاپروائی سے سر کھجاتا ہوا گویا ہوا
ان شاء اللہ ایک اور ’دعا ‘بن کر ہماری زندگی میں آئے گی ضرور۔۔۔۔۔۔رضا کا اشارہ کالج کی سب سے حسین لڑکی کی جا نب تھاجس کا نام دعا تھا سب ہنس پڑے۔ثانیہ منھ بنا کر رہ گئی۔
" آپ کی شادی ہوچکی ،کچھ توشرم کیجیے۔۔۔۔" اس نے براہ راست وار کیا۔
جواب میں  اس نے  ایک لااْبالی قہقہہ بلند کیا،ثانیہ نے جھنجھلاہٹ کے ساتھ سختی سے ہونٹ بھینچ  لیے۔ 
’ رضا صاحب مجھے آپ کی بیوی کو دیکھنے کا ارمان ہے۔۔۔۔" ندانے رضا کا محاصرہ کررکھا تھا اور سوال پر سوال کئے  جارہی تھی۔
"کوئی خاص خوبی نہیں۔۔۔۔کبھی ملاقات کر ائوں گا۔۔۔"رضا  نے بیزارگی کا مظاہرہ   کرتے ہوئے   جواب دیا۔
’ بہت حسین ہوگی؟ ‘ ندا کا اشتیاق ختم  نہیں ہورہا تھا۔
ثانیہ وہاں سے باہر  جانے لگی۔
ارے رک ناں۔۔۔۔۔ !میں بھی آرہی ہوں۔تجھ سے بھی بہت ساری باتیں باقی ہیں۔ ندا سختی سے ثانیہ کی کلائی تھام کر اپنے قریب کرتی ہوئی بولی۔
’ ہاں تو رضا صاحب۔۔۔‘ وہ دوبارہ رضا کی جانب متوجہ ہوئی’ 
ندا کیا بتاؤں۔۔۔وہ کافی سیاہ رنگت ہے۔  اس نے  اب کی منہ بنا کر کہا، ثانیہ بلبلا اْٹھی اْس کی سانولی پیاری سی رنگت پر  اس نے بے رحمی سے چوٹ کرڈالا ، ثانیہ ،رضا کو خونخوار نظروں سے دیکھنے لگی۔۔
تیزی سے گنجی ہوتی جارہی ہے۔۔۔‘ ثانیہ کی گھنی خوبصورت زلفوں کا پوسٹ مارٹم ہوچکا تھا 
ناک بھی کچھ ٹیڑھی سی ہے۔۔۔ اْسے اپنی ستواں ناک پربڑافخر تھا۔ ندا پیٹ تھام کر ہنسنے لگی۔
رضا خدا کے لئے اپنی شریک حیات کو تو بخش دیجئے۔۔۔بے چاری سنے گی توآپ سے اسی وقت علیحدگی کا مطالبہ کر بیٹھے گی۔
کوئی فرق نہیں پڑیگا۔۔۔۔۔اسلام نے تو چار کی اجازت دے رکھی ہے۔۔۔! اس نے  ڈھٹائی سے ہنستا ہوا جواب دیا توغصے سے ثانیہ کے بدن میں  آگ لگ گئی۔
’ آپ کو چار نہیں بارہ کی اجازت ہے۔۔۔۔۔۔!!! ‘ ثانیہ نے  جھلا کرترشی سے کہتی ہوئی ندا کی گرفت سے اپنی کلائی آزاد کرالی اور راہداری کی جانب بڑھ گئی۔
’ ارے اسے کیا ہوا۔۔۔؟ ‘ ندا نے حیرانی سے آنکھیں پھیلا کر کہا اورخود بھی اْس کے پیچھے ہولی۔ رضا کے ہونٹوں پر شوخ مسکراہٹ پھیل گئی۔
(باقی آئندہ )
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: