’’دیدی کہہ دیجئے کہ یہ سب جھوٹ ہے ‘‘ناز شدت دکھ سے ثانیہ کے وجود کو اندھیرے میں جھنجھوڑنے لگی،’’ناز اس بات کوتمھیں صیغۂ راز رکھنا ہوگا حتیٰ کہ ندا سے بھی نہیں کہوگی
ناہیدطاہر۔ ریاض
قسط۔ 14
گاڑی کی آواز سنکر ناز ، اْس کا بھائی احمد دوڑے چلے آئے
’ امی ابو دیکھیں کون آیا ہے…‘ ناز خوشی سے امی ابو کو اطلاع دینے لگی۔ ثانیہ دھیرے سے مسکرائی اوراْسے اپنے گلے لگایا ،احمد کو بھی خود سے قریب کرتی ہوئی بولی ’ تم دونوں بہت یاد آئے۔
اور ہم …؟ اْس کے ابو بانہیں پھیلائے پوچھ رہے تھے۔۔۔
’ ابو… ‘ وہ دوڑ کر اْن کے سینے سے آلگی اور بے اختیار روتی چلی گئی۔اذیتوں اور دکھوں کا بوجھ خود بخود ہلکا ہوتا چلاگیا اور طمانیت وسکون کا گہرا احساس سراپے کو بھیگا گیا۔
’ پگلی اس طرح روتے نہیں۔۔۔یہ تو دنیا کا دستور ہے ، لڑکی کے لئے سسرال ہی ابدی گھر ہوتا ہے۔۔۔۔!!!!
ابو ! دیدی کو اتنا بھی خوف زدہ نہ کیجئے گا۔۔۔‘‘ناز نے ثانیہ کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہو ئے کہا۔
’ ارے نامعقولوں اسے اندر تو لے آؤ…‘ دادی اماں نے اپنے تخت پر براجمان ، صدا بلند کیں۔ثانیہ سبھی کے گلے لگ کر رورہی تھی۔چند خوشی کے آنسو تھے اور چند کا کوئی جواز نہیں تھا۔۔۔!
’ ثانیہ سب ٹھیک ہے نا۔۔۔؟رضا احمدساتھ کیوں نہیں آئے؟ ‘تمہیں یہاں کون چھوڑ گیا؟ دادی اپنا چشمہ ٹھیک کرتی جہاندیدہ نظروں سے اْسکا جائزہ لیتی ہوئیں سوالات کی بوچھاڑ کررہی تھیں۔۔ ثانیہ کی پیشانی عرق آلود ہوئی۔
امی کے چہرے پرفکر کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ثانیہ نے یہ دیکھ کر خود پر قابو پانے کی کوشش کی اور مصنوعی مسکان تلے کہنے لگی۔
اْ ف ایک ساتھ اتنے سوال۔۔۔۔!!!!وہ آہستگی سے آگے بڑھی اور اپنی دادی کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہنے لگی۔
’ دادی میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔!!!سسرال میں سب بخیر ہیں۔۔وہاں سبھی بہت مخلص ہیں ،مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔۔ آپ سب سے مل کر خوشی سے میری آنکھیں جھلک آئیں۔وہ اپنی آنکھیں خشک کرتی ہوئی مسکرادی۔
’’واہ۔۔۔۔بیٹی تمہاری اس بھیگی مسکان پر قوسِ قْزح کا گمان ہورہا ہے ، جوبارش میں نکھری دھوپ نکلنے پر آسمان پر عود آتی ہے۔تم دنیا کی سب سے پیاری بیٹی ہو۔۔۔اللہ تمہیں ہمیشہ خوش و آباد رکھے ‘
آمین۔۔۔! ثانیہ کی آواز لرز گئی۔
’’ابو میں دنیا کا سب سے پیارا بیٹا۔۔۔‘‘احمد نے چہک کر کہا۔
’’اور میں۔۔۔۔؟‘‘نازنے منہ بسور کر سوال کیا۔
ان احمقوں پر تبصرہ بعد میں ہوگا پہلے تم یہ بتاؤ کہ رضااحمد کہاں ہیں؟تمہارے ساتھ کیوں نہیں آئے ؟‘‘ احمدی بیگم نے تشویش کن انداز میں پوچھا۔۔
’’ امی مجھے وہی تو ڈراپ کرگئے ہیں۔۔۔بہت جلدی میں تھے کیونکہ انھیں کالج سے کوئی ضروری فون آیا تھا۔۔۔میں دادی کے پاس رکنا چاہتی تھی اسی لئے مجھے یہاں چھوڑکر بے چارے تنہا چلے گئے۔‘ ‘وہ بہت خوبصورتی سے اپنے زخموں کی پردہ پوشی کرگئی۔
’ ’کوئی بات نہیں۔۔۔کل ہم سب ساتھ میں چلیں گے۔‘ ‘ابو مطمئن ہوتے ہوئے بولے۔
وہ جو جھوٹ سے سخت نفرت کرتی تھی وقت نے اسے جھوٹ کی کشتی پر سوار ،طوفان کے حوالے کیا تھاجہاں سے ساحل نظر آتا تھا اور ناہی اس تک پہنچنے کی کوئی راہ و امید۔۔۔!!!
دل کی عمیق گہرائیوں میں حقیقت پردہ راز تھی اور اْس تک کسی کی رسائی ہو یہ ثانیہ کو گوارا نہ تھا۔ثانیہ نے بے شمار باتیں کیں۔۔۔ دادی اپنے مفید تجربات سے نوازتی رہیں جن سے ثانیہ کافی محظوظ ہوئی ،دل پر چھائے اداسی اور غم کے بادل کچھ پل کے لئے چھٹ گئے۔ خود کو کافی فریش اورذہنی سکون محسوس کرنے لگی۔ سسرال میں ہونٹوں پر مصنوعی مسکان سجائے ،مصنوعی خوشیوں کااظہار کرتے کرتے وہ بہت تھک گئی تھی۔
رات بستر پر دراز ہوتے ہی باتونی ناز بھیجا چاٹنے لگی۔۔
’’زیست کا سب سے بڑا سرپرائز کیسا لگا۔۔۔؟‘‘
’’ زور کا جھٹکا دھیرے سے‘‘ ثانیہ نے کھوکھلا قہقہہ لگاکر جواب دیا۔
’ ’دیدی ! رضا بھائی آپ سے بہت پیار کرتے ہوں گے ؟ ‘‘ ناز نے تمام تر دلچسپی کے ساتھ پوچھا۔
’ ہوں۔۔۔‘‘ اس نے کسلمندی سے کروٹ بدلی۔ ’’ رضا بھائی بہت ہینڈسم ہیں آپ کو اپنی قسمت پر بہت رشک ہوتاہوگا۔۔۔؟‘‘
’ ناز تجھے نیند نہیں آرہی۔۔۔؟ خدا کے لئے مجھے تو سونے دے۔۔۔۔۔بہت نیند آرہی ہے ‘‘لہجے کی اْکتاہٹ پر ناز نے زور سے ہنستے ہوئی شوخی سے پوچھا۔۔۔
’ سچ بتاؤ! ،رضا بھائی کی بہت یاد آرہی ہے نا ؟ ‘
’ اب تْو مجھے سونے بھی د ے گی یا نہیں ؟ ‘ اس نے جھلاہٹ سے کہتے ہوئے بتی گل کی۔۔ناز بہن کے پہلو میں آکر لیٹ گئی اور پْرمسرت لہجے میں کہنے لگی۔
’ دیدی کالج پہنچ کرجب سارے دوستوں کو یہ حیرت کن راز فاش کروں گی کہ آئے دن نئی نئی گاڑیاں بدل کر آنے والے رئیس پروفیسرکوئی اور نہیں بلکہ میرے بہنوئی ہیں، سچ میں بڑا لطف آئیگا۔دیکھنا سب حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوں گے۔۔۔پروفیسر ندا تو خوشی سے پاگل ہوجائیں گی۔
ہے نا دی۔۔۔۔؟ سچ میں ،سوچ کر ہی بڑا لطف آرہا ہے۔ ‘ جواب میں ثانیہ بے حس و حرکت لیٹی رہی۔
یا اللہ دیدی کچھ تو بولئے۔۔۔آپ کی خاموشی زہر لگ رہی ہے۔نازنے ثانیہ کے بدن پر گدگدی کی۔
ناز خدا کے لئے خاموش ہوجاؤ.۔۔۔کتنا بولتی ہو تم۔۔۔! چند ساعتیں خاموشی چھا ئی رہی۔۔
ناز سوگئی کیا۔۔۔ثانیہ نے دھیرے سے اْس کی کلائی کو چھوکر سرگوشی کی۔
شادی کر کے انسان اسقدر بور ہوجائیگا سوچا نہیں تھا۔۔۔ایمان سے ، میں تو شادی ہی نا کروں۔۔۔۔!!!اس کی جھلاہٹ پر ثانیہ بے اختیار ہنس دی پھر اس کی کمر میں گدگدی کرنے لگی۔
دیدی پلیز۔۔۔!مجھ سے گدگدی برداشت نہیں ہوگی۔۔۔ناز زور زور سے ہنسنے لگی۔ساتھ میں ثانیہ بھی ہنستی رہی پھر اچانک وہ رونے لگی۔
دیدی کیا ہوا؟ناز نائٹ بلب کی دھیمی روشنی میں ثانیہ کے چہرے کو پڑھنے کی نا کام کوشش کرنے لگی۔۔۔۔۔
’’ناز اس بات کوتمھیں صیغۂ راز رکھنا ہوگا۔ حتیٰ کہ ندا سے بھی نہیں کہوگی۔
’’ کیا مطلب۔۔۔؟ یہ کیا بات ہوئی بھلا…؟ ‘‘ ناز نے حیرا نی سے پوچھا۔۔
’’ کہہ دیا نا کوئی انکشاف نہیں ہوگا بس نہیں ہوگا…!!! ‘‘
’ دیدی سب ٹھیک تو ہے نا۔۔۔ ؟ناز نے ثانیہ کے چہرے کو اندھیرے میں چھوا ،وہاں آنسوؤں کی بے شمار نمی محسوس ہوئی۔’’ کوئی پرابلم۔۔۔؟‘‘ناز ایک جھٹکے سے اْٹھ بیٹھی اور تشوش کن لہجے میں پوچھی۔
جواب میں ثانیہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکی وہ بے اختیار روتی چلی گئی۔
دیدی کچھ تو کہیں۔۔۔۔۔میں پاگل ہوجاؤں گی۔۔۔۔۔۔نازشدید کرب سے پوچھنے لگی۔
ثانیہ دھیرے سے اٹھی اور گھٹنوں کے گرد ہاتھ باندھے چند ساعت ساکت بیٹھی رہی۔۔۔۔
سکوت نا ٹوٹا اورلمحات پرصدیوں کا گماں ہونے لگا تھا تو ناز نے بے چینی سے ثانیہ کے بازوں کو جھنجھوڑا۔
’’رضا۔۔اور میں۔۔ ایک دوسرے کے لئے بنے ہی نہیں۔۔۔ !!!!‘‘ جیسے کسی گہرے کنویں سے ثانیہ کی بوجھل آواز ابھری اور ناز کے سماعت پر نشتر کی طرح لگی۔
’’دیدی۔۔۔!‘‘اندھیرے میں ناز کا وجود لرزاٹھااوراْس پر سکتہ طاری ہوا۔
رضا مجھ سے بہت نفرت کرتے ہیں!!!ثانیہ سسکیوں کے درمیان کہہ رہی تھی۔
ناز غم سے نڈھال ہوتی ہوئی بڑے کرب سے گویا ہوئی۔
آپ مذاق کررہی ہیں۔؟
مذاق۔۔۔۔۔۔! وہ طنز سے ہنسی پھر نہایت کرب سے گویا ہوئی۔
مذاق بنادی گئی ہوں۔۔۔۔۔ایک کٹھ پتلی ،جس کی ڈور بزرگوں نے اپنے ہاتھوں میں تھام رکھی ہے۔
میں کچھ نہیں سمجھی۔آخر آپ کہنا کیا چاہتی ہیں۔؟
میں خود سمجھ نہ سکی کہ اللہ تعالی کو پتہ نہیں کونسی مصلحت ، جو اْس نے ہمیں نکاح جیسے مقدس رشتے میں باندھ دیا۔
ہماری حیثیت رضا کی نظر میں ایک ذرہ حقیر ہے۔۔۔۔! ہمارے درمیان تکلف اور نفرت کی دیواریں اتنی اونچی ہیں جو کبھی نہیں گر سکتیں۔۔۔۔شاید تاحیات ہم محبت کے پاک جذبے تک رسائی حاصل نہ کر پائیں۔یہی ہمارا مقدر ہے۔۔۔۔!!!
سارا عالم سوگوار ہونے لگا۔۔۔۔کیونکہ ثانیہ دھیرے دھیرے سسکیاں بھر رہی تھی۔
’’دیدی کہہ دیجئے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔۔۔‘‘ناز شدت دکھ سے ثانیہ کے وجود کو اندھیرے میں جھنجھوڑنے لگی۔
’’یہی سچ ہے۔۔۔اور یہ تلخ حقیقت میری وبال جان بن چکی۔۔۔فرار کی کوئی راہ نظر نہیں آتی ہے۔زندگی اْس مقام پر پہنچ گئی جہاں ساحل کا کوئی نشان نہیں۔۔۔ کربِ نارسائی انا کو چوٹ پہنچا رہی ہے۔‘ناز میرا وجود اتنا بھی ناکارہ شئے نہیں جو رضا کی حقارت اور نفرت کا سبب بن جائے۔مجھے تو اپنے وجود سے نفرت ہونے لگی کہ کیوں میں رضا کی زندگی میں زبردستی داخل کروائی گئی، کیامیرے وجود کی کوئی اہمیت نہیں تھی؟؟؟
’’دیدی۔۔۔‘‘نازنے ملگجے اندھیرے میں ثانیہ کے چہرے کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئی اسکے رخسار پر ہاتھ پھیرا ، آنسوئوں کی بے شمار نمی محسوس ہوئی تو بے چین ہوتی ہوئی اْس سے لپٹ کر خود بھی سسک پڑی۔
( باقی آئندہ )
٭٭٭٭٭٭٭٭