بچھڑنا بھی ضروری تھا: پورے گھر پر اب منزہ کا ہی راج تھا
اس نے گھر کی خواتین کو ان کے گھر میں ہی اجنبی بنا دیا تھا،فرجاد کو کبھی بھائی نہیں کہا،وہ بھی خوش تھا ، اس نے اسے دیکھا اور اچانک ہلکا دھماکہ ہوگیا
مسززاہدہ قمر۔جدہ
قسط نمبر۔ 16
پھر اس نے وہی کیا جو اس کی ماں نے اسے اورا س کی بڑی بہن کو سِکھایا تھا۔ اس کی بڑی بہن بھی اپنے شوہر احمد کے گھر والوں کے ساتھ یہی کر رہی تھی، ساس نندوں کو دودھ کی مکھی کی طرح گھر کے معاملات سے نکال چکی تھی۔ہر وقت دیور، جیٹھ اور سُسر کی جی حضور ی میں لگی رہتی ان کی ہاں میں ہاں ملاتی اور بیٹی معصومیت سے اپنا موقف پیش کرتی۔ اس نے گھر کی خواتین کو ان کے گھر میں ہی اجنبی بنا دیا تھا۔ وہ اس حد تک گھر کے معاملات میں عمل دخل اختیار کر چکی تھی کہ اس کے مشورے کے بغیر کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی انجام نہیں دیا جاتا تھا۔گھر کے لوگ اس سے خائف رہتے تھے اور اب منزہ کی ماں منزہ کو ٹرینڈ کر رہی تھی۔ منزہ نے اپنے گھر میں یہی سب کچھ دیکھا اور سیکھا تھا کہ کس طرح کھانے پیتے گھرانوں کے لڑکوں کو احمق بنا یا جائے،ان سے خوب خوب تحائف بٹورے جائیں اوراگر وہ کام کے نہ ہوں تو بڑی آسانی سے دھتکار دیا جائے ورنہ شادی کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا بھلا کیا جائے۔ وہ بہت سے لڑکوں کے ساتھ افیئرچلا چکی تھی، کچھ لڑکوں کو اس نے بے وقوف بنایا اور کچھ لڑکوں نے اسے۔۔۔۔
مگر بات بن نہیں سکی آخر کار ایک تقریب میں آنکھ کا اندھا اور عقل سے کورا دلشاد اس سے ٹکرایا۔ دلشاد کے 2بھائی اور2 بہنیں تھیں۔ ایک بھائی دلشاد سے بڑا جبکہ دوسرا اس سے چھوٹا تھا۔ دلشاد منجھلا تھا۔ بہنیں تینوں بھائیوں سے بڑی تھیں، سب سے بڑی نویرہ تھی جو کہ نفسیاتی مریضہ اور بے حد فسادی تھی، دوسری بہن فریدہ تھی جو شادی کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ بحرین میں رہتی تھی اس کے بعد دلشاد کا بڑا بھائی فرجاد تھا وہ خود پسند اور خودنمائی کا شکار تھا۔ اپنے آپ کو بے حد ذہین ، عقل مند اور افلاطون سمجھنے والا بے وقوف آدمی تھا۔ اس کی شادی نہیں ہوئی تھی حالانکہ اچھی پوسٹ پر انکم ٹیکس کے محکمے میں ملازم تھا۔دراصل اس کی بدمزاجی اور خود پسندی کے باعث خاندان میں کوئی اسے لڑکی دینے کو تیار نہ تھا اوراگر خاندان سے باہر کسی لڑکی سے بات چلائی جاتی تو وہ ہر لڑکی میں عیب نکالنے کو ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔ دلشاد اس سے ایک ڈیڑھ سال چھوٹا تھا۔ بے حد دل پھینک اور رنگین مزاج، ہر خوش شکل لڑکی پر فدا ہونے کے لئے تیار!!! وہ خود کو کسی فلمی ہیرو سے کم نہیں سمجھتا تھا۔ شاید اس کے کالے کرتوت ہی تھے جو اس کی ملاقات منزہ سے ہو گئی، منزہ فلرٹ کے میدان میں اس سے بھی بڑی کھلاڑی تھی۔ اس نے دلشاد کو ہمیشہ کی طرح بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں دیا۔دلشاد نے شروع شروع میںاپنی عادت کے مطابق اسے بھی چھوڑنے اور اس سے دور بھاگنے کی کوشش کی کیونکہ وہ بہت جلد اس سے بھی بیزار ہو گیا تھا مگر منزہ اور لڑکیوں کی طرح حساس اور غیرت مند نہیں تھی جو دلشاد کا رویہ دیکھ کر اپنی راہیں جُدا کر لیتی۔ وہ سوچ سمجھ کر دلشاد کی زندگی میں داخل ہوئی تھی۔ آخر کار ماں بہنوں کی ہزار مخالفت اور باپ کی ناراضگی کے باوجود دلشاد منزہ کے سحر میں اس طرح گرفتار ہوا کہ اس سے شادی کر ڈالی۔ اور یوں وہ منزہ دلشاد بن کر گھر میں پورے حق کے ساتھ براجمان ہو گئی۔
وہ دلشاد کے گھر پوری تیاری کے ساتھ آئی تھی۔ اس نے آتے ہی فرجاد کے گرد اپنی اداﺅں اور خدمتوں کا جال بننا شروع کر دیا۔ اسے معلوم تھا کہ فرجاد خودپسند اور انا پرست آدمی ہے اس نے فرجاد کی نفسیات سے خوب فائدہ اُٹھایا۔ ابتدا میں خورشید بیگم اور ان کی بیٹیوں نے منزہ کا اثرورسوخ بڑھتے دیکھ کر بہت کوشش کی کہ وہ اسے قابو کر سکیں ۔افتخار صاحب نے بھی حتی الامکان فرجاد پر سختی کرنے کا بیڑہ اُٹھایا دلشاد کو سمجھانے کی بھی کوشش کی گئی مگر سب کچھ نا کام ثابت ہوا۔ دلشاد کی آنکھوں پر بندھی محبت کی پٹی نہیں اُتر سکی نہ ہی اسے اپنی بیوی اور بھائی کی دوستی میں کوئی غیر اخلاقی بات دکھائی دی۔ اس کی نظروں میں اس کی بیوی وفا کی دیوی تھی جس کے چرنوں میں ہر وقت عقیدت کے پھول نچھاور کئے جانے چاہیے تھے اور اس کا بھائی ایک انصاف پسند اور حق گو جیٹھ تھا جو کہ منزہ کو اس کا جائز حق دلوانے کے لئے خون کے رشتوں کے آگے ڈٹ گیاتھا ۔
5 سال گُزر گئے آخر کار افتخارصاحب کے مرتے ہی منزہ پورے گھر پر قابض ہو گئی ، اب اس کی بالا دستی سب تسلیم کر چکے تھے ۔وہ 2بچوں کی ماں تھی، صائمہ اور زین۔۔۔۔ سارے گھر پر اسی کا راج تھا۔ نویرہ آپا اور فریدہ آپا تک اس کا مزاج دیکھ کر بات کرتی تھیں، فرجاد اور دلشاد اس کے بے دام غلام ۔۔۔۔
وہ اپنا پسندیدہ ڈریس خرید کر باہر آئی تو فرجاد دونوں بچوں کو آئس کریم کھلا رہا تھا۔ ”اوہ فرجاد!! اگر آپ نہیں ہوتے تو میں کبھی اتنی آرام سے شاپنگ نہیں کر پاتی۔ یہ دونوں شیطان تو میرا ناک میں دم کر دیتے“۔
منزہ نے بڑی محبت سے فرجاد کو مخاطب کیا وہ فرجاد کا نام ہی لیتی تھی۔ کبھی بھائی یا بھائی جان کا لفظ اس کی زبان پرنہیںآتا تھا۔ ایسا وہ سب کے سامنے کرتی۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ اسے ٹوک دے۔ ایک آدھ بار خورشیدبیگم نے دبے دبے الفاظ میں اسے ٹوکنا چاہا تو فرجاد اس کی ڈھال بن گیا۔ ”کیا ہوا، امی !! ضروری ہے کہ منزہ مجھے بھائی جان جیسے الفاظ کہے، احترام دل میں ہوتا ہے لفظوں میں نہیں ، مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ منزہ میرا نام لیتی ہے“۔
اس کے بعد کسی میں ہمت نہیں ہوئی کہ منزہ پر اعتراض کرے۔اس وقت بھی منزہ کی بات سُن کر وہ خوش دلی سے مُسکرایا۔ ”کوئی بات نہیں یار!!بس تم خوش تو ہم خوش۔ کرلی ساری شاپنگ یا ابھی اور باقی ہے تکلف مت کرنا، جو چاہے لے لو“۔
”ہائے فرجاد!!آئی ایم سو لکی! کہ آپ مجھے مل گئے، اللہ آپ کے کریڈٹ کارڈ سے لاکھوں کی شاپنگ بھی کر تی ہوں تو آپ کے ماتھے پر شکن نہیں آتی، کس مٹیریل کے بنے ہیں آپ؟؟ اتنا بڑا دل ہے آپ کا۔۔۔ میں نے آپ جیسا کوئی آدمی آج تک نہیں دیکھا۔ہاﺅ سوئیٹ یوآر۔۔“۔”رئیلی!!!“، وہ بے حد خوش تھی اور اسے خوش دیکھ کر فرجاد بڑا شاداں و فرحان تھا۔ اسے یہ احساس بڑی طمانیت بخش رہا تھا کہ منزہ کی خوشی اس کی مر ہون ِ منت ہے۔
”بس فرجاد!! باقی آئندہ کے لئے بس اب گھر چلئے میں بہت تھک گئی ہوں جو حکم سرکار!!! وہ بہت چونچال موڈ میں تھا۔ منزہ نے بچوں کو آواز دی اور ان کے بیٹھتے ہی خود بھی سیٹ سنبھال لی۔ ایک سر خوشی کے عالم میں فرجاد نے گاڑی اسٹارٹ کی وہ بادلوں اور ہواﺅں کا ہمسفر محسوس کر رہا تھا۔اس نے ہاتھ بڑھا کر کار ٹیپ آن کیا۔ دلفریب نغمہ گاڑی کی فضا میں گونجنے لگا۔ منزہ کے ہونٹوں پر جاندار تبسم تھا۔ فرجاد نے اسے دیکھا اوراچانک ہی ایک ہلکا سا دھماکہ ہوا اس کا ذہن یک لخت سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭