واجپئی تصویر پریس میٹ کے آئینہ میں
***ظفر قطب***
ہندوستانی سیاست کے ایک اہم ستون اٹل بہاری واجپئی جن کا گزشتہ16 اگست کو انتقال ہوگیا، ان سے متعلق بہت سی باتیں لکھی اور کہی جارہی ہیں۔ واجپئی اپنی بہت سی باتوں اور عادتوں کی بنا پر ہندوستانی سیاست دانوں میں ایک الگ ہی مقام رکھتے ہیں ۔ ان کے مداحوں اور مخالفین نے انھیں الگ الگ زاویۂ نظر سے دیکھا لیکن سب سے زیادہ خود انہی کی پارٹی والوں نے جو ان کی تعریف اور مخالفت میں کلمات ادا کیے ان کے کسی دشمن نے بھی اس کی جرأت نہیں کی۔ ان میں بی جے پی کے ایسے لیڈران شامل ہیں جو آج بھی اعلیٰ حکومتی عہدوں پر سرفراز ہیں کچھ تو آئینی منصب پر بیٹھے ہیں جنھوں نے ان کے خلاف رکیک جملوں کا استعمال ایک بار نہیں بلکہ بار بار کیا لیکن بی جے پی ان کے خلاف کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکی جس کے خوف سے پھر کوئی اپنے کسی سینیئر لیڈرکی دھجیاں نہ اڑا سکے ۔ وجہ ظاہر ہے کیونکہ پارٹی کی سرپرست آر ایس ایس کی مرضی میں یہ شامل نہیں تھا۔ اس کی مصلحتیں ہمیشہ ایسی رہی ہیں جن کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ۔
ہندوستانی ذرائع ابلاغ کے علاوہ ملکی سیاسی لیڈروں خصوصاً بی جے پی کے قد آور لیڈروں نے انھیں خراج عقیدت پیش کرنے میں بڑا محتاط رویہ اختیار کیا شاید یہی حالات کا تقاضا تھا لیکن جو کچھ کہا اور لکھا گیا ان میں بہت کم لوگ ایسے تھے جنھوںنے توازن سے کام لیا ۔ اکثر نے اپنی عقیدت کی رو میں ایسی باتیںبھی کہہ ڈالیںجن کا اگر تجزیہ کیا جائے تو سچائی اس کے برعکس نکلے گی ۔ یہاں میں ایک صحافی کی حیثیت ان کی ایک ’’میٹ دی پریس‘‘ کی روشنی میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جو میںنے خود ان سے سوالات کیے تھے ۔
’’یوپی پریس کلب‘‘لکھنؤ کا وہ باوقار اسٹیج ہے جہاں ملکی و غیر ملکی شخصیات آنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس کلب میں اندراگاندھی ، راجا وشوناتھ پرتاپ سنگھ ، چندر شیکھر اور کئی غیر ملکی سفیر اور ہائی کمشنر برابرآتے رہے ہیں۔ ان سے گفتگو کرنے یا سوال پوچھنے والوں کی فہرست پہلے سے تیار کرلی جاتی تھیـ عموماً یہ میٹ دی پریس ایک گھنٹے سے کم کی مدت کا نہیں ہوتا تھا بلکہ کچھ شخصیات نے تو اپنی مرضی سے پریس کلب کے صحافیوں کو زیادہ وقت دیا ، ایسے میں ایک اہم ’’میٹ دی پریس‘‘ واجپئی صاحب کی ہوئی جس کا اعلان بہت پہلے ہوگیاتھا۔یہ کوئی 1992ء کا زمانہ تھا، اس وقت واجپئی وزیر اعظم تو نہیں ہوئے تھے لیکن پورے ملک نے وزیراعظم کی حیثیت سے ان کی تاج پوشی کی تیاری کرلی تھی ۔
اس سے انکار نہیں کہ وہ صحافیوں کے سوالات کا جواب دینے میں بڑے ماہر تھیـ چونکہ ان کا مطالعہ وسیع تھا اور وہ خود آر ایس ایس کے ہندی ترجمان ہفتہ وار ’’پانچ جنیہ‘‘ کے لکھنؤ میں ایڈیٹر رہ چکے تھے اس لیے انھیں ہر قسم کے سوالات کا جواب دینے میں ذرا بھی دقت نہیں ہورہی تھی۔ ایسے موقع کیلئے میںنے عادت کے مطابق پہلے سے تیاری کر لی تھی ۔ہر صحافی کو ایک ایک سوال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ میںنے اپنی باری پر جو سوال کیا، ابھی تک انگریزی ہندی اور اردو کے کسی بھی صحافی نے اس طرح کا سوال نہیں کیا تھا۔ اکثر کے ذہن و دماغ پر آر ایس ایس اور بی جے پی کی اس ملک میں قائم ہونے والی ممکنہ حکومت اور اس کی پالیسیوں کی فکر تھی اور تقریباً سبھی صحافیوں کا محور یہی موضوعات تھے ۔ میں نے جو سوال کیا وہ پارلیمنٹ ہاؤس میں واجپئی کے تازہ بیان سے متعلق تھا جو انھوں نے ہندوستانی حاجیوںکو دی جانے والی حج سبسڈی کو ختم کرنے سے متعلق دیاتھا ـانھوں نے اس کا موازنہ مانسروور اور ویشنو دیوی کی یاترا پر جانے والوں سے کیا تھا جنھیں کوئی سرکاری سبسڈی نہیں دی جاتی ۔ اس کے کچھ دنوں بعد پارلیمنٹ کے ایک اہم مسلم رکن سید شہاب الدین نے بھی اس کی تائید کردی تھی ۔یہ موضوع بہت دنوں تک اردو ہندی زبان کے اخبارات کا زینت بنا رہا ، اس کی مخالفت اور حمایت میں بہت سے بیانات اور مضامین شائع ہوئیـاس میں یہ بات بھی ابھر کر سامنے آئی تھی کہ حکومت حجاج کرام کو سبسڈی ضرور دیتی ہے لیکن اس کی حیثیت ایسی تھی جیسے کسی روتے ہوئے بچے کوبہلانے کے لیے ایک ہاتھ سے اسے کھلونا دیا جاتا ہے اور جب وہ خاموش ہوجاتا ہے تو چپکے سے دوسرے ہاتھ سے چھین کر آئندہ کے لیے رکھ دیا جاتا ہے کیونکہ یہ سبسڈی حکومت ہند اپنی سرکاری فضائی کمپنی ایئر انڈیا کوخسارہ سے باہر نکالنے کے لیے دیتی تھی جو حاجیوں کو نہ مل کر ایئر انڈیا کے کھاتے میں چلی جاتی تھی ۔ اس وقت واجپئی صاحب سے میرا یہی سوال تھا کہ حج سبسڈی آپ ختم کرادیں،اس پر کسی کو اعتراض نہ ہوگا لیکن پھر حاجیوں کو سعودی عرب کا سفر کرنے کے لیے ایر انڈیا جیسی مہنگی فضائی کمپنی استعمال کرنے کی شرط ختم کرنے کے بارے میں کیوں نہیں سوچا جاتا ۔ اس وقت ملائیشیا ،انڈونیشیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کے حاجی ایئر انڈیا کے مقابلے بہت کم کرائے پر جدہ کا سفر کرتے ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ آپ اور آپ کے دوست سید شہاب الدین نے سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ تو کردیا ہے لیکن حج کمیٹی کو ایک گلوبل ٹینڈر نکالنے کے بارے میںکیوں نہیں سوچتے کہ جو ایئر لائنس سب سے کم کرائے پر حجاج کو ہندوستان سے سعودی عرب لے جانے کا ٹینڈر دے، اس سے حاجی سفر کریں پھر کسی بھی حاجی کو سبسڈی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہندوستان سے حجاج جس کثرت سے مکہ و مدینہ کا سفر کرتے ہیں اس سلسلے میں ایاٹا( IATA)جو بین اقوامی فضائی تنظیم ہے ، نے بھی دنیا بھر کی فضائی کمپنیوں کو موسم حج اور کرسمس کے موقع پر سفرمیںخصوصی سہولیات دینے کی ہدایت دے رکھی ہے۔دنیا بھر سے عقیدت مند جو ویٹیکن سٹی، بیت لحم اور مکہ کے لیے قصد کرتے ہیں انھیںیہ سہولیات حاصل ہیں سوائے ہندوستانی حاجیوںکے جنہیں ایئر انڈیا کچھ بھی دینا نہیں چاہتا ۔ اس وقت پورے پریس کلب میں سناٹا تھا ، واجپئی میری باتوں کو غور سے سن رہے تھے، انڈین فیڈریشن آف ورکنگ جرنلسٹ یونین کے قومی چیئرمین کامریڈ وکرم راؤ وہاں موجود تھے۔ انھوںنے بھی میرے سوال پر IATAکے رول کی تائید کی لیکن اس کا جواب واجپئی نے جس طرح دیا اس میں ان کی کوئی ذہانت کا دخل نہیں تھا، نہ تو انھوں نے ایئر انڈیا کے ذریعہ حجاج کے مہنگے سفر پر کوئی جواب دیااور نہ ہی ایئر ا لائنس کے گلوبل ٹینڈر کی جانب توجہ دی، بس جواب گول مال کرگئے۔
اس میٹ دی پریس میں ایک انگریزی صحافی نے البتہ یہ سوال کیا کہ بقر عید کا تہوار قریب ہے اور قربانی کے جانوروں کے نقل و حمل پر شیو سینا نے مہاراشٹر میں جگہ جگہ رکاوٹیں پیدا کرنا شروع کردیا ہے ،کیا اس ملک میں بی جے پی کی جب حکومت قائم ہوجائے گی تو قربانی پر پابندی عائد کردی جائیگی ؟اس پر واجپئی فوراًنہیں بولے ۔پھر کہاجانوروں کے نقل و حمل پر پابندی پرکوئی واقعہ ملک میںپیش نہیں آیا۔ اس کے بعد لمحہ بھر کیلئے سناٹا چھا گیا…حالانکہ اس روز کے اخبارات نے یہ خبر صفحہ اول پر شائع کی تھی اس لئے راقم الحروف ایک بار پھر کھڑا ہوگیا توکسی نے ٹوکا،کہاکہ آپ دوسرا سوال نہیں کرسکتے۔ تب میں نے کہاکہ واجپئی کے جواب کا ضمنی سوال ہے ۔چیئرمین وکرم راؤ نے مجھے ضمنی سوال پوچھنے کی اجازت دے دی تو میں نے فوراً مع تاریخ اور دن کا حوالہ دے کر کہا :ابھی کل کی بات ہے ،ممبئی کے ’’ساکی ناکہ‘‘ چیک پوسٹ پر شیو سینکوں نے بھیڑ اور بکروں سے لدے کئی ٹرک ضبط کرلئے ہیں ۔ وہاں پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ میں نے انگریزی اور ہندی اخبارات اور خبر رساں ایجنسیوں کا حوالہ بھی دیا ۔اس پر واجپئی صاحب نے بڑی دبی آواز میںکہا کہ مجھے نہیں معلوم!یہ تھی ان کی ایک میٹ دی پریس کی تصویر کہ وہ کس قدر ہوشیار اور مصلحت پسند تھے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔