Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بی جے پی کو اب صرف نفرت کا سہارا

ظفر قطب ۔  لکھنؤ
  وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ نعرہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ اب دم توڑتا نظر آرہا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ جب ارباب اقتدار میں خلوص ختم ہوجاتا ہے اور وہ مغرور ہوجاتے ہیں تو ان کی طاقت آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتی ہے۔ اس سلسلہ میں جب بی جے پی کے دور اقتدار پر غور کیا جاتا ہے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ گزشتہ4 برس سے زائد کی مدت میں مرکزی حکومت نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘مترشح ہوتا ہو۔ وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے قومی صدر 2ایسے جنرل ہیں جو خود اپنی فوج سے نبرد آزما ہیں۔ اس کے بعد جب کچھ طاقت بچتی ہے تو اسے وہ اپوزیشن خصوصاً کانگریس کو کوسنے میں صرف کردیتے ہیں۔
     اس وقت راہول گاندھی بی جے پی کے لیے اُس ویلن کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے گرد پوری کہانی چلتی رہتی ہے ، ہیرو اور ہیروئن کا سکھ چین ویلن 2منٹ میں ختم کردیتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور امت شاہ کی گزشتہ 4 برسوں کی تقریروں کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ 80 فیصد وقت انھو ں نے راہول گاندھی اور کانگریس کو کوسنے میں صرف کردیئے۔ مطلب کی کوئی بھی بات نہیں کہی۔ یہی وجہ کہ آج بی جے پی کے اندر ہی ایک نہیں کئی چھوٹے چھوٹے گروپ پیدا ہوگئے ہیں جو اب باقاعدہ کھل کر مودی اور امت شاہ کے علاوہ دوسری ریاستوں کے بی جے پی وزرائے اعلیٰ کو نشانہ بنانے لگے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی لیڈر باہر کے دشمنوں سے تو ٹھیک سے مقابلہ کر نہیں پائے، اب وہ اندرونی مخالفین سے کیسے لڑیں گے۔ انہی کے لباس اور میک اپ میں حکومت میں بیٹھے یہ لوگ اس عمارت کی بنیاد کوکھوکھلا کررہے ہیں جسے کھڑی کرنے میں آر ایس ایس نے تقریباً ایک صدی لگا دی ہے ۔ ہندو قومیت کے نعرہ کو لے کر ہیڈگوار نے آر ایس ایس کی بنیاد ڈالی تھی لیکن اب یہ عمارت اس میں رہنے والے بھی کمزور سمجھنے لگے ہیں ۔ اقوام عالم کی تاریخ ان شواہد سے بھری پڑی ہے کہ نفرت کے فلسفہ کو اپنا کر دنیا کوئی بھی حکمراں کامیاب نہیں ہوا۔  آر ایس ایس اور اس کا سیاسی بازو بی جے پی اب تک صرف مسلم دشمنی کے سہارے زندہ ہیں۔جب ہندوستان جیسے ملک میں اکثریت ان ذات برادریوں کی ہے جنھیں صدیوں سے ایک نظریہ کے تحت  ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے کسی قوم کی بھوک اور محرومی کو صرف ایک جھوٹے خوف سے تو مٹایا نہیں جاسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں دلت اور پس ماندہ اقوام ایک بار پھر متحد ہونے لگے ہیں تو بی جے پی کے اندر ہی بیٹھے کچھ لیڈران مودی اور شاہ کے طریقہ کار پر اعتراض کرنے لگے ہیں وہ  ہندوستانی سماج کے لیڈر او م پرکاش راج بھر ہوں یا شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے۔خاتون دلت لیڈر ممبر پارلیمنٹ ساوتری پھولے ہوں یا ملک کے پڑھے لکھے نوجوانوں پر اپنا اثر رکھنے والے ممبر پارلیمنٹ شتروگھن سنہا۔ اب سب کو شروع سے ہی مودی خیمہ نے کمزور سمجھ کر نظر انداز کردیا تھا لیکن اب وہ اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ وہ مودی اور شاہ کو کھلا چیلنج دینے لگے ہیں۔ حال میں سابق وزیر اور بی جے ہی کے موجودہ ممبر پارلیمنٹ شتروگھن سنہا نے جس طرح وزیراعظم کے گھر بنارس میں کامیاب ریلی کرکے انھیں براہ راست چیلنج کیا وہ معمولی بات نہیں۔ اتنی بڑی بھیڑ بنارس میں جمع کرلینا اس بات کی جانب اشارہ  ہے کہ جیسے عوام اس کے منتظر تھے کہ کوئی تو آگے آکر اس گھٹن بھرے ماحول کو توڑے۔ شتروگھن سنہا نے اپنی ریلی میں جملے بازی نہیں کی بلکہ  امت شاہ اور مودی کے روایتی انداز کے بر خلاف حقائق سے عوام کی آنکھیں چار کرائی ہیں ۔ انھوں نے ملک کی اقتصادی پالیسی کو نشانہ بنا کر جس طرح وزیر مالیات ارون جیٹلی کی شخصیت کو کھوکھلا ثابت کردیا ہے۔ وہ معمولی بات نہیں۔ اسی طرح رائے بریلی سلطان پور اور امیٹھی میں پکنک منانے آنے والی اسمرتی ایرانی کو بھی بنارس کی ریلی میں ان کی وقعت بتا دی ہے۔ انہیں2,2 بار شرمناک شکست کے باوجود  مرکزی کابینہ میں اہم قلم دان کیوں دے رکھا ہے۔ مودی نے اور اکثریتی ووٹوں سے کامیاب ہونے والے کتنے ایسے ممبران پارلیمنٹ ہیں جنھیں کونے میں ڈال دیا  ہے۔ کیا وجہ ہے جس خاتون کی تعلیمی ڈگریوں پر سوال اٹھے مہینوں ان کی جانچ چلی پھر بھی ڈگریاں نقلی پائی جانے کے باوجود وہ کرسیٔ اقتدار پر قابض حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہیں۔ یوپی میں بی جے پی کی 2معاون پارٹیاں کھل کر بی جے پی کو چیلنج کررہی ہیں۔ ہندوستانی سماج پارٹی تو خم ٹھونک کر میدان میں اترچکی ہے۔ اس کے سینیئرلیڈر اور کابینی وزیراوم پرکاش راج بھر کھل کر وزیراعلیٰ یوگی کے مقابلے میں آگئے ہیں ۔ حد تو اب یہ ہوگئی ہے کہ  ہندوستانی سماج کے کسی بھی لیڈر کی بات یوپی کے افسران سننے کو تیار نہیں۔ اس پر وزیراعلیٰ کی معنیٰ خیز خاموشی صاف یہ بتا رہی ہے تمہاری حیثیت ہی کیا ہے ؟ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انہی دلتوں، پس ماندہ اقوام اور اقلیتوں نے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کو ان کی اصلیت بتا دی ہے۔ گورکھپور کی پارلیمانی سیٹ نہ تو آدتیہ ناتھ یوگی بچا سکے جس پر وہ کبھی الیکشن ہارے ہی نہیں تھے تو ڈپٹی وزیراعلیٰ کیشو پرساد جو ایک شہ زور لیڈر بی جے پی میں مانے جاتے ہیں ،اپنی پھول پور کی سیٹ نہیں بچا سکے ۔ اپنا دل بھی بی جے پی قیادت سے ناخوش ہے۔ اس کے ایک لیڈر کو مرکز میں وزیر مملکت کا درجہ دینا ہی کافی نہیں، وہ اپنی کرمی برادری کے لیے بہت کچھ امید لگائے بیٹھی تھی۔ اسی لیے پارٹی کی قیادت خود انو پریا پٹیل سے خوش نہیں  جو بی جے پی پر بہت بھروسہ کئے بیٹھی ہیں۔اب تو عالم یہ ہے کہ کابینی وزیر راج بھر کو خود پھاوڑا اٹھا کر سڑک کی تعمیر کی پہل کرنی پڑ تی ہے کیونکہ محکمہ تعمیرات عامہ ان کے گھر کے پاس سے گزرنے والی سڑک بنانے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی سب سے پرانی معاون جماعت شیو سینا کے لیڈر اودھو ٹھاکرے کو کہنا پڑا کہ بی جے پی ایک مغرور پارٹی ہے۔ ا سکے لیڈر اپنے راستے میں آنے والوں کو خنجر مار رہے ہیں ۔ انھوں نے یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی سخت مذمت کی کہ اودھو ٹھاکرے انھیں یوگی نہیں ڈھونگی قرار دیتے ہیں ۔ انھیں شیوا جی کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اودھو نے تو بی جے پی کو ایک پاگل قاتل سے تشبیہ دے دی اس لیے اب شیو سینا بی جے پی اتحاد سے الگ ہونے کا اعلان کرچکی ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایک پرانے حامی پروین توگڑیا بھی وشو ہندو پریشد کے سربراہ کا الیکشن ہار جانے سے سمجھ گئے ہیں کہ جو بھی مودی اور امت شاہ کو پسند نہیں آتا ، اس کا حال یہی ہوجاتا ہے جو اُن کا ہوا۔ اب وہ اجودھیا میں رام مندر کا کھیل پھر سے شروع کرنے جارہے ہیں۔ اسی سہارے تو بی جے پی نے اقتدار ہتھیایا ہے اس لیے وہ اس میدان کے کھلاڑی ہونے کی بنا پر آئندہ اکتوبر سے نئی تحریک کا الٹی میٹم دے چکے ہیں۔ دراصل انھوں نے ارباب اقتدارکو ایک بار یہ آگاہی دیدی ہے کہ وہ 2019 پارلیمانی الیکشن کا کھیل بگاڑنے جارہے ہیں ۔ اب آر ایس ایس کے پاس صرف اپنی سیاست کا سہارا بچا ہے جس پر وزیراعلیٰ یوپی یوگی نے عمل کرنا شروع کردیا ہے۔ اب ان کے سامنے کوئی موضوع ہو وہ گھوم پھر کر مغل بادشاہوں خاص کر اورنگ زیب کو برا بھلا کہنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کرتے ۔چھوٹی چھوٹی ذات برادریوں میں وہ اپنی منزل تلاش کرنے لگے ہیں ۔ لکھنؤ میں وہ بنجارہ سماج کو خطاب کرتے وقت اورنگ زیب اور مسلم حکمرانوں کو نشانہ بنانا نہیں بھولے۔ انھیں یہ خطرہ ہے کہ 2019کے پارلیمانی الیکشن میں بنجارے راج بھر اور اکھلیش کے ساتھ نہ چلے جائیں اس لئے انھیں پہلے ہندو بنا لیا جائے۔ آر ایس ایس کا یہ نظریہ اب پھیکا ہوچکا ہے۔ اس کی حیثیت اُس کھوٹے سکّے کی ہوگئی ہے جو کوئی وقعت نہیں رکھتا۔
مزید پڑھیں:- - - - -صدرجمہوریہ بھی محفوظ نہیں

شیئر:

متعلقہ خبریں