ما بعد حج زندگی کیسے گزاریں
حاجی حج کے بعد کی اپنی آئندہ کی زندگی کا لائحۂ عمل خود طے کرلے، اب اس کی خواہش اپنی نہیں، نہ وہ نفس وشیطان کا غلام رہا
* * * ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔ مکہ مکرمہ* * *
شارع الحکیم کی حکمت کہ تمام عالم کے مسلمانوں کو مخصوص وقت میں مخصوص مکان میں ایک ہی جیسے اعمال کا پابند بنایا۔ ایک ہی جیسی نیت، ایک ہی جیسا لباس’’ احرام‘‘، ایک ہی جیسے مناسک حج۔ہم کچھ غور کریں کہ ہمیں حج کے اس عظیم مدرسہ سے کیا کیا دروس وعبرپلے باندھ کر جانا ہے؟ حج کے اعمال بھی برائے غوراور اس پر ملنے والا اجر بھی۔
نبی کریم نے فرمایا:
iجس نے حج کیا اور اس میں بے حیائی اور فسق وفجور کا ارتکاب نہیں کیا، وہ ایسا لوٹا جیسے آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا۔
iحج وہ عمل ہے 100سالہ بوڑھا بچہ بنکر واپس ہو،یہ حج کا دنیوی بدلہ اور اجر ہے۔
iحج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے اور کچھ نہیں ،یہ حج کا اخروی بدلہ اور اجر ہے۔
جب نوجوان اور بوڑھے مرد اور عورت کو بچہ ا ور جنتی بنانے والا عمل حج ہے، تو اس کے مناسک بھی مخصوص ہیں۔ پھر حج کرنے کے ما بعد حاجی بچے اور جنتی حاجی کی سیرت اور اس کے بقیہ زندگی میں کردار بھی یہیں سے متعین ہو جاتا ہے۔ حج کے مناسک نے وہ احرام ہو، طواف ہو، صفا ومروہ کی سعی ہو، منیٰ کی اقامت ہو، عرفات کا وقوف ہو، مزدلفہ کی شب باشی، وہ جمرات کی رمی ہو، یا قربانی، پھر یہ تمام اعمال کی ادائیگی کی خاطر ایک مدت تک گھر سے دُور اہل وعیال سے دُور اپنے کاروبار سے دُوری وغیرہ وغیرہ، تو یہ پراسس ہے، جس سے گزر کر جوان اور بوڑھا حاجی بچہ بن کر واپس ہوتا ہے۔ حاجی ان قربانیوں سے گزر کر اور اللہ تعالیٰ کی کھلی نشانیوں کے نقوش کو اپنے قلب پر نقش کرکے جب واپس ہوتا ہے تو ایک نیا انسان ہوتا ہے۔ وہ حج کے مابعد کی اپنی آئندہ کی زندگی کا لائحۂ عمل خود طے کرلے کہ اب اسے بچہ بن کر ہی رہنا ہے، اسے جنتیوں والی زندگی ہی گزارنی ہے، اس کی خواہش اپنی نہیں، نہ وہ نفس وشیطان کا غلام رہا۔ حج نے اس کی طہارت کردی، حج نے اسے آزادی دلا دی، اس کے اندر کا تزکیہ کر دیا، حج نے اسے وحدتِ ملی کا درس دیا، حج نے اسے حسنِ معاشرت، برداشت، صبر وتحمل اور قربانی کی خوبصورت صفات سے مزین کیا۔ اس نے اپنے آپ کو ان اعلیٰ اقتدار کا عادی بنایا۔ اب آئندہ کی بقیہ عمر میں وہ اپنی شخصیت کا بطورِ حاجی خود تحفظ کرے گا۔ جس طرح بچہ نہ جُرم کرتا ہے، نہ مُجرم بنتا ہے۔ نہ جنتی لوگ جُرم کرتے ہیں ، نہ مُجرم بنتے ہیں، نہ ہی لوگ ان سے شرور کی توقع رکھتے ہیں، وہ ان سے ہر قسم کے ظلم، ہر طرح کی زیادتی، وہ مالی ہوں، خُلقی ہوں، معاشرتی ہوں، معاملاتی ہوں، لوگ امن میں ہوتے ہیں۔ حاجی کو تمام عمر اللہ تعالیٰ کے گھر کی حُرمت، مقاماتِ مقدسہ کے تقدس اور اللہ تعالیٰ کی اس نسبت کی لاج رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنا مہمان قرار دیاتھا۔ پھر اسے خوب نواز کر روانہ کیا ہے۔حاجی کی سیرت میں ضرور بضرور ربِ جلیل کے ہاں کی مہمانی کی جھلک نظر آتی رہے۔
حج کے اعمال جنہیں مناسک حج کہا جاتا ہے۔ اس کی چھاپ حاجی کے قلب میں لگنے کے بعد، نیز اس کی ’’لبیک‘‘ پر رحمن کی طرف سے اس کی حاضری کی قبولیت کی علامت ومثال کو یوں سمجھنا چاہئے کہ کسی ٹریننگ اسکول میں اسٹوڈنٹ جو مشقیں کرتے ہیں اور وہ تعلیمی اور تربیتی، فکری اور جسمانی طور پر جس پراسس سے گزرتے ہیںوہ ان کے مقاصد نہیں ہوتے۔ ہاں! یہ انہیں مقاصد تک پہچاننے کی تربیت اور ٹریننگ ضرور ہے البتہ مقاصد تو وہ ہیں، جن کی خاطر اسے اس تربیت گاہ میں داخل کیا گیا ہے۔ اصل کام تو ان کا اس مدرسہ سے فراغت کے بعد شروع ہوتا ہے جیسا کہ ایک ٹرینی وہ پولیس مین ہو، فوجی ہو، گارڈ ہو، تربیت گاہ میں کچھ دن اس لئے گزارتا ہے کہ سندِ فراغت کے بعد وہ اپنی عملی زندگی میںان دروس کی پریکٹس کرے گا۔ اسی طرح ہمیں حج کو اور اس مدرسۂ خیرات وبرکات کو سمجھنا ہے کہ اس مدرسۂ حج سے جو تربیت ہوگی، اس کی عملی تطبیق ما بعد الحج کرنا ہوگی۔ حاجی تو اسی غرض سے اپنے مال، اپنے اعزہ واقرباء، اپنے راحت وآرام اور دیگر قربانیاں دیکر اسی لئے رحمن کا مہمان بنا تھا کہ اس سے جو ملے اسے عظمت کے ساتھ قبول کرلے۔ اسے محبت کے ساتھ، اپنے ساتھ رکھے، اسے بہترین زادِ حیات سمجھے۔ اب رحمن کے شرف ضیافت اور مدرسۃ الحج سے فراغت کے بعد اس کی زندگی حیاتِ طیبہ ہو، حیاتِ سیئہ نہ ہو۔ حیاتِ صالحہ ہو، حیاتِ شریرہ نہ ہو جس کے حکم پر ’’لبیک‘‘ پکارتے یہاں پہنچا تھا، اب وہ اسی رحمن ورحیم ربِ کریم کا سفیر بنکر یہاں سے روانہ ہوگا۔
حاجی کو جو یہاں سے ملا، وہ یوں ہے :
oحج مبرور والا جنتی۔
oحج میں فسق وفجور سے باز رہنے والا نومولود بچہ۔
حاجی ما بعد حج بچہ ہے، جنتی ہے۔ نیز رحمن کا سفیر ہے ۔بچہ خود مختار نہیں، مادر وپدر کے رحم وکرم پر ہوتا ہے۔ وہ اپنی ہر خواہش میں والدین کے تابع ہوتا ہے۔ حاجی بچہ آئندہ کی زندگی میں اللہ اور رسول کا مطیع بندہ ہے۔ جناب رسول اللہ نے دنیا میں جنتی کسے فرمایا؟ جس کا رشتہ رحمن سے بھی جڑا ہوا ہو اور اپنے ارحام واقرباء سے بھی۔ وہ بندوں کو جوڑنے والا ہو، توڑنے والا نہ ہو، رحمن کا ارشاد ہے:
’’جو رحم اور رشتوں کو توڑے گا، رحمن اسے توڑے گا۔‘‘
رحمن کا مہمان جب رحمن کا سفیر بنا تو رحمن کیلئے سفارتکاری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے گھر سے جو عالمین کیلئے ہدایت کا منبع ہے، وہ جہاں سے لوٹنے والا ہے۔ وہ جہاں جہاں جائے، وہاں پر اسی ہدایت کو پھیلانے والا ہو۔ حج تو آئندہ کیلئے رحمن کی اطاعت کا معاہدہ ہے۔ یہی تو ہے جو حاجی اللہ کے گھر میں آکر کرتا ہے۔ ما بعدحج تمام عمر اس عہد کی وفاداری ہی حاجی کا شعار رہے۔ یہی حج کے وہ عظیم منافع ہیں جنہیں تقسیم کرنے کی خاطر رحمن نے اپنے بندوں کو یہاں پر بلایا اور انہیں اپنا مہمان بنایا۔ انہی کے حصول کی خاطر ہر سال لاکھوں فرزندانِ ملتِ اسلامیہ اکنافِ عالَم سے حرمین شریفین کی مقدس سرزمیں کا قصد کرتے ہیں۔ ان عظیم منافع کی مقدار افرادِ ملت مابعد حج اگر اسی شعور کیساتھ رہیں تو ملت کی نشأتِ ثانیہ اور امتِ محمدیہ کی رفعت کی بحالی اور عظمت رفتہ کو لوٹانے کیلئے زیادہ وقت درکار نہیں۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حج سے متعلقہ افراد سے ہماری کیا مراد ہے ؟اولین طورپر ہماری مراد حجاج کرام ہیں، دوسرے نمبر پر ان کی خدمت پر مامور لوگ اور منتظم ادارے ہیں ،وہ گروپس لیڈران ہوں یا حکومتی اور غیر حکومتی ادارے ۔ وہ لوگ جو حجاج کی خدمت کرکے کاروبارکر رہے ہیں یا وہ لوگ جو حجاج کی خدمت رضا کارانہ طور پر کرتے ہیں۔اسی طرح وزارت حج یا حج مشنزکے ملازمین یا ان کے نمایاں افراد ۔ وہ وزیر حج ہوں‘سیکریٹری حج ہوں یا ڈی جی حج صاحبان ۔ان سبھی کا ہدف یہ ہو کہ ہمارے حجاج تربیت یافتہ ہوں اور ہمیں اور ہماری امت کو حج کے عظیم مقاصد اور ثمرات حاصل ہوںجن کے پیش نظر حجاج کی تربیت ہو اور امت مسلمہ کا حج کے مقاصد اور منافع سے کما حقہ استفادہ بھی ہو۔
ہم واضح طورپر کہتے ہیں کہ یہ دونوں ہدف وقتی محنت یا غیر منظم جدوجہد سے کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتے ۔ان کیلئے وقتی جدوجہد اور وہ بھی صرف حج موسم میں کبھی بھی نفع بخش تجارت نہیں ہوسکتی ۔ اس لئے کہ حضرت انسان جس کے منتخب افراد ہی حج کیلئے آتے ہیں اور وہ پوری امت مسلمہ کے جغرافیائی ،لسانی اور تمدنی نمائندہ بھی ہوتے ہیں، ان سب کو ایک ہی جگہ،ایک ہی قسم کے مناسک کا پابند کیا گیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ فریضہ حج پوری امت مسلمہ کیلئے اپنے اندر خصوصی تربیتی اور اصلاحی بے شمار منافع اور ثمرات کو لئے ہوئے ہوتا ہے لہذا حج اور اس سے متعلقہ اداروں کو اس شرعی حقیقت کے ادراک کے بعد ایسی جدوجہد کرنی ہے جس کا اولین پہلو حجاج کی جامع تربیت ہو تاکہ یہ حجاج حج کے بعد لوٹیں تو امت کو مطلوبہ ثمرات یقینی طورپر حاصل ہوسکیں۔
یقین کرلیں کہ حضرت انسان جو ظاہر اور باطن سے مرکب مخلوق ہے اور اپنا قلب اور قالب دو جہتی وجود رکھتاہے ،اس کی اصلاح کے دونوں پہلوؤں کو جب تک مد نظر نہ رکھا جائے اور اس کیلئے مناسب نہ کی جائے اس کی اصلاح ممکن نہیں ۔حج کا عمل اور اس کے مختلف مراحل حضرت انسان کے ظاہر وباطن،اس کے قلب وقالب کی اصلاح کیلئے ایسا کامل اور جامع مدرسہ ہے جس کے مختلف مراحل سے گزر کر حضرت انسان،انسانِ کامل،انسانِ صالح،انسانِ نافع،اپنی امت مسلمہ کیلئے عموماً اور اپنے اپنے معاشروں،سو سائٹیوںاور علاقوں اور ملکوں کیلئے خصوصاً حاجی ایک نفع بخش،باکردار انسان بن کر حج کے مدرسے سے فارغ التحصیل ہوکر لوٹ سکتے ہیں لہذا حج سے متعلقہ افراد اور اداروں کو مذکورہ اہداف کو اپنا مطمح نظر بناکر اس کے حصول کی محنت کرنے کی ضروت ہے لہذا حج سے متعلقہ عناصر وہ حجاج ہوں،ان کے لیڈران ہوں، وزارت حج ہو، حج مشنز ہوں، سب کی جدوجہد مسلسل اور پورا سال اسی دائرے کے گرد مرکوز رہنی چاہئے ۔
حج سے بہتر موقع ہمیں سال کے دیگر کسی موسم میں حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ حج کے ایام اور اعمال باری تعالیٰ نے حضرت انسان کے قلب وقالب کی تربیت اور اصلاح ہی کیلئے مقرر کئے ہیں اسی لئے تو حضورنے فرمایا کہ حاجی نو مولود بچہ بن کر واپس ہوتاہے تو اعمال حج کی یہ قوتِ صفائی ہی ہے جو بوڑھے کو بچہ بناکر واپس کرتی ہے اور گنہگار کو جنتی بناکر ۔ حج سے متعلقہ تمام افراد اور اداروں کو اس ہدف سے حاجی کی تربیت کرنا ہے کہ وہ معصوم بچہ اور جنتی انسان بن کر واپس ہو جس کیلئے صرف مناسک حج کا بیان ناکافی عمل ہے،جب تک حجاج کرام کی ایمانی اور روحانی تربیت اور تزکیہ وطہارت کا مناسب بندوبست نہ ہو ۔حضرت انسان کو صالح انسان بنانے کیلئے جس قدر علم اور اس کے اندر کے ایمان ویقین، باطن کے تزکیہ، اخلاقی طہارت،قلب کے نور اور قالب کی اخلاقی تحسین وتجمیل کی ضرورت ہے، حج میں اس کیلئے بہترین مواقع میسر ہیں ۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج ہماری اس دنیا میں اور ہمارے اسلامی ممالک میں مختلف ادارے علم وتعلیم ، تربیت وتزکیہ کے عناوین سے جو کام کررہے ہیں،حج ایک جامع مدرسہ ہونے کی وجہ سے ان سبھی مواقع کو سمیٹے ہوئے ہے ۔ کاش کہ ان سے کماحقہ استفادہ کیا جائے۔ ہماری گزارش ہے کہ حجاج کرام کا جس روز سے حج کے منتظم افراد یا اداروں سے تعلق قائم ہو،ان سبھی کے پیش نظر رہے کہ ہمیں ان حجاج میں درست علم،راسخ ایمان، اس کے ساتھ حلم،پھررفاقت وسفر کے آداب،ان کے اندر تواضع وانکساری، عفو ودرگزر، ان تمام صفات سے انہیں آراستہ کرنے کی ہمہ تن کوشش کرنا ہے ۔
انہیں روزِ اول سے ہی اس کیلئے تیارکرناہے کیونکہ حج وہ عظیم عبادت ہے جس کے بارے میں سیکھنے سکھانے کے عمل کا آغاز مناسک حج کی ادائیگی سے بہت پہلے شروع ہوجاتاہے ۔ ہمیں سب سے پہلے حاجی صاحبان کو یہ باور کرانا ہے کہ حج کیلئے مالی اور جانی استطاعت ضروری ہے اوراس کیلئے ذہنی،فکری، علمی اوراخلاقی تیاری بھی ۔مالی استطاعت میں صرف یہ نہیں کہ وہ جیسے چاہے اور جہاں سے چاہے مال اکٹھا کرکے حج کیلئے رختِ سفر باندھ لیں بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ طاہر اور پاکیزہ مال ہو، جو جائز اور حلال ذرائع سے حاصل ہو۔ مال کے حلال وحرام کے راستوں کو خلط نہ کرنا اور خالص حلال مال کے حصول میں اہتمام کے بعد پھر دوسرا امر یہ کہ جس طرح ہر عبادت کو اس کے مقررہ شرعی طریقہ سے اداکیا جاتاہے اور اس میں اعمال کے نبوی طریقہ کو اپنانا ضروری ہے، اسی طرح فریضہ بھی ہے کہ جناب نبی کریمنے فرمایا کہ تم مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو ۔
پھر حج کا سفر دنیا سے کنارہ کشی کا سفر بھی نہیں کہ حاجی اپنے ماحول سے بے خبر اور اپنی ذمہ داریوں سے یکسر فارغ ہوکر اس سفر پر نکل جائے بلکہ حج کی فرضیت کیلئے شرط ہے کہ اس کے اہل وعیال اور زیر کفالت لوگوں کے اخراجات کا وہ بندوبست کرکے رختِ سفر باندھے ۔تمام قاصدینِ حج کو اسی طرح حج کے مناسک کو سیکھنا ہے ،جس طرح وہ ادائیگیٔ صلوٰۃ کو سیکھتے ہیں ۔نبی کریم نے جس طرح نماز کے متعلق فرمایا جیسے تم نے مجھے نماز اداکرتے دیکھا،اسی طرح حج کے بارے میں بھی فرمایا کہ لوگو ! تم مجھ سے مناسکِ حج سیکھ لو۔
حج کے متعلقہ اداروں کو اپنے اپنے شہروں، ملکوں، بستیوں میں حجاج کیلئے مناسک حج کے ساتھ ساتھ مقاصد ِحج کے حصول کیلئے اپنے حجاج کی تربیت کرنا ہے ۔ان کی ایمانی اور اخلاقی تمام پہلوؤں کے اصلاح سے متعلقہ دروس کا اہتمام کریں ۔ انہیں اس عمل کی عظمت اور ا سکے دنیوی اور اخروی فوائد اور اجر وثواب کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔الحمد للہ کہ حج کے مناسک کو سیکھنا کوئی مشکل کام نہیں، چند لمحات میں ان کو سیکھا جاسکتاہے ۔ پھر جب بندۂ مومن دین کے کسی ایک باب کو سیکھتاہے تو اس کے ذہن میں یہ بات اجاگر رہنی چاہئے کہ دین کے ایک باب کا سیکھنا اس کیلئے ایک ہزار نفل نماز کے اجر سے زیادہ ثواب کا باعث ہے ۔ اس اجر کو سامنے رکھ کر سیکھنے والا انسان خود اپنے میں شوق اور نورِ علم سے محظوظ ہوگا اوراس کا یہ علم،علم نافع ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ حجاج کی ایمانی اور خُلقی تربیت نورٌ علیٰ نور ہے ۔ حج کے مقاصد کو برآمد کرانے کا واحد ذریعہ بھی ہے ۔
حجاج کرام کو ان مختلف طبائع اور مختلف اذواق اور مختلف عادات والے لوگوں کیساتھ رہنے کا سلیقہ جاننا بھی ضروری ہے ۔ انہیں سفر کے آداب،ساتھیوں اور رفقاء کے باہمی حقوق اور آپس میں حسن معاملہ ، مل کر جل کر رہنا، اجتماعیت کے ساتھ چلنے کے آداب، سفر میں ممکنہ پیش آنے والی وقتی تکالیف کو برداشت کرنے کا سلیقہ،ان تمام امور کے علم کے ساتھ ساتھ ان کے اندر ان کی عملی تطبیق کی اہلیت کو بھی پیدا کرنا ہمارے حج سے متعلقہ افراد اور اداروں کا فرضِ منصبی ہے جسے کما حقہ ادا کرنے کے بعد ہی وہ اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برآں ہوسکتے ہیں ،ورنہ نہیں ۔ان کی ادائیگی کے بعد ہمیں مقاصد حج اور منافع حج کی امید رکھنا چاہئے ۔