Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین میں مظلوم مسلمانوں کے حالات

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی۔ ریاض
    اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے جنیوا میں ہونے والے اجلاس کے دوران پوری دنیا کو بتایا کہ چین میں10 لاکھ سے زیادہ ایغور مسلمانوں کو ایک بہت بڑے خفیہ حراستی کیمپ نما مقام پر بند کررکھا ہے اور انہیں کوئی حق حاصل نہیں ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق چین میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جاتاہے کہ جیسے وہ ملک دشمن ہوں۔ حال ہی میں چینی حکام نے ایک جامع مسجد کو صرف اس لیے مسمار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے کہ اس کے گنبد اور مینار مشرقی طرز پر بنے ہوئے ہیں، جس کیخلاف ہزاروں مسلمان مسجد کے باہر دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال بھی چین سرخیوں میں تھا جب اس نے اپنی تنگ نظری کے تحت مسلمانوں کو قرآن کریم اور جا نماز حکومتی اداروں کے پاس جمع کرانے کا ظالمانہ حکم جاری کیا ہے، اگرچہ چینی حکام نے ہمیشہ کی طرح اس کی تردید کی ہے۔
     تاریخ شاہد ہے کہ چین اپنے ظالمانہ کردار کو دنیا کے سامنے ہمیشہ چھپانے کی کوشش کرتا رہا ہے، چنانچہ اس وقت بھی اس نے عالمی میڈیا پر ہی غلط بیانی کا الزام عائد کرکے ان خبروں کو غلط قرار دیا ہے حالانکہ چین کی ظالمانہ پالیسی کو پوری دنیا حتیٰ کہ چین کے باشندے بھی کبھی نہیں بھول سکتے۔3اور4جون1989ء کو رونما ہونے والے اُس واقعہ کے عینی شاہدین آج بھی دنیا میں موجود ہیں جب چین کی حکومت کے خلاف بیجنگ شہر کے مشہور چوک پر طلبہ نے مظاہرہ کیا تھا ،جو اُن کا قانونی حق تھا، تو چین کی فوج نے حکومت کے اشارہ پر بندوقوں اور ٹینکوں کے ذریعہ پُرامن مظاہرہ کرنے والے اپنے ہی ملک کے ہزاروں طلبہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ تائیوان اور تبت پر ابھی تک ناجائز قبضہ چین کے ظالم ہونے کی کھلی دلیل ہے۔ اسی طرح چین ہندوستان کے ’’اکسائی چن‘‘ پر قبضہ کیے ہوئے ہے اور اپنی ہٹ دھرمی دکھاکر وقتاً فوقتاً سرحد پر کشیدگی پھیلاتا رہتا ہے۔چند ماہ قبل بھی چین کے سخت رویہ سے ہندوستان اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہی ہوا تھا۔ مسلمانوں پر تو چین کے مظالم کی ایک طویل داستان ہے جس کی خبریں وہ 2ہزار کیلومیٹر پر محیط دیوار چین کے باہر جانے سے روک دیتا تھا، مگر سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے زمانہ میں چین کی طرف سے مسلمانوں پر ہورہے مظالم کی خبریں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں۔ سیکڑوں سال کی تاریخ شاہد ہے کہ چین نے ہمیشہ مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ آئیے چین میں مظلوم مسلمانوں کے حالات سے آگاہی حاصل کریں کیونکہ دنیا کے لیے باعث رحمت حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے (بخاری) ۔اسی طرح فرمان رسول ہے: مؤمنین کی مثال ان کی دوستی، اتحاد اور شفقت میں بدن کی طرح ہے۔ بدن میں سے جب کسی حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا بدن نیند نہ آنے اور بخار چڑھ جانے میں اس کا شریک ہوتا ہے(مسلم)۔
    مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے چین کو 2حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک مشرقی ترکستان کا علاقہ ، جس کی سرحدیں منگولیا، روس، قازقستان، کرغستان، تاجکستان، افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور تبت سے ملتی ہیں۔ اس صوبہ کو اب سنکیانگ یا شنجیانگ (Xinjiang) کہتے ہیںجس پر عرصۂ دراز تک مسلمانوں کی حکومت رہی ہے اور چین نے اس علاقہ پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے۔ اس علاقہ میں ترکی النسل مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد رہتی ہے۔ اس صوبہ کا دارالحکومت ارومچی ہے جبکہ کاشغر سب سے بڑا شہر ہے۔ دوسرے وہ مسلمان ہیں جو مشرقی ترکستان کے علاوہ چین کے دیگر مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، جن کی تعداد بہت زیادہ نہیں ۔ مجموعی طور پر پورے چین میں تقریباً10 کروڑ مسلمان رہتے ہیں، حالانکہ چین کی حکومت 3کروڑ بتاتی ہے جو خلافِ حقیقت ہے۔ اگر غیر سرکاری اعداد وشمار کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو چین میں موجود مسلمانوں کی تعداد مصر کی آبادی سے بھی زیادہ ہوگی جو تمام عرب ممالک میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے ۔
    آج سے تقریباً14سو سال قبل 29ہجری میں چین میں اسلام کا پیغام اُس وقت پہنچا جب تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کا پیغام پہنچانے کی غرض سے ایک وفد چین ارسال کیا تھا۔ اس کے بعد بھی وفود بھیجنے کا سلسلہ جاری رہا۔ نیز اس دوران مسلمانوں نے تجارت کی غرض سے بھی چین کے سفر کیے۔ اس طرح چین کے بعض علاقوں میں لوگوں نے دین اسلام کو ابتدائے اسلام سے ہی قبول کرنا شروع کردیا تھا۔ بعد میں چین کے بیشتر علاقوں میں دین اسلام کو ماننے والے موجود ہوگئے۔ مشرقی ترکستان (سنکیانگ) جس پر چین نے آج تک قبضہ کررکھا ہے، کو اموی خلیفہ ولید بن مالکؒ کے دور میں قتیبہ بن مسلم الباہلی ؒ نے94-93 ھ میں فتح کیا تھا۔ ترکستان کے معنیٰ ترکوں کی سرزمین کے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ترکستان کو مغربی ومشرقی ترکستان میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مغربی ترکستان وہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے جس پر سوویت یونین (روس) نے قبضہ کرلیا تھا، جو1991ء میں آزاد کردیا گیا جبکہ مشرقی ترکستان ابھی تک چین کے قبضہ میں ہے۔ اس علاقہ پر18ویں صدی کے وسط میں چنگ سلطنت نے قبضہ کرلیا تھا اور ’’سنکیانگ‘‘ یعنی نئے صوبہ کا نام دیا تھا۔ اس علاقہ میں آباد ایغور ترک کی آبادی بتدریج کم ہوتی جارہی ہے، حالانکہ1948ء میں ان کی آبادی خطے کی آبادی کا 98 فیصد تھی۔ یہ صوبہ چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کی آبادی تقریباً 3کروڑ ہے۔ اس علاقہ میں پٹرول، کوئلے اور یورینیم کے ذخائر ہونے کی وجہ سے چین کی اقتصادی اور عسکری حالت کافی حد تک اس علاقہ پر منحصر ہے۔
    مشرقی ترکستان (جو اِس وقت چین کے قبضہ میں ہے) میں طویل عرصہ تک مسلمانوں کی حکومت رہنے کی وجہ سے اس علاقہ کی بڑی تعداد مسلمان ہے لیکن1644ء میں مانچو خاندان کے قبضہ کے بعد سے مسلمانوں کے حالات خراب ہوگئے۔1648ء میں پہلی مرتبہ اس علاقہ کے باشندوں نے مذہبی آزادی کا مطالبہ کیا جو قانونی طور پر اُن کا حق تھا، جس کی بنا پر ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ 1760ء میں چین نے مشرقی ترکستان پر قبضہ کرکے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا۔ متعدد مرتبہ مسلمانوں نے اس علاقہ کو حاصل کیا، 1875ء میں چین کے ظالموں نے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو قتل کرکے پھر قبضہ کرلیا۔1931ء میں مسلم خواتین پر مظالم کی وجہ سے ایک بار پھر چین کی حکومت کے خلاف مسلمانوں نے حق کی آواز بلند کی جو آہستہ آہستہ پورے علاقہ میں پھیل گئی ، اور12 نومبر 1933ء کو اس علاقہ کو مسلمانوں نے حاصل کرلتگ لیکن چین نے روس کی مدد سے15 اگست 1937ء کو ہزاروں مسلمانوں کو شہید کرکے اس علاقہ پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ 1944ء میں اس علاقہ کی آزادی کے لیے ایک بار پھر آواز بلند کی گئی مگر چین نے روس کے تعاون سے اس تحریک کو کچل دیا۔ 1946ء میں ’’مسعود صبری‘‘ کی سرپرستی میں جزوی آزادی دی گئی مگر 1949ء میں اس علاقہ پر چین نے مسلمانوںسے لمبی جنگ کے بعد پھر قبضہ کرلیا۔ بعض علاقوں میں مسلسل20 روز تک جنگ چلی۔ 1949ء میں چین پر کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد
 سے چین خاص کر مشرقی ترکستان میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر پابندی عائد کردی گئی۔ ان کے دینی اداروں کو بند کردیا گیا۔ مساجد فوج کی رہائش گاہ بنا دی گئیں۔ ان کی علاقائی زبان کو ختم کرکے چینی زبان اُن پر تھوپ دی گئی۔ شادی وغیرہ سے متعلق تمام مذہبی رسومات پر پابندی عائد کردی گئی۔ کمیونسٹوں کا ایک ہی ہدف رہا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات کو بند کیا جائے حالانکہ قرآن کریم انسانوں کی ہدایت کے لیے ہی نازل کیا گیا ہے۔ چین کے مسلسل مظالم کے باوجود اس علاقہ کے مسلمان اپنی حد تک اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ 1966ء میں جب مسلمانوں نے کاشغر شہر میں عید الاضحی کی نماز پڑھنے کی کوشش کی تو چین کی فوج نے اعتراض کیا اور گولیاں برساکر ہزاروں مسلمانوں کو شہید کردیا جس کے بعد پورے صوبہ میں انقلاب برپا ہوا اور چین کی فوج نے حسب روایت مسلمانوں کا قتل عام کیا، جس میں تقریباً75 ہزار مسلمان شہید ہوئے۔
    غرضیکہ چین نے مسلمانوں کی کثیر آبادی والے علاقہ ’’مشرقی ترکستان‘‘ پر ناجائز قبضہ کرکے پٹرول، کوئلے اور یورینیم کے ذخائر کو اپنے قبضہ میں کر رکھا ہے اور وقتاً فوقتاً وہاں کے مسلمانوں پر مظالم ڈھاتا رہتا ہے۔ مسلمانوں کی اجتماعیت کو تقریباً ختم کردیا ہے۔ لاکھوں افراد کو اب تک قتل کیا جاچکا ہے۔ حال ہی میں یہ فرمان جاری ہوا ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نماز پڑھنے کے لیے جانماز کو بھی اُن کے حوالے کردیں، یعنی اپنے گھر میں انفرادی عبادت بھی نہ کریں جو عالمی قوانین کے بھی سراسر خلاف ہے۔ اس وقت چین میں بڑی تعداد لا مذہب کی ہے، یعنی وہ کہتے ہیں کہ بلّی، کتے اور بندر کی طرح انسان کی پیدائش کا کوئی مقصد ہی نہیں ، یعنی جو چاہے جس پر ظلم کرے، جو چاہے جس کا مال چرائے، جس کو چاہے نا حق قتل کردے، مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں اس لیے اس کی کوئی پکڑ نہیں ہوگی حالانکہ عقل سے بھی سوچنا چاہئے کہ ہمارا ایک چھوٹا سا کام بھی کسی مقصد کے بغیر نہیں ہوتا ، نیز گھر، خاندان، صوبہ اور ملک کے نظام کو چلانے کے لیے ایک طاقت درکار ہوتی ہے ، تو دنیاکا اتنا بڑا نظام خود بخود کیسے چل سکتا ہے؟ سورج کا اپنے وقت پر طلوع ہونا اور غروب ہونا، کروڑہا کروڑ ستاروں کا نکلنا، دنیا کے تین چوتھائی حصہ میں پانی کا ہونا، ہواؤں کا چلنا کسی طاقت کے بغیر کیسے وجود میں آگئے؟ زمین کے اندر طرح طرح کے ذخائر کہاں سے آگئے؟ زمین میں پیداوار کی صلاحیت کہاں سے پیدا ہوگئی؟ حضرت انسان کیسے اور کیوں پیدا ہوگئے؟ حضرت انسان مر کیوں جاتے ہیں؟ روح یعنی جان کس چیز کانام ہے؟ یہ کونسی چیز ہے کہ جس کے جسم سے نکلنے کے بعد آنکھ دیکھ نہیں سکتی، زبان بول نہیں سکتی، کان سن نہیں سکتے، ہاتھ پیر چل نہیں سکتے ،نیز جب دنیا کی ہر ہر چیز کا فنا ہونا یعنی ختم ہونا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو دنیا بھی تو ایک دن ختم ہونی چاہئے۔دنیا کے ختم ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ اور ظاہر ہے کہ اتنے بڑے نظام کے چلنے چلانے کا آخر کوئی تو مقصد ہونا چاہئے اور اتنا بڑا نظام خود بخود کیسے اور کیوں چل سکتا ہے؟ خالق، مالک ورازق کائنات کا ارشاد ہے:
    ’’بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے اُن کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں، چاہیں آپ ان کوڈرائیں یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے،اللہ نے اُن کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور اُن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور اُن کے لیے زبردست عذاب ہے۔ ‘‘(البقرۃ7,6) ۔
    مسلمانوں کو ناامید نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ، ہاں اپنی ذات سے شریعت اسلامیہ پر عمل کرتے ہوئے دنیا
 کے مختلف حصوں میں آباد مسلمان خاص کر چین اور برما کے مظلوم مسلمانوں کو اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
مزید پڑھیں:- - - - -امت مسلمہ کا شیرازہ اورہماری ذمہ داری
                           

شیئر: