Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بھوک اور جعلی انا

وسعت اللہ خان
انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پچھلے43 برس سے دنیا میں بھوک اور غربت کی رپورٹنگ کر رہا ہے اور اس بابت ماہرین کے تجویز کردہ حل بھی پیش کرتا ہے۔انسٹی ٹیوٹ ہر سال گلوبل ہنگر انڈیکس ( بھوک کا عالمی اشاریہ ) بھی جاری کرتا ہے۔ اگرچہ س 2000ء  سے اب تک  بھوک کی شرح میں29 فیصد کمی آئی ہے مگر آج بھی اس کرہِ ارض پر80 کروڑ انسان  رات کو بھوکے سوتے ہیں۔ حالانکہ ان سب کا پیٹ بھرنے کے لئے اناج بھی ہے ، وسائیل بھی ہیں ، ٹیکنالوجی بھی ہے۔ سیاسی ارادے کی کمی ، نیت کے کھوٹ اور بدانتظامی پر قابو پا لیا جائے تو کل رات  سے اس کرے پر  کوئی بھی بھوکا نہ سوئے۔
یہ سن کے دکھ اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ ہماری زمین جو خوراک پیدا کرتی ہے اس کا ایک تہائی  کھیت سے پیٹ تک نہیں پہنچ پاتا۔کہیں راستے میں ہی کسی نہ کسی مرحلے پر ضائع ہوجاتا ہے۔اس ایک تہائی خوراک کو پیدا کرنے میں جو سرمایہ ، محنت ، پانی ، بیج ، کھاد ، زرعی ادویات استعمال ہوتی ہیں ان کا زیاں الگ۔مگر وہ جو کہتے ہیں کہ خواہشوں کے پر ہوتے تو سور بھی پرواز کر رہے ہوتے۔
2015ء میں پیرس میں عالمی سربراہوں نے عہد کیا کہ2030ء  تک دنیا سے غربت اور بھوک کا خاتمہ کردیا جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ2030ء کے بعد خطِ غربت کی تعریف بھی بدل جائے گی جو اس وقت یہ ہے کہ اگر کسی شحض کی روزانہ آمدنی دو ڈالر ہے تو وہ غریب ہے اور ایک ڈالر ہے تو نہائیت غریب۔اور اگر کسی مرد کو روزانہ1800 کیلوریز سے کم اور عورت کو 1200کیلوریز سے کم غذائیت مل رہی ہے تو وہ ناکافی غذائیت اور بھوک  کے گرداب میں ہے۔بچوں کو بڑھوتری کے زمانے میں معیاری غذا  نہ ملے تو اثرات زندگی بھر محسوس ہوتے رہتے ہیں۔بالخصوص پندرہ برس کی عمر تک کے ناکافی غذائیت کے شکار بچے کا وزن اور قد نارمل سے کم رھ جاتا ہے اور ذہنی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔جسمانی مدافعتی نظام بیماریوں کا پوری طرح مقابلہ نہیں کر سکتا۔ناکافی غذائیت کی شکار بچیاں صحت مند مائیں نہیں بن پاتیں۔ یوں ایک نسل کی کمی اگلی نسل میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔
جس دنیا میں آج رات80 کروڑ لوگ بھوکے سوئیں گے اسی دنیا میں آج رات پکے ہوئے کھانے کی 40 فیصد مقدار بھی ضائع ہو جائے گی۔( اسلام آباد کے ایک فائیو ا سٹار ہوٹل آج بھی900 کلو گرام کے لگ بھگ کھانا ضائع کرے گا۔اس سے آپ پورے ملک کے حال کا اپنے کچن سمیت اندازہ لگا سکتے ہیں )۔
  دنیا کے2 علاقے اس وقت بھوک سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔صحارا پار سیاہ فام افریقہ اور جنوبی ایشیا۔انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی بھوک رپورٹ  میں ملکوں کی ہنگر گریڈنگ کرتے ہوئے چار عناصر کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔یعنی شرحِ غربت ، بے روزگاری کا تناسب ، صاف پانی تک رسائی اور صحتِ عامہ کی سہولیات۔اس اعتبار سے118ممالک کی فہرست میں سب سے نیچے سنٹرل افریقن ری پبلک ، چاڈ اور زمبیا ہیں جہاں لگ بھگ 45 فیصد آبادی بھوک اور ناکافی غذائیت کے بقائی مسئلے سے دوچار ہے۔مگر اچھی خبر یہ ہے کہ روانڈا ، کمبوڈیا اور برما میں گذشتہ پندرہ برس کے دوران بھوک اور غذائیت کی کمی دور کرنے  میں 50 فیصد تک پیش رفت ہوئی ہے۔
پاکستان کی لگ بھگ 6 کروڑ آبادی ( تقریباً 30 فیصد ) خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ( یعنی وہ لوگ جن کی ماہانہ آمدنی 3 ہزار روپے سے کم ہے )۔
پاکستان میں2001ء  میں یہ کہا جاتا تھا کہ سو میں سے تریسٹھ فیصد لوگ غربت کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔آج کہا جا رہا ہے کہ اب صرف30 فیصد کے لگ بھگ غریب رھ گئے ہیں۔تو کیا یہ سمجھا جائے کہ گزشتہ 17برس میں پاکستانی غریبوں کی تعداد میں33 فیصد کمی ہو چکی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر باقی دنیا کو بھی پاکستان کی تقلید کرتے ہوئے سیکھنا چاہئے کہ غربت کیسے کم کی جاتی ہے ؟ اتنی جلد تو ڈبل شاہ رقم دگنی نہیں کرتا تھا جتنی جلد پاکستان میں غریبوں کی تعداد آدھی رہ گئی۔
اگر واقعی پاکستان  میں شرحِ غربت کم ہوئی ہے تو اس عرصے میں بھوکوں کو کھانا کھلانے والے اداروں میں اضافہ کیوں ہوگیا ؟ پاکستان نے21ویں صدی کے شروع میں انسانی ترقی کے لئے2015ء تک جومیلینیئم اہداف پورے کرنے کی حامی بھری تھی۔15 برس بعد ان اہداف میں سے بمشکل 20 فیصد پورے ہوئے۔پھر بھی پاکستان نے پچھلے برس مروتاً یہ حامی بھر لی کہ دو ہزار تیس میں غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔شاید اس بار یہ آس باندھی  گئی ہے کہ بابا سی پیک لائے گا غربت مٹائے گا۔
اچھا چھوڑئیے اس بک بک کو۔ایک کام کرتے ہیں۔کل سے گھر میں جتنے نفوس ہیں ان سے زیادہ کا کھانا نہیں پکے گا۔اگر پکے گا تو اگلے وقت وہی کھایا جائے گا یا کسی ضرورت مند کو دیا جائے گا۔اس طریقے سے پاکستان کی مڈل کلاس ، اشرافیہ اور ریستوراں روزانہ سب کی نہیں تو کم ازکم ایک ملین لوگوں کی بھوک مٹا سکتے ہیں۔جو ویہلے نوجوان ادھر ادھر بیٹھے ٹیم پاسی کرتے رہتے ہیں وہ مقامی سطح پر چھوٹی چھوٹی تنظیمیں تشکیل دے سکتے ہیں اور یہ تنظیمیں اضافی کھانا مقامی سطح پر ایک کے ہاں سے جمع کر کے دوسرے تک انفرادی یا اجتماعی انداز میں پہنچا سکتی ہیں۔
اب آپ کہیں گے کہ یہ تو قوم کو بھکاری اور ہڈ حرام بنانے کی تجویز ہے۔چلئے میں تجویز واپس لے لیتا ہوں۔آپ زرا کھانے کا انتظام کر دیجئے۔یا پھر خود مہینہ بھر روزانہ ایک بار  بھوکے رہنے کی مشق کر کے دیکھئے۔تاکہ ایک پلڑے میں جعلی انا اور دوسرے میں بھوک کا وزن ہو سکے ( میں ڈائٹنگ کی بات نہیں کر رہا )۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں