ہمارے ہاں کہیں بھوت اسکول ہیں تو کہیں بھوت اساتذہ
عنبرین فیض احمد۔ ینبع
تعلیم بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے ۔ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ علم حاصل کرے ، کوئی یہ حق اس سے چھین نہیں سکتا۔ یہی وہ دولت ہے جو کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ تعلیم ہر دور کی ضرورت رہی ہے مگر آج کے ترقی یافتہ دور میں تعلیم کچھ زیادہ ہی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ دنیا کا کوئی ملک یا معاشرہ ایسا نہیں جہاں تعلیمی ادارے نہ ہوں ۔ اسی کے ذریعے نئی اور پرانی ثقافت میں فرق کیا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ ہنر بھی سکھایا جاتا ہے جو روزگار کا ذریعہ بنتا ہے۔
ہمارے ملک کو آزاد ہوئے کئی دہائیاں گزر چکی ہیں ۔اس کے باوجود شرح خواندگی میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر نئی آنے والی حکومت اسکول اور کالج تو قائم کردیتی ہے لیکن معیار تعلیم بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔ جہاں تک اسکولوں میں بچوں کے پڑھنے اور سیکھنے کی بات ہے تو غیر معیاری تعلیم کی وجوہ میںحکومت کی جانب سے تعلیم کیلئے مختص کئے جانے والے فنڈز کی کمی، وسائل کی قلت ، خراب تعلیمی انفرااسٹرکچر ، تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی اور سب سے بڑھ کر تعلیم حاصل کرنے کے مقاصد کو سمجھنے کی کمی شامل ہیں۔ یہ وہ چند عوامل ہیں جو وطن عزیز میں اسکولوں سے باہر بچوں کی بڑی تعدادکے موجود ہونے اور ان کی غیر معیاری تعلیم کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں۔
ملکی منظر نامے پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تعلیم ہمارے کسی بھی دور کے حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہی۔ تعلیم پر اب بھی قومی بجٹ کا انتہائی قلیل حصہ خرچ کیا جاتاہے پھر بھلا تعلیم کا حشر ایسا نہ ہو تو کیسا ہوگا ؟ ترقی اس وقت ہی ممکن ہے جب ملک کا ہر بچہ تعلیم حاصل کرے۔ افسوس ایسا نہیں ہے۔ تعلیمی نظام کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ا بتدائی درسگاہوں سے لے کر جامعات تک طلباوطالبات کو معیاری تعلیم کی وہ سہولتیں حاصل نہیں جو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں میسر ہیں۔ اس کے باوجود والدین اپنے بچوں کو اچھی سے اچھی تعلیم دلانے کیلئے جو کچھ کرسکتے ہیں، وہ سب کے سامنے ہے۔ بچوں کا مستقبل سنوارنے کیلئے بے چین رہتے ہیں، کوئی کسر نہیں چھوڑتے کہ ان کا مستقبل تاریک نہ ہوجائے لیکن ہمارے ذمہ داران خواب خرگوش سے بیدار ہی نہیں ہوتے۔ ہاں اعلانات ضرور ہوتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔
تعلیم جیسے اہم اور حساس شعبے پر جس طرح توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ نہیں دی جارہی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں تقریباً ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ شرح خواندگی میں تشویشناک حد تک کمی پر حکومت کو غور کرنا چاہئے ۔ ترجیحات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 160 ویں نمبر پر ہے جہاں شرح خواندگی 55 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں صرف ایتھوپیا، یوگنڈا اور نائیجریا جیسے پسماندہ ترین ممالک ہی پاکستان سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ اعدادوشمار ہمارے لئے باعث شرمندگی ہیں کہ ہم کتنے پیچھے ہیں۔ دیکھا جائے تو ذہانت اور ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ جس کو ٹیلنٹ دکھانے کا موقع ملتا ہے وہ انتہائی ترقی یافتہ ممالک کے باشندوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں سب کچھ ہے ، نہیں ہے تو مناسب تعلیم و تربیت کا معقول اور موثر نظام نہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو بے شمارواقعات ہمارے سامنے آئے ہیں مگر ان سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ جب اسکولوں، کالجوں میں غیرسند یافتہ اساتذہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوں تو وہاں تعلیمی اصلاحات کیونکر ممکن ہوسکتی ہیں؟
دھنک کے صفحہ پر جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ راولپنڈی کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ اسکول کی طالبات اسکول میں اساتذہ کی عدم موجودگی پر احتجاج کررہی ہیں۔ ان بچیوں کا مطالبہ ہے کہ وہ کتنی دور سے حصول علم کیلئے آتی ہیں ، والدین اس مقصد کیلئے انہیں اسکول بھیجتے ہیں مگر انہیں علم کی روشنی دینے والا کوئی نہیں، قیمتی وقت کا ضیاع ہورہاہے۔
ہمارے ہاں زیادہ ترسرکاری تعلیمی ادارے ہمیشہ سے ہی عدم توجہی کا شکار رہے ہیں۔ آئے دن اس طرح کی خبریں آتی ہیں کہ ان میں جانور بندھے ہیں تو کہیں اسکول کی عمارت کو شادی ہال میں تبدیل کردیاگیا ہے ۔ تعلیمی اداروں کی خستہ حالی یا پھر اساتذہ کی کمی تو عام سے بات ہے۔ لازمی سی بات ہے جہاں بھوت اسکولوں کا وجود ہو، جہاں بھوت اساتذہ باقاعدہ تنخواہیں وصول کر سکتے ہوں،ایسی سہولتوں کی موجودگی میں کوئی بچوں کو تعلیم دینے کے لئے روزانہ اسکول جانے، حاضری لگانے، محنت کرنے اور سر کھپانے کی صعوبت بھلا کیوں برداشت کرے گا۔ بھوت اساتذہ کے شاگرد بھی اسی طرح احتجاج کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ہمارے ہاںکہیں بھوت اسکول ہیں تو کہیں بھوت اساتذہ۔ویسے ہمارے ہاں اسکولوں کی کمی نہیں۔ بااثر افراد انہیں ذاتی تصرف میں لے آتے ہیں جبکہ بچے کھلے آسمان تلے چٹائی پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں ایسے مناظر سب کیلئے ہی باعث شرم ہوتے ہیں۔
ایسی بے بسی ، ناقص انتظام اور نااہلی پورے ملک میں ہی یکساں نظر آتی ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت جو ترقی کا ڈھول پیٹتی رہتی ہے ،اس میں تعلیم کا کتنے فیصد حصہ ہے۔ شرح خواندگی میں اضافہ کئے بغیر تعمیر و ترقی کے علاوہ معاشی حالات میں بہتری کا تصور بھی محال ہے۔ شعبہ تعلیم کسی منصوبہ بندی اور بہتر و متوازن تعلیمی پالیسی سے بھی محروم نظر آتا ہے۔ اس کے منفی اثرات معاشی، سماجی، اخلاقی اور مجموعی طور پر ملکی حالت پر نمایاں نظر آتے ہیں۔ کئی اساتذہ صرف حاضری لگانے اور تنخواہ لینے کی حد تک ہی اسکولوں کا حصہ ہوتے ہیں۔
بعض اساتذہ اپنی تنظیموں اور سیاسی اثرو رسوخ کی بدولت اصل فرائض کی ادائیگی سے آزاد ہوتے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ اس صورتحال کی وجہ سے بچے نصاب کو صحیح طور پر پڑھ نہیں پاتے۔ نتیجتاً فیل ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ ہی نہ ہوں توبھلا طلبہ کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے؟ اساتذہ اور متعلقہ حکام اپنی ذمہ داریاں دیانتداری اور خلوص نیت سے نبھائیں تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا شمار بھی ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں ہونے لگے گا ۔