Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئے دور کی ساس ، برانڈڈ لباس، میک اپ زدہ، بہو سے دو قدم آگے

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
کچھ دہائیاں قبل ساس بہو کیلئے کافی مشکل ہوتی تھی۔ پہلے ساس کی زندگی میں سکون نام کی شے کم نظر آتی تھی۔ نہ تو وہ خود سکون سے جیتی تھیں نہ کسی اور کو سکھ چین کی زندگی بسر کرنے دیتی تھیں۔ ساس کو یہ ڈر اور خوف ہمیشہ کھائے جاتا تھا کہ میرا بیٹا مجھ سے جدا ہوجائے گا ۔ کہا جاتا ہے کہ سانس کی طرح ساس کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ہوتا یعنی پل میں تولہ پل میں ماشہ۔
سیانے کہتے ہیں کہ ماضی میں مچھر اور مکھی کی طرح ساس کی زندگی میں کبھی سکون نہ ہوتا تھا اور نہ دوسروں کی زندگیوں میں سکون دیکھنا پسند کرتی تھیں۔ ادھرگھر میں بہو نے قدم رکھا اورادھر نئے نئے منصوبے بننے شروع ہوجایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ گھر میں اگر کوئی جانور بھی پال رکھا ہو تو اس کا خیال رکھنا بھی بہو کی ذمہ داری ہی قرار پاتا تھا۔ غرض یہ کہ ساس ایک ظالم پولیس انسپکٹر کی طرح سارا دن بہو کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھتیں اور اسے نوٹ کرتی رہتی تھیں اورجہاں اس سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ،فوراً بیٹے کے کان بھرنے پہنچ جاتیں۔ انہی سختیوں کو دیکھتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ ساس کبھی سگی ماں جیسی نہیں بن سکتی لیکن:
بدلتے وقت نے ثابت کردیا کہ ساس اور بہو جیسے کڑوے کسیلے رشتے بھی تبدیل ہوسکتے ہیں ۔پہلے کی نسبت آج کی ساس پڑھی لکھی ، سلجھی ہوئی اور سمجھدار ہوتی ہے جو بہو سے ہر سطح پر مقابلہ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ اب جہاں بھی جاتی ہیں دونوں ساس اور بہو اکٹھے جاتی ہیں مثلاً بیوٹی پارلر جانا ہو یا پھر خریداری کے لئے کسی سپر مارکیٹ کا رخ کرنا ہو، ساس اور بہو دونوں ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں۔ 
آج کل یہ امر عام مشاہدے میں آتا ہے کہ بیوٹی پارلر میں اگر ایک کرسی پر بہو فیشل کروا رہی ہے تو دوسری کرسی پر ساس صاحبہ براجمان ہوتی ہیں۔ اب وہ زمانہ نہیں کہ ساس گھر بیٹھے دیسی ٹوٹکوں پر یقین رکھتی ہو۔ اب تووہ بھی نئے سے نئے بیوٹی پارلرکارخ کرتی ہیں اور وہاں جاکر ایک سے ایک بنا¶ سنگھار کا اہتمام کرتی ہیں۔
جدید دور میں سا س کے تقاضے کسی طور بہو سے کم نہیں۔ ویسے بھی اب وہ زمانہ رہا نہ وہ لوگ۔ نئے دور کے نئے تقاضے ۔ وہ زمانے گئے جب ساس کا نام سنتے ہی ذہن میں خوفناک خاکہ کچھ اور ہی ہوتا تھا یعنی سفید بال، عام اور قدرے سستے اور کاٹن کے ملبوسات پہننے والی ضعیف سی خاتون ۔ مگر اب تو نہایت فیشن ایبل سی ساس بہو سے دو قدم آگے دکھائی دینے والی خاتون، مشہور برانڈز کے ملبوسات اور پرس لئے ہوئے،میک اپ زدہ ، بال رنگے ہوئے او رپھر دیگر فیشن کے تقاضوں سے ہم آہنگ ،اب بہو¶ں سے زیادہ ساس بناﺅ سنگھار کا اہتمام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
بہو اور ساس کے درمیان ایسی مقابلے کے ہوا چلی ہے کہ عمر کا لحاظ کرنا بھی چھوڑ دیا گیاہے۔ پہلے ساس اپنی عمر کی مناسبت سے ملبوسات کا انتخاب کرتی تھیں یعنی ہلکے رنگ کے کپڑوں کے علاوہ کوئی اور رنگ ان کی آنکھوں کو جچتا نہیں تھا مگر اب یہ حالات ہوگئے ہیں کہ بیٹے کی بارات پر ماں کے کپڑے کی چمک دمک دیکھ کر ہی محفل میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ دلہن کی ساس کون ہے۔ اسی طرح پہلے ساسیں شادیوں پر بھی میک اپ سے پرہیز کرتی تھیں مگر اب وہ مہنگے سے مہنگے بیوٹی پارلر سے تیار ہوتی ہیں تاکہ دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ ہوجائیں۔ پہلے ساس کا سارا زور بہو سے گھر کے کام کاج کروانے پر ہوتا تھا اور ہر وقت اس کی کوشش ہوتی کہ اس کی بہو ایک سگھڑ سلیقہ مند بہو بن جائے۔ اس لئے ہر وقت وہ اپنی بہو کو گھر داری اور سلیقہ مندی پر لیکچر دیا کرتی تھی لیکن اب وہ اپنی بہو کو گھر داری کے گُر سکھانے کے بجائے اس سے فیشن پر بات کرتی ہیں۔ بہو نے ایسے کپڑے بنائے تو ہمیں بھی بنوانے چاہئیں یعنی ساس کا دھیان اب بہو کی برابری پر ہوتا ہے۔
ماضی میں گھر پر کھانا پکانے پر زور دیاجاتا تھاکہ گھر کا کھانا سب سے اچھا ہوتا ہے۔ ہر طرح سے جراثیم سے پاک ہوتا ہے ۔ پہلے کہیں باہر بہو نے کھانا کھالیا تو واویلا مچ جاتا تھا مگر اب بہو کے ساتھ ساس بھی ”ڈنر “ کے نام پرباہر کے کھانے کو انجوائے کرتی ہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ریستوران میں بہو کا جانا ہو اور ساس صاحبہ پیچھے رہ جائیں۔ وہ تو سب سے آگے ہوتی ہیں اور خود تجویز کرتی ہیں کہ کس ہوٹل کا کھانا اچھا ہوتا ہے آخر بل تو ان کے بیٹے نے ہی ادا کرناہوتاہے۔
ماضی میں ساس کہتی تھیں کہ ہم بیٹا اور بہو کے ساتھ ہوٹلوں میں گھومتے پھرتے اچھے تھوڑی لگتے ہیں۔ پھر بہو¶ں کو یہ درس دیتی تھیں کہ اچھے اچھے کھانے بناکر شوہر کے سامنے رکھا کرو کیونکہ شوہر کے دل کا راستہ پیٹ سے ہی ہوکرگزرتا ہے لہٰذا اچھے کھانے بناکر شوہر کی خوشنودی حاصل کرو تاکہ زندگی خوشگوار گزرے۔ مگر اب ایسا نہیں۔ بھئی یہ سائنسی دور ہے ، وقت کا پہیہ گھوم رہا ہے۔ دور بدل رہا ہے ۔کبھی ساس کا دور ہوتا ہے تو کبھی بہو کا دور آتا ہے۔ کبھی ساس کا گھر پر راج ہوتا ہے تو کبھی بہو کا۔ دنیا کا یہی دستور ہے۔ 
ماضی میں جس طرح ساس گھر بیٹھ کر اپنی بہو کے گھر واپس آنے کا انتظار کرتی تھیں ، اب ایسا نہیں ہے۔ آج کی ماڈرن ساس خود بھی مختلف تقریبات میں جانا پسند کرتی ہیں۔ پہلے ساس اور بہو میں لڑائی ہوتی تو سارے گھر کو معلوم ہوجاتا تھا مگر اب بیٹے کو بھی معلوم نہیں ہوپاتا کہ ساس اور بہو کے مابین کس نوعیت کی مقابلے بازی چل رہی ہے۔ ماڈرن ساس نے صرف اپنا چولا بدلا ہے، ذہنیت وہی ہے ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک نیا م میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ ساسوں میں تبدیلی تو آئی ہے نیا پن تو ہے مگر سوچ وہی پرانی والی ہے۔ 
پہلے بیٹے اپنی بیویوں کے سامنے ماں کے ہاتھ کے پکائے ہوئے کھانوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ ہر کام میں اپنی ماں کی مثال دیتے تھے مگر اب تبدیلی یہ آئی کہ اکثر نوجوان اپنی والدہ کے ملبوسات کے انتخاب پر فخر کرتے اور کہتے ہیںکہ میری والدہ کو شاپنگ کاڈھنگ آتا ہے ، سیکھو میری امی جان سے کہ کیسے کی جاتی ہے شاپنگ۔ عورت جس نے 25 یا 30 سال ایک گھر میںحکمرانی کی ہوتی ہے اپنے گھر کی ساری ذمہ داری بخوبی نبھائی ہوتی ہے لیکن جب بہو کی شکل میں ایک فرد کا گھر میںاضافہ ہوتا ہے اور ساس کی ذمہ داریاں بانٹنے کے ساتھ گھر میں اس کی اپنی اہمیت اور ساکھ بھی بٹنے لگتی ہے ، توایسے میں ساس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گھر میں اس کی اہمیت کم ہونے لگی ہے اور بہو اپنے شوہر اور اس کے بیٹے پر اس سے زیادہ حق جتانے لگی ہے۔ اس لئے بہو کو چاہئے کہ و ہ اپنی ساس کا نکتہ نظر سمجھنے کی کوشش کرے ۔ رویوں کی تبدیلی کی وجہ سے ساس بھی برداشت نہیں کر پاتیں۔ اس لئے شاید ماڈرن ساس اپنی زندگی بھرپور طریقے سے گزارنے کی قائل ہیں اسی لئے اپنی زندگی میں کسی کی مداخلت بھی برداشت نہیں کرتیں۔ 
 

شیئر: