مودی اور امیت سے آر ایس ایس ناراض
***سید اجمل حسین***
کوئی بھی سیاسی پارٹی خواہ وہ حکمراں ہو یا حزب اختلاف اور اس میں اعتماد کوٹ کوٹ کر کیوں نہ بھرا ہو وہ یہ بات ضرور جانتی ہے کہ کون سا معاملہ اسے لے ڈوبے گا یا کون سا ایشو ہاتھ میں لینے سے اس کی نیا پار لگ جائے گی۔ اسوقت اسی قسم کی صورت حال سے ملک کی دو بڑی قومی سیاسی پارٹیاں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور سب سے بڑی حزب اختلاف کانگریس دو چار ہے۔ اقتدار پر قابض رہنے یا قبضہ کرنے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جانا ہر سیاسی پارٹی کی مجبوری ہے۔اگر یہ مجبو ری جو در اصل سیاسی پارٹیوں کی ہی نہیں ہر دور اندیش اور مفاد پرست سیاسی لیڈرکی خصوصیت ہوتی ہے نہ ہو تو نہ پارٹی بر سر اقتدار آسکتی ہے نہ انفرادی ترقی ہو سکتی ہے۔اب اس وقت کئی ایسے سلگتے موضوعات ہیں جو جہاں ایک طرف بی جے پی کے لیے بتدریج سوہان روح بنتے جارہے ہیں وہیں کانگریس کو تقویت پہنچاتے نظر آرہے ہیں۔ جب حالات عام انتخابات سے عین قبل کے ہوں اور موضوعات بھی کم نہ ہوں تو سیاسی پارہ چڑھتا ہی دکھائی دے گا۔ اقتدار کی سیڑھی پر چڑھنے یا اقتدار میں واپسی کرنے کے لیے کانگریس اور بی جے پی ابھی فرانس کے ساتھ رافیل جنگی طیارے سودے،رام مندر، تین طلاق،ہجومی قتال،ریزرویشن اور نوٹ بندش کے معاملات کو ہی اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کا ایندھن بنانے کی ادھیڑ بن میں ہی تھیں کہ آر ایس ایس کے ظاہری طور پر بدلے کردارنے کانگریس اور بی جے پی دونوں کو ہی بھونچکا کر دیا۔ اور دونوں کی ہی سمجھ میں نہیں آرہا کہ آر ایس ایس کے نظریہ کو ہر خاص و عام تک پہنچانے کے لیے تنظیم کے دفتر میں ’’مستقبل کا بھارت‘‘ کے عنوان سے شروع کئے گئے 3روزہ پروگرام میںاس کے سربراہ موہن بھاگوت کو یہ صفائی پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ اگر مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ہندو نہ کہو بلکہ ہمیں ہندوستانی کہو تو ہم ان کے اس کہے کا احترام کریں گے لیکن جس دن یہ کہا جائے گا کہ یہاں مسلمان نہیں رہنے چاہئیں تو پھر ہندوتوا کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا کیونکہ ہندوتوا کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ پوری دنیا ایک خاندان ہے۔
ایک تواس بات پر حیرت ہے کہ گذشتہ8سال سے تنظیم کے صدر کے عہدے پر فائز رہنے والے موہن جی کا ایسے موقع پر جب عام انتخابات کی بساط بچھائی جا چکی ہے اور اس کے زیر کفالت و تربیت پرورش پانے والی بھارتیہ جنتا پارٹی ا اقتدار کے زعم میںپنی کئی غلط چالوں کے باعث مات کھانے کے خدشہ سے دوچارہے ا ور ساتھ ہی ہندو راشٹر کے تصور اور مروجہ آئین ہند سے انکار کی بنیاد پرتشکیل دی گئی یہ کٹر ہندو پرست تنظیم 93ویں سالگرہ منانے والی ہے تنظیم کے بنیادی تصور کے بر عکس اظہار خیال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ راتوں رات آنے والی اس نظریاتی تبدیلی نے ہندوؤں کے ایک متعصب طبقہ کو حیرت کے سمندر میں غوطے لگانے ،بی جے پی کو سٹپٹانے اور کانگریس کو بغلیں بجانے پر مجبور کر دیا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ روز قبل ناگپور میں آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر میں منعقد ایک تقریب میں شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات کے جذبہ سے اظہار خیال کرنے والے کانگریس کے بزرگ رہنما و سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کی تقریر سے آر ایس ایس کا تھنک ٹینک بہت متاثر ہے اسی لئے اب اس کے مزاج میں ہی نہیں نظریہ میں بھی نمایاں تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی مسلمانوں تک بی جے پی کی رسائی اور ان میں اسے مقبول نہ سہی قابل قبول بنانے کے لیے مختار عباس نقوی، شاہنواز حسین، نجمہ ہبت اللہ اور ظفر سریش والا جیسے مسلم کرداروں کو استعمال کرنے کے بجائے خود
ان تک پہنچنے کا راستہ پکڑ لیا ہے۔ آر ایس ایس نے ، جو پلک جھپکتے میںملک گیر پیمانے پر اپنا پیغام عام کرنے اور ملک کے عوام کی نبض ٹٹولنے میں زبردست مہارت رکھتی ہے بھانپ لیا ہے کہ 56انچ کے سینے کے زور پر پاکستان کو سبق سکھانے،نوٹ بندش سے انتہا پسندوں خاص طور پر کشمیری عسکریت پسندوں کی نکیل کس کرا ور پیسے پیسے سے محتاج کر کے انتہاپسندی سے توبہ کرنے،ایک فوجی کے سر کے بدلے دس فوجیوں کا سر لانے اور’’اچھے دن ‘‘کے وعدوں پر اعتبار کر کے بی جے پی کو زبردست اکثریت کے ساتھ ایوان اقتدار میں داخل کرنے والا ہندوؤں ایک بڑا طبقہ بی جے پی ہی نہیں نریندر مودی سے بھی بیزار ہو رہا ہے اس لیے مسلمانوں میںبی جے پی پر اعتماد کرنے کی تحریک پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آر ایس ایس بھی وقتی طور پر چولا بدل لے اور مودی بھی مسلمانوں کے پروگراموں میں سرگرم شرکت کرنے لگیں۔بی جے پی کو اتنے فیصد مسلمانوں کی حمایت حاصل ہوجائے جتنا ہندو ووٹ اس کے ہاتھوں سے پھسلا ہے۔ ایک حلقہ میں آر آیس ایس کے بدلے تیور سے یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ مودی اور امیت شاہ پر مشتمل بی جے پی پر مکمل گرفت رکھنے والی جوڑی کا آر ایس ایس کی گود سے نکل کر صنعتکاروں کے ایک مخصوص طبقہ سے وفاداری کرنا تنظیم کو برداشت نہیں ہے اور اس نے بی جے پی کو عام انتخابات میں سبق سکھانے کے لیے اپنا چولہ وقتی طور پرہی سہی بدل کر کانگریس کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس سے حوصلہ پاکرہی رافیل سودے کے حوالے سے فرانس کے صدر فرینکوئیس ہولاندے کے بیان کی آڑ میں کانگریس صدر راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو چور تک کہہ دیا۔بی جے پی لیڈروں کی’’ ہر دلعزیز وزیر اعظم‘‘ پر راہل کے اس رکیک ریمارک اور غیر مہذب لفظ کا استعمال کرنے پر زبردست واویلا مچانے اور نیوز چینلوں کے توسط سے عوام کو جوش دلانے کی زبردست کوشش کے باوجود راہل یا کانگریس کی مخالفت میں میلوں دور تک کوئی احتجاج کرتا نظر نہیں آرہا۔اگر آر ایس ایس بی جے پی سے راضی ہوتی تو نہ تو راہل گاندھی کی اتنی ہمت ہوتی کہ وہ وزیر اعظم کو چور کہہ دیں اور بالفرض محال کہہ بھی دیتے تو پورا ملک احتجاج کے سمندر میں ڈوبا نظر آتا۔اس سے تو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ جس طرح بوفورس توپوں کا سودا کانگریس کو لے ڈوبا تھا آر ایس ایس کے بدلے چولے سے رافیل طیاروں کا سودا بی جے پی کے لیے بڑا مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ آر ایس ایس کی اس چال کا مطلب 2019کے عام انتخابات کے نتائج سے سمجھ میں آ سکے گا ، اس وقت تک تو صرف قیاس آرائیاں ہی کی جا سکتی ہیں۔