حادثے کا زخمی” 2“مرتبہ مرا
اندور .... حادثے میں زخمی ہونےوالا ایک 18سالہ نوجوان اندور کے اسپتال لایا گیا جہاں اسے مردہ قرار دیا گیا تاہم جب اسے پوسٹ مارٹم کیلئے لیجایا جارہا تھا تو وہ زندہ پایا گیا۔ اسے خاندان کے لوگوں نے اسپتال پہنچایا تھا کہ یہ کچھ دیر پہلے مرچکا ہے جس کے بعد اسے مردہ خانے میں ڈالدیا گیا تھا۔ ساری رات وہ سردی سے جم گیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اس شخص کو جب ایمبولینس میں لایا جارہا تھا تو ایمبولینس کے ٹیکنیشین نے بتایا تھا کہ یہ راستے میں مرچکا ہے۔ ایک سرجن نے اسکی ای سی جی کی اور مردہ قرار دیا تاہم اس کے خاندان والوں نے کہا کہ ڈاکٹر مریض کو نظر انداز کرتے رہے۔ انکا کہنا تھا کہ وہ دیگر مریضوں کا علاج کررہے تھے۔ انہوں نے ہمیں انتظار کرائے رکھا۔ ہم نے انہیں بار بار کہا کہ کیلاش کی طبیعت بگڑتی جارہی ہے اور اسے فوری علاج کی ضرورت ہے لیکن ڈاکٹرو ںنے ہماری سنی ان سنی کردی۔ کیلاش کے والد کیدھار سنگھ نے بتایا کہ جب ہم نے احتجاج کیا تو ڈاکٹروں نے اسے مصنوعی تنفس کیلئے پمپ لگادیا اور ایئر بیگ خاندان والوں کے حوالے کردیا کہ وہ پمپ کرکے اسے ہوا پہنچاتے رہیں۔ کچھ دیر بعد انہوں نے اسے مردہ قرار دیدیا۔ ہم وہیں رہے ۔ کچھ دیربعد ہم نے دیکھا کہ کیلاش نے معمولی سی حرکت شروع کردی ہے ۔ہم طبی عملے کے پاس بھاگے ۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اب مریض کو وینٹی لیٹر پر رکھا جائیگا او راسکے بچنے کے 10فیصد چانس ہیں مگر وہ اسے مردہ خانہ لے گئے۔ صبح کو پولیس والے خاندان والوں کا بیان ریکارڈ کرنے آئے اور انہیں لیکر مردہ خانے پہنچے جہاں ہمیں پتہ چلا کہ اسے تو ساری رات وینٹی لیٹر کے بجائے مردہ خانے میں رکھا گیا تھا۔ اس وقت ہمیں اور دھچکا لگا جب ایک نرس نے چیک کرکے کہا کہ اس میں زندگی کی رمق باقی ہے اور یہ مریض ہلکی ہلکی سانس لے رہا ہے۔امید و بیم کی صورت میں خاندان والے اسے گریٹر کیلاش اسپتال لیکر گئے جہاں ڈاکٹر وجے نے اسے مردہ قرار دیدیا۔ انکا کہناتھا کہ میرے تجربے کے مطابق اس کی موت ایک ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہی ہوئی ہے تاہم پوسٹ مارٹم سے موت کا اصل وقت معلوم ہوجائیگا۔ کیلاش کے افراد خاندان نے ایم وائی اسپتال کے سامنے احتجاج کیا جبکہ پولیس کی فارنسک ٹیم نے پوسٹ مارٹم کی وڈیو تیار کرلی ہے۔