Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچھڑنا بھی ضروری تھا:کمرے کا دروازہ کھلا تو سارا ماحول خوشبوسے مہک اٹھا

 ’’ ارے نہیں ڈاکٹر !! طبیعت بالکل ٹھیک ہے، دل بیمار ہو گیا ہے‘‘تتلی نے ادا کیساتھ مشرف کو جواب دیا، چند دل جلے مجھے تتلی کہتے ہیں، دراصل میں ہر ایک کو لفٹ نہیں کراتی 
 مسز زاہدہ  قمر۔ جدہ
 قسط 18 
مشرف نے بہت دن بعد کلینک میں قدم رکھا تھا۔ یوسف صاحب کی طرف سے تھوڑا سا اطمینان ہوا تو وہ تھوڑی دیر کے لئے کلینک آ گیا۔ ڈاکٹر نے ایک ہفتے بعد آپریشن کا وقت دیا تھا اور آپریشن کے لئے ایک بڑ ی رقم پیشگی جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔ ویسے بھی اس اسپتال کے چارجز بہت زیادہ تھے۔شہر کاسب سے جدید ترین اور بـڑا اسپتال تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ باقی رقم بھی لاکھ کا ہندسہ کراس کر جائے گی ۔عالم آراء اور صارف سے مشورے کے بعد اس نے سوچا تھا کہ کلینک سے واپسی پر اسپتال جانے کے بجائے آصف چچا کے پاس جائے گا اور ویسے بھی آصف چچا کا رویہ سب کے لئے حیران کُن تھا وہ اس عرصے میں صرف ایک بار ہی یوسف صاحب کو دیکھنے آئے تھے اور چچی جان کے نہ آنے کی وجہ بتائی تھی کہ وہ شہر سے باہر ہیں پھر کام کا عذر پیش کر کے جلد ہی چلے گئے تھے۔ ان سے رقم کے سلسلے میں بات کرے گا۔  وہ صادق کو چند ضروری ہدایات دے کر اپنے کمرے میں آ گیا۔ صرف چند ہی لوگوں کو اس کی آمد کا پتہ چلا تھا لہٰذا چند ہی مریض اس کے پاس آئے۔  اس نے بھی بڑی توجہ سے انہیں دیکھنا شروع کیا ۔ تیسرا مریض نسخہ لکھوا کر گیا تو مشرف نے برابر رکھے ہوئے کلینڈر کو دیکھتے ہوئے آپریشن کی تاریخ کا اندازہ لگانا چاہا اور تب ہی کمرے کا دروازہ کھول کر اگلا مریض اندر داخل ہوا ۔ مشرف کو محسوس ہوا گویا کمرے کا نہیں سُبک رو خوشبوئوں کا دروازہ گُھل گیا ہو۔وہ فوری طور پر مُڑا تو ایک نازک سی ریشمی آواز کانوں سے ٹکرائی۔
’’اسلام علیکم ڈاکٹر جی!! مشرف نے دیکھا تتلی اس کے روبرو تھی۔ اپنے وجود کے بے شمار رنگوں کے ہمراہ!!’’وعلیکم اسلام‘‘ مشرف نے حتیٰ الامکان اپنا لہجہ رسمی رکھا مگر اس کا دل اسے کسی غیر معمولی واقعہ کی گواہی دے رہا تھا۔ اس نے خود پر قابو پا کر ہاتھ کے اشارے سے تتلی کو بیٹھنے کا کہا۔ وہ مُسکرائی اور بڑی تمکنت سے اس کے سامنے براجمان ہو گئی۔
’’جی!!! کیسی ہیں آپ ؟؟ دوا سے آرام نہیں آیا کیا؟؟ اب تک طبیعت خراب ہے؟‘‘، مشرف نے ڈاکٹر کے رسمی انداز میں فریضہ ادا کیا۔ ’’ ارے نہیں ڈاکٹر جی!! طبیعت بالکل ٹھیک ہے، دل بیمار ہو گیا ہے‘‘۔ اس نے طبیعت کی خیریت بتا کر باقی جملہ زیر لب ادا کیا۔ ’’جی !!‘‘ مشرف کو کسی انہونی کا احساس ہوا تتلی کا انداز ہی بہکا بہکا سا تھا۔ ’’جی کیا ڈاکٹر جی!! ‘‘ تتلی نے بڑے نازسے مشرف کی نقل اُتاری’’میں ٹھیک ہوں بس آپ کے ابو کی خیریت پوچھنے چلی آئی ہوں ۔سُنا تھا کہ خدا نخواستہ وہ بیمار ہیں۔ دراصل مجھے صادق نے بتایا تھا‘‘ ۔تتلی  نے وضاحت کی۔
’’تھنکس!! ‘‘، مشرف مشکور نظر آنے لگا ’’اب تو ابو بہت بہتر ہیں بس دُعا کریں بالکل صحت یاب ہو جائیں‘‘ ۔’’اس میں شکریہ کی کیا بات ؟؟یہ تو ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کے ابوکی خیریت پوچھیں ۔آخر آپ اس علاقے کے لوگوں کی اتنی خدمت کر رہے ہیں ۔ کچھ فرض ہمارا بھی توبنتا ہے ڈاکٹر جی!! اور ہاں !!! ہمارے لائق کوئی بھی خدمت ہو توتکلف مت کیجیئے گا‘‘ تتلی نے بہت اپنائیت سے پیشکش کی۔ مشرف مُسکرا دیا ’’جی بالکل !!! سچی۔۔۔۔میں تو پریشان ہی ہو گئی تھی امی سمجھاتی بھی تھیں کہ نازو!! فکر نہ کر ،ڈاکٹر جلد آجائیںگے۔شاید اپنے اسپتال کے کسی کام میں مصروف ہو نگے۔ مگر میں نہ مانی۔ آکر صادق سے پوچھ ہی لیا تو اس نے تفصیل بتائی۔ تتلی نے مشرف کو پوری داستان سُنائی۔ 
’’نازو!! وہ سوالیہ نظروں سے تتلی کو دیکھنے لگا۔جی مجھے نازو کہتے ہیں دراصل میرا نام ناظمہ ہے ، تتلی نے مُسکرا کر بتایا۔ ’’اوہ! واقعی یہ ناظمہ تو دل و ذہن کے سارے نظم و ضبط کو لمحہ بھر میں ہلا کر رکھ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مجاہد ٹھیک ہی کہتا تھا۔ اسے دیکھ کر تو نظم و ضبط کے سب بندھن ٹوٹ سکتے ہیں ‘‘ مشرف نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔ ’’اچھا!! آپ کو نازو کہتے ہیں مگر شاید میں نے تو آپ کا کوئی اور نِک نیم سُنا تھا‘‘۔ مشرف کو یہ بتانا مناسب نہیں لگا کہ اس علاقے میں تتلی کے نام سے مشہور ہے۔ ’’او۔۔۔ہ‘‘، وہ کھلکھلا کر ہنس دی ’’آپ نے بھی سُن لیا کہ چند دل جلے مجھے تتلی کہتے ہیں ۔دراصل میں ہر ایک کو لفٹ نہیں کراتی تو یہاں کے اوباش لڑکوں نے میرا نام تتلی رکھ دیا ۔ تھرڈ کلاس لوگ!!  خیر !! کہتے رہیں مجھے پروا نہیں ‘‘ اس نے نخوت سے ناک چڑھائی۔مشرف مُسکرانے لگا۔ ’’ ہو سکتا ہے کہ اآپ کو تعریفی انداز میں تتلی کہا جاتا ہو کیونکہ تتلی حُسن اور رعنائی کا سمبل (علامت)ہے۔ کہیں بھی تتلی کو بے وفائی کا نشان نہیں سمجھا جاتا۔ وہ تو زندگی اور خوبصورت رنگوں کی مثال ہوتی ہے‘‘۔ مشرف بے اختیار ہو کر کہتا چلا گیا۔ تتلی کے چہرے پر بکھرنے والے رنگ اور انبساط مشرف کو چونک دینے کے لئے کافی تھا۔ وہ اپنی بے خودی پر شرمسار ہو گیا۔تتلی کی مسرت آمیز ہنسی میں جلترنگ کا فسوں تھا۔ مشرف پلکیں جھپک جھپک کر اسے دیکھ رہاتھا۔
( باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: