بچھڑنا بھی ضروری تھا: صارف کے الفاظ نے چچا کی گرج چمک مانند کردی
’’کیا کہا؟؟ 5 لاکھ روپے؟؟ بھائی جان کے علاج کے لئے؟؟َ کیا تمھیں نہیں معلوم،بھائی جان نے کروڑوں روپے کا مال بھجوایا تھا وہ فراڈ نکلی
(قسط 19)
مسز زاہدہ قمر۔ جدہ
نازو کے جاتے ہی جیسے مشرف کی توجہ اور دلچسپی بھی رُخصت ہو گئی ، وہ بے حد حسین خواب سے بیدار ہونے کی کیفیت میں مبتلا تھا۔ اس نے بڑی بے دلی سے مریضوںکو نمٹایا اور صادق کو کلینک بند کرنے کی ہدایت کر کے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے صارف کو کال کر کے چچا کے گھر آنے کا کہا کیونکہ صارف نے اسے ہدایت کی تھی کہ چچا کے گھر وہ دونوں ساتھ جائیں تو بہتر ہے۔ صارف نے اسے بتایا کہ وہ فیکٹری سے نکل گیا ہے اوراب راستے میں ہے مشرف نے اندازہ کیا کہ وہ بھی اگر نکل جائے تو دونوں تقریباً ایک ساتھ ہی چچا کے گھر پُہنچیں گے۔ وہ سوچوں میںگُم کلینک سے باہر آگیا۔ اس کے تصورات میں اب تک خوش رنگ تتلیوں کا سحر انگیز نظارہ سمایا ہوا تھا۔ وہ اس رنگ لُٹاتی اور خوشبو بکھیرتی دنیا سے واپسی پر تیار نہ تھا بادل نا خواستہ اس نے گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی کا رُخ چچا کے گھر کی طرف موڑ دیا۔ اس نے کتنے موڑ کاٹے ْ کہاں کہاں رُکا؟ اور کس طرح یہ فاصلہ طے کیا یہ احساس اسے تب ہوا جب وہ چچا کے دروازے پر پُہنچا۔ وہ حیران تھا کہ وہ کس طرح چچا کے گھر پُہنچ گیا۔ اپنی کیفیت پر خود اسے حیرت تھی اس نے ساری سوچوں کو ذہن سے جھٹکا اور گاڑی کھڑی کر کے صارف کا انتظار کرنے لگا۔ تقریباً دس منٹ بعد ہی صارف کی بائیک بھی چچا کے دروازے پر تھی۔ وہ گاڑی سے اُتر کر صارف کے پاس آگیا ’’السلام و علیکم بھائی !!‘‘ اس نے صارف کو سلام کیا۔ ’’وعلیکم السلام!! مجھے دیر تو نہیں ہوئی؟؟‘‘۔ صا رف نے بائیک مناسب طریقے سے کھڑی کی اور اس کے ساتھ ساتھ چچا کے دروازے پر پُہنچ گیا۔ ’’نہیں ! دیر نہیں ہوئی، میں بھی بس ابھی آیا ہوں، ابو کیسے ہیں؟؟‘‘۔
’’ٹھیک ہیں، میں اسپتال تو نہیں گیا مگر ابھی کال کر کے پوچھا ہے ان کی حالت کافی اسٹیبل ہے‘‘۔ صارف نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جیسے تسلی دی۔ مشرف نے بیل پُش کی تو دروازہ چچی جان نے کھولا جو کہ چچا کے بقول شہر سے باہر گئی ہوئی تھیں۔ ان دونوں کو دیکھ کر وہ سٹپٹا گئیں اور وہ فوراً ہی صورتحال کو بھانپ گئے۔
’’السلام و علیکم چچی جان!! ‘‘ صارف نے بڑے ادب سے سلام کیا جس کا جواب انہوں نے بڑے مرے مرے انداز میں دیا۔ وہ اب تک گیٹ کے دونوں پٹ پکڑے کنفیوز سی حالت میں کھڑی تھیں نہ تو اندر آنے کو کہہ رہی تھیں اور نہ ہی راستہ دے رہی تھیں۔ مشرف مُسکرا دیا اس نے گیٹ کا ایک پٹ ہاتھ بڑھا کر کھول دیا تو وہ چونک گئیں۔ ’’آئو !! آئو اندر آئو‘‘ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئیں اور دونوں چھوٹا سا لان عبور کر کے اندر آگئے۔چچی نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور خود چچا کو بُلانے کا کہہ کر اندر چلی گئیں۔ دونوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ یہ رویہ اور انداز ان کے لئے قطعی نا قابلِ فہم تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں چچا اندر آگئے ان کے چہر ے پر بڑی بے زاری تھی۔ دونوں نے صوفے سے اُٹھ کر انہیں سلام کیا۔ ’’وعلیکم السلام‘‘، انہوں نے رسمی سی مُسکراہٹ سے جواب دیا ۔ ’’بیٹھو، بیٹھو!! کیسے آنا ہوا؟؟‘‘
انہوں نے فوراً ہی ان کے آنے کا مُدعا پوچھا۔ ان کے بے مروتی سے کئے سوال پر مشرف سخت شاکڈ تھا۔ جبکہ صارف کے چہرے پر کوئی بھی تاثر نہیں تھا جیسے اس کے لئے یہ سب کچھ متوقع تھا۔ مشرف حیران ہو کر صارف کو دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ چچا نے بھائی کی خیریت تک دریافت نہیں کی تھی اور ہمیشہ جان نچھاور کرنے والی چچی اسقدر بے حسی سے گھر میں موجود تھیں اپنے والد جیسا قرار دینے والے جیٹھ کی خیریت بھی پوچھنے نہیں آئی تھیں۔ یہ سب باتیں صارف کو حیران اور افسردہ کیوں نہیں کر رہیں؟؟ وہ اس بات پر خود حیرت زدہ تھا۔ اس نے دیکھا صارف چچا جان کو یوسف صاحب کی خیریت بتا رہا تھا اور ڈاکٹر کے اُمید افزاء کلمات ان کے گوش گُزار کر رہا تھا۔ چچا کے چہرے پر کئی رنگ آکر گُزر گئے اور جب صارف نے اپنا مقصد بیان کیا تو وہ ہتھے سے اُکھڑ گئے۔
’’کیا کہا؟؟ 5 لاکھ روپے؟؟ بھائی جان کے علاج کے لئے؟؟َ کیا تمھیں نہیں معلوم صارف!! بھائی جان نے آخری دِنوں جس کمپنی سے معاہدہ کر کے کروڑوں روپے کا مال بھجوایا تھا، وہ فراڈ نکلی اور ہمیں کروڑوں کا نقصان ہوا ہے ، جوائنٹ اکائونٹ میں ایک روپیہ نہیں، میں نے کس طرح یہ نقصان پورا کیا ہے ؟ تمھیں کیا معلوم؟؟ تم کِتنے آرام سے5 لاکھ روپیہ مانگ رہے ہو ؟؟‘‘ ، وہ گرج رہے تھے ، چچی جان بھی ان کی آواز سُن کر آگئی تھیں اور بڑی حقارت سے دونوں کو دیکھ رہی تھیں ۔ مشرف سُن ہو کررہ گیا تھا۔ گویا سکتہ ہو گیا ہو جب چچا نے مزید کہا’’اور شاید تم دونوں کو یہ معلوم نہیں کہ بھائی جان نے اپنا تمام کاروبار میرے نام کر دیا ہے۔ تم دونوں بلکہ تم سب اولادوں کو پسِ پُشت کر کے ۔۔۔۔ کیونکہ میں ہی انہیں اس کرائسس سے نکال سکتا تھا میں نے بڑی مشکل سے قرض داروں کے پیسے واپس کئے ہیں ‘‘ وہ سانس لینے رُکے۔ تو صارف نے خود کو سنبھال لیا۔ اُس نے گہری سانس لی۔
وقت جب شکار کرتا ہے
ہر سمت سے وار کرتا ہے
اس نے سوچا چچا کی دھوکے بازی اور ابو کی مہلک بیماری ۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں خود کو مضبوط بنانے لگا اور چچا کی آنکھوں کو اپنی گرفت میں کر لیا۔’’ہمیں کروڑوں کا نقصان کس طرح ہو سکتا ہے چچا جان!! جبکہ ہمارے پاس صرف لاکھوں کا مال تھا۔ میں فیکٹری کی پروڈکشن سے واقف ہوں‘‘۔ اس نے جرح کی تو وہ اور بھڑک گئے۔ ’’باقی کا مال ہم نے مارکیٹ سے اُٹھایا تھا۔ کمپنی کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لئے اور اپنی ساکھ بھی تو بچانی تھی‘‘۔ انہوں نے تڑخ کر جواب دیا۔ ’’اوہ!! پھر تو یقیناً آپ کے پاس تمام رسیدیں موجود ہونگی، کروڑوں کے مال کی ، خریداری کا حساب ضرور رکھا ہو گا آپ نے اور اس کمپنی کے خلاف مقدمہ بھی تو دائر کرنا ہے ، ایف ۔ آئی۔ آر کی روشنی میں وہ تو یقیناً آپ نے ضرورلکھوائی ہو گی‘‘۔
وہ ان کو بڑے اطمینان سے جواب دے رہا تھا موبائل سے کھیلتے ہوئے ’’تم مجھ پر شک کر رہے ہو میں نے بھائی جان کو اتنی بڑی مُصیبت سے نکالا، خود میرے پیسے بھی ڈوب گئے، اب تم رسیدوں اور ایف۔آئی ۔آر کی بات کر رہے ہو ‘‘، وہ بُری طرح طیش میں آگئے۔
’’بڑی بے غیرت اولاد ہے بھائی صاحب کی ! دیکھو کس طرح چچا سے بدتمیزی کر رہے ہیں، یہ تربیت ہے بھابی جان کی ! جبھی تو بھائی جان نے انہیں جائیداد سے عاق کیا ہے ‘‘۔ چچی کا بدلا ہوا انداز اور زہر میں بُجھے الفاظ مشرف کو ہوش میں لے آئے اب تک وہ بھیانک خواب دیکھ رہاتھا۔چچی کے الفاظ نے اسے جیسے جلتے انگاروں پر چھوڑ دیا ۔
’’چچی جان!! زبان سنبھال کر بات کریں! ورنہ میں یہ بھول جائوں گا کہ آپ کون ہیں؟ آپ اور آپ کے شوہر کل تک ہمارے پیر چھوتے تھے آج فراڈ کر کے ہم سے ہی جھوٹ بول رہے ہیں ۔دونوں کا لحاظ بھول جائوں گا اگر آگے کچھ کہا‘‘۔ وہ ویسے ہی سرکش تھا اس پر اس کا غضب ناک انداز۔۔۔۔ ایک لمحہ کو تو چچا بھی دہل گئے مگر اس وقت ڈر یابُزدلی دکھانا اپنی ہار کے مترادف تھا۔ ’’یہاں غنڈہ گردی کر نے آئے ہو؟ ابھی پورے محلے کو اکٹھا کر کے پولیس کے حوالے کردونگا۔ میرے پاس بھائی جان کے الفاظ بمعہ دستخط موجود ہیں جس میں انہوں نے مجھے فیکٹری اور آفس کا مالک بنا یا ہے‘‘۔وہ بُری طرح اکڑ رہے تھے کہ صارف نے مشرف کو ڈانٹا۔ ’’تم چُپ رہو مشرف !! بدتمیزی مت کرو، میں موجود ہوں بات کرنے کے لئے‘‘ ،اس نے مُشرف کو ڈانٹ کر آنکھ سے اشارہ کیا تو وہ بُری طرح تلملانے کے باوجود نہ سمجھتے ہوئے چُپ ہو گیا۔ ’’چچا جان! آپ اس کی بات کا بُرا مت مانیں، اس کی طرف سے میں معافی مانگتا ہوں اصل میں اسے اصل صورتحال کا اندازہ نہیں۔۔۔۔‘‘ ، اس کے الفاظ چچا جان کے غرور کو بڑھاوا دے رہے تھے وہ بڑے فخر سے اور تکبرانہ انداز میں صارف کی طرف حقارت اور نفرت سے دیکھ کر اس کی بات سُن رہے تھے۔ ’’اونہہ!! مجھے خوشامد کر کے رام کرنا چاہتا ہے اسے تو میں چیونٹی کی طرح مسل دوں گا‘‘۔انہوں نے انتہا ئی فرعونیت سے سوچا رحم اور ہمدردی سے خالی دل کے ساتھ، مشرف بھائی کو گڑ گڑاتا دیکھ کر غُصے کی شدت سے کھول رہا تھا۔ مگر نہ جانے اسے صارف کی باتوں میں اطمینان اور اس کی نرمی میں معاملہ فہمی نظر آرہی تھی۔ ’’چچا جان !! اسے نہیں معلوم، آپ نے ہمارے لئے کیا کیا ہے اور اب آپ ہماری خاطر کتنی بڑی قربانی دے رہے ہیں؟ چار کروڑ کا قرضہ معمولی بات نہیں آپ اپنی جیب سے ادا کریں گے یہ تو احمق ہے !!‘‘ ،’’ چار کروڑ کا قرضہ!!!‘‘ ، آصف چچا بُری طرح چونک گئے ’’کونسا قرضہ؟؟ کیسا قرضہ؟؟‘‘۔ وہ ہی نہیں چچی جان اور مشرف بھی حیران تھے۔
(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭