جمال خاشقجی معاملے کی تحقیقات کیلئے سعودی عرب ، ترکی مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل
نیویارک۔۔۔سعودی عرب اور ترکی نے معروف صحافی جما ل خاشقجی کی گمشدگی کا پتہ لگانے کیلئے مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دیدیا۔یہ فیصلہ سعودی عرب کی تجویز پر کیا گیا۔ترک ایوان صدارت کے ترجمان ابراہیم گولن نے ترک خبر رساں ادارے کو یہ اطلاع دیتے ہوئے واضح کیا کہ سعودی عرب کی تجویز پر خاشقجی کے واقعہ کے تمام پہلو ئوں کو طشت ازبام کرنے کیلئے مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دیدیا گیا ۔ خاشقجی سعودی قونصل خانے کے مختصر سے دورے کے بعد استنبول شہر میں لاپتہ ہو گئے تھے ۔ دریں اثناء ترک خبر رساں ادارے انازول نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کاملزم ایک مردہ شخصیت کو ٹھہرانے کی خبردیکرامریکہ کے شہرہ آفاق معتبرجریدے نیویارک ٹائمزکو مشکل میں ڈال دیا۔تفصیلات کے مطابق ترک خبر رساں ادارے نے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام 15سعودی شہریوں پر عائد کر کے ان کے ناموں کی فہرست بھی جاری کر دی تھی ۔تحقیقات سے پتہ چلا کہ ان 15میں سے ایک ٹریفک حادثہ میں مرچکا ہے جبکہ ایک اور سعودی شہری سیاحت کی غرض سے اپنی بیوی کے ہمراہ ترکی گیا ہواتھا۔نیویارک ٹائمز نے ترک خبر رساں ادارے کی یہ خبر جاری کر دی تھی۔ البتہ اس کے جھوٹے ہونے کی تصدیق ہو جانے پر خبر ٹویٹر کے اپنے اکائونٹ سے ہٹا دی ۔نیویارک ٹائمز نے خبر ہٹاتے وقت مدیران کا یہ نوٹ بھی دیا کہ ’’ہم نے خاشقجی کے قتل سے متعلق ٹوئٹ مٹا دیا ہے ‘‘نیویارک ٹائمز نے ترک حکام سے منسوب تفصیلات ، ملزمان کے نام اور ان کی تصاویر مٹا دی تھیں اور اس کی جگہ ایک اور خبر جاری کی جس میں خاشقجی سے متعلق ترک حکام کا بیان دینے پر اکتفا کیا تھا۔دوسری جانب سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کی اطلاع کے بعد سے نامعلوم ذرائع من گھڑت کہانیاں میڈیا میں دھڑا دھڑ پیش کر رہے ہیں ۔ قطر نواز میڈیا نے اس انسانی مسئلے کو سیاسی استحصال کا بد ترین ذرائع بنا دیا ہے ۔ مصدقہ ذرائع نے واضح کر دیا کہ ترک خبر رساں ادارے نے جن لوگوں کی تصاویر یہ کہہ کر پیش کی تھیں کہ یہ خاشقجی کے قتل کے ملزمان ہیں ۔ وہ استنبول کے اتاترک ائیرپورٹ پر ان کی آمد پر لی گئی تھیں ۔ ان کی بابت یہ کہانی گھڑ کر جاری کر دی گئی کہ اسپیشل سعودی طیارے سے استنبول پہنچے تھے اور یہی خاشقجی کو لاپتہ کرنے کے ذمہ دار ہیں ۔ ترکی کے سیکیورٹی حکام 9اکتوبر کو باقاعدہ طور پر یہ بیان دے چکے ہیں کہ انہوں نے مذکورہ طیارے کی تلاشی اتاترک ائیرپورٹ سے اس کی روانگی سے قبل لی تھی تاہم انہیں ہوائی جہاز میں کوئی مشکوک شے نظر نہیں آئی اور نہ ہی خاشقجی سے گمشدگی سے تعلق رکھنے والی کوئی بات ریکارڈ پر آئی۔اخباری رپورٹ میں پیش کر دہ جن تصاویر کی بابت یہ دعویٰ کیا گیاتھا کہ وہ سعودی سیکیورٹی فورس کے اہلکاروں کی ہیں ۔ وہ اتاترک ائیرپورٹ پہنچنے والے عام سعودی سیاحوں کی تصاویر تھیں۔حیرت ناک بات یہ ہے کہ ترکی اور قطر ذرائع ابلاغ نے جن 15سعودیوں کی تصاویر سیکیورٹی ٹیم کے ممبران کے طور پر پیش کیں ان میں ایک تصویر ایک ایسے سعودی شہری کی بھی ریکارڈ میں آئی ہے جو اپنی بیوی کے ہمراہ سیروسیاحت کیلئے استنبول گیا تھا ۔ اس واقعہ نے بھی یہ بات ثابت کر دی ہے کہ خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق من گھڑت کہانیاں پیش کی جا رہی ہیں ۔ ایسے بے قصور عام شہریوں کی تصاویر کہانی کا حصہ بنا دی گئیں جن کا خاشقجی کی گمشدگی سے کسی طرح کا کوئی رشتہ ناتہ نہیں ۔