Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو‘‘

والدین دیکھیں کہ ان کے بچوں میں شرافت ، دین داری، شرم و حیا، صالحیت و صلاحیت اور پاکدامنی کہاں پیدا ہوتی ہے
 
* *  *مولانا عبد اللہ خالد قاسمی خیرآبادی ۔ہند* *  *

    1991ء میں راقم کو سیرت کانفرنس بنارس کے اجلاس میں شرکت کا موقع ملا اور حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب مدظلہ جن کی صدارت میں یہ اجلاس منعقد کیا گیا تھا، ان کی خصوصی مجلس میں حاضری کی سعادت ملی۔ بات چلی عصری تعلیم گاہوں اور انگریزی اسکولوں کی۔ اس پر حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب مدظلہ نے ایک بڑا چشم کشا واقعہ سنایا ، فرمایا:
    بنگلور میں ہمارے متعلقین میں ایک حاجی صاحب ہیں، اہل اللہ سے تعلق و محبت رکھتے ہیں ، نماز و روزہ کے پابند اور خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہم سب گھر کے افراد کھانا کھانے کے لیے دسترخوان پر جمع تھے۔ میری زبان سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا ’’اللہ ایک ہے‘‘ ۔یہ جملہ سن کر میری چھوٹی بچی جو ایک انگریزی اسکول میں ابتدائی درجات کی طالبہ ہے، نے فوراً ٹوک دیا ’’ابو ! اللہ ایک نہیں ہے، بلکہ اللہ 3 ہیں‘‘ (بچی نے اپنے جملے کی ادائیگی خالص انگریزی زبان میں کی تھی)۔
    بظاہر یہ ایک واقعہ ہے لیکن اپنی جلو میں اس نے وہ سب کچھ بتادیا جس کے لیے اسلام دشمن عناصر صدیوں سے کوشاں ہیں۔ انگریزی اسکول میں اس بچی نے جرأت و ہمت سیکھی کہ اس کے علم کے مطابق اگر کوئی آدمی غلط بولے تو اسے فوراً ٹوک دیا جائے، دوسری خوبی یہ پیدا ہوئی کہ انگریزی زبان میں اسے اتنی قدرت و صلاحیت پیدا ہوگئی کہ وہ اپنے مافی الضمیرکی ادائیگی انگلش میں کرنے لگی لیکن ان 2خوبیوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا خسارہ اور نقصان یہ ہوا کہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی متاع اور دولت ، ایمان اس سے سلب کرلیا گیا۔
    یہ تو صرف ایک اسکول کا واقعہ ہے ،پورے ملک میں عیسائی مشنریوں کے زیر انتظام کام کرنے والے ہزاروں اسکول اور کالج ہیں جن میں روزانہ یہی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلم قوم کے ان نوشگفتہ پھولوں کی جڑوں میں ایسا زہر ڈال دیا جائے کہ نشو و نما پاکر جب یہ مکمل پھول بنیں تو پھر ان پر اسلامی نکھار اور دین و مذہب کی رونق باقی نہ رہے،دین و مذہب اور اسلام و شریعت کو قدامت پسندی اور دقیانوسیت کی علامت سمجھنے لگیں، اسلامی شعار اور اسلامی تہذیب و تمدن کو سماجی و معاشرتی ترقی میں حائل تصور کریں۔ اخلاق و اقدار اور مذہبی روایات کو صرف ماضی کا قصہ باور کریں۔
    افسوس ہے کہ آج یہی سب کچھ ہورہا ہے اور اس سے زیادہ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ انگریزی تعلیم اور مسلم بچوں کی اسلامی انداز میں تعلیم و تربیت کے نام پر کچھ مسلم اسکول قائم تو کئے جاتے ہیں لیکن وہ بھی انہی عیسائی و یہودی مشنریوں سے مرعوب ہوجاتے ہیں اور انہی کا کلچر، انہی کی تہذیب، یہاں تک کہ انہی کا نصاب اپنے یہاں داخل کرلیتے ہیں۔ بچوں کے یونیفارم میں وہی انگریزی تہذیب، تعلیمی اوقات میں وہی مغرب کا طرز، اسکول کی تعطیلات میں وہی ان کا نظام۔
    جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور کے مہتمم مفتی شعیب اللہ خاں صاحب موجودہ عصری تعلیم کے خطرناک نتائج کو یوں شمار کراتے ہیں:
    (1)  ہمارے بچے جب ان اسکولوں میں جاتے ہیں اور وہاں کے نصاب و نظام کے مطابق تعلیم حاصل کرتے ہیںتو ان کے دلوں سے ایمان و اسلام بلکہ مذہب کی اہمیت و عظمت یکسر ختم ہوجاتی ہے، اور وہ اس کو محض ایک فضول چیز سمجھنے لگتے ہیں۔
    (2)  جو لوگ کچھ مذہبی قسم کے ہیں انھوں نے اس تعلیم کا یہ اثر قبول کیا کہ دین و دنیا کو دو خانوں میں بانٹ دیا اور مذہب و دین کو زندگی کا پرائیویٹ (نجی) معاملہ کہہ کر اس کو مدارس و مساجد اور نماز روزہ تک ہی محدود و مقید کردیا اور زندگی کے دیگر مراحل و مواقع میں پوری طرح اسلام سے آزاد ہوگئے حالانکہ یہ ذہنیت خالص عیسائی اور یہودی ذہنیت ہے۔
    (3)  بہت سے تعلیم یافتہ لوگوں کو اسلام کے بنیادی عقائد اور احکام کے بارے شکوک و شبہات پیدا ہوگئے اور وہ بے اطمینانی و بے اعتمادی کا شکارہوگئے پھر ان میں جو بزدل ہیں وہ تو دل ہی دل میں ان شکوک و شبہات کو لیے پھر رہے ہیں اور جو جری ہیں وہ برملا اسلام پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔ اخبارات و جرائد روزانہ ان کا پتہ دیتے رہتے ہیں۔
    (4)  عفت و عصمت، پاکیزگی اور پاکدامنی کی کوئی اہمیت دلوں میں باقی نہ رہی بلکہ عفت و عصمت کی قدروں کو پامال کرنا ایک فیشن بن گیا اور جو شرم و حیا اور عصمت کی بات کرے وہ ان لوگوں کی نظر میں دقیانوسی اور حالات و زمانہ سے بے بہرہ اور تاریک خیال ٹھہرایا گیا۔
    (5)  اخلاق و شرافت، تہذیب و انسانیت کی جگہ حیوانیت و درندگی اور شیطانیت نے لے لی اور انسانیت و اخلاق کی توہین کرنا ایک محبوب مشغلہ بن گیا۔ اب یہ لوگ کھڑے ہوکر پیشاب کریں تو روشن خیالی، کوئی بیٹھ کر پیشاب کرے تو دقیانوسی، یہ لوگ کھڑے ہوکر کھائیں تو عین روشن دماغی اور کوئی ادب و سلیقہ سے دسترخوان پر بیٹھ کر ، انسان بن کر نوش فرمائیں تو یہ تاریک خیالی۔
    (6)  کیونکہ اس تعلیم کا مقصد محض تن پروری و تن آسانی ہے، اس لیے ہر تعلیم یافتہ حرص و ہوس کا غلام بن کر آتا ہے اور مال ودولت کے جمع کرنے میں اندھا ، بہرہ ہوکر لگ جاتا ہے۔ نہ حلال و حرام کی تمیز اور نہ انسانی ہمدردی و غم خواری سے کوئی واسطہ۔
    (7)  اس تعلیم کا مقصد ہی عیش و آرام اور مال و دولت ہے تو غریبوں سے نفرت اور حقارت کے ناپاک جذبات بھی اس طبقہ میں لازمی طور پیدا ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو مساجد میں آنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں (بحوالہ ماہنامہ ندائے شاہی مرادآباد)۔
    والدین کی سب سے اہم اور بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اس انداز سے کریں جو انھیں اخلاقی قدروں کا پابند بنائے، انھیں انسانیت کا سبق ملے ، حق و باطل کے فرق کومحسوس کرسکیں ، تہذیب و تمدن اور شرافت و نجابت، شرم وحیا اور صالحیت پیدا ہوسکے تاکہ بچوں کی دنیا و آخرت دونوں سنور سکے اور خدائے ذوالجلال والاکرام کی رضا اور خوشنودی حاصل ہوسکے۔ ایسا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے کیونکہ بچوں کو دنیا وی و اخروی اعتبار سے مفید اور کارگر بنانے میں والدین کے کردار ہی کو دخل ہوتا ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
    ’’ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اسکے والدین اسے یاتو یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی۔ ‘‘
    یعنی بچوں کو بننے یا بگڑنے میں والدین کا کلیدی رول ہوتا ہے۔
    اس تحریر اور گفتگو کا مقصد عصری علوم سے روکنا ہرگز نہیں بلکہ والدین کو صرف اس طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ وہ دیکھیں ان کے بچے میں شرافت ، دین داری، شرم و حیا، صالحیت و صلاحیت اور پاکدامنی کہاں پیدا ہوتی ہے۔ اکبر مرحوم کا یہ قطعہ بڑا بر محل ہے:
تم شوق سے کالج میں پڑھو، پارک میں گھومو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ کو چھولو
لیکن یہ سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
    سیدھی سچی بات یہی ہے کہ بچے کو سب سے پہلے دینی تعلیم سے روشناس کرانا چاہئے اس لیے کہ:
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
    قرآن کریم کم از کم ناظرہ پورا ہوجائے ، نماز روزہ اور دین کے بنیادی احکام کا علم ہوجائے، اس کے بعد انگریزی اور عصری علوم کے لیے اسکولوں اور کالجوں میں جانا اسقدر نقصان دہ ثابت نہیں ہوتا اس لیے کہ بچے کے ذہن میں نقشِ اول دین اور علم دین کا مرتسم ہوچکا ہے۔
    جامعہ مظا ہرعلوم اور دارالعلوم دیوبندنے امت اسلامیہ کو اس سیلابِ بلا خیز سے بچانے کے لیے گزشتہ سال سے باقاعدہ تحریک قیام مدارس کا حسن آغاز کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حامی و ناصرہو اور امت مسلمہ کی نئی نسل کو اسلامی رخ اور دینی جہت میسر ہوجائے۔
     ومَا ذالک عَلی ا للّٰہ بعزیز۔
 

مزید پڑھیں:- - - -ماہِ صفر کی نحوست ، جاہلی تصور
 

شیئر: