Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا صفر میں شادی بیاہ مکروہ ہے؟

 صفر کو منحوس جان کر خوشی کی تقریب سے گریز کرنے اور محرم کو غم اور سوگ کا مہینہ تصور کرنے کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں
 * * * مولانا محمد عابد ندوی۔ جدہ * * *

    شریعت میں اس نکاح کو پسند کیا گیا جو نہایت سادگی سے انجام پاجائے ۔ انعقادِ نکاح کیلئے کسی وقت اور جگہ کی قید نہیں ۔ بعض اہل علم نے جمعہ کے دن اور مسجد میں نکاح کو بہتر ومستحب قرار دیا ہے ۔ مسجد میں نکاح کی ترغیب ایک ضعیف حدیث میں وارد ہے (ترمذی)۔
     مسجد اﷲ کا گھر اور بابرکت جگہ ہے ۔مسجد میں نکاح کے ذریعہ بہت ساری رسوم سے بچا جاسکتا ہے تاہم جمعہ کے دن یا مسجد میں نکاح کرنا بہر حال ضروری نہیں ۔ فریقین کی سہولت سے کسی بھی دن اور کسی بھی جگہ نکاح ہوسکتا ۔ بعض اہل علم ماہ شوال میں نکاح کو مستحب قرار دیتے ہیں تاہم نکاح کی عمر ہوجانے اور نکاح کیلئے مناسب رشتہ مل جانے کے بعد اس میں تاخیر پسندیدہ نہیں ۔ نکاح میں غیر ضروری تاخیر معاشرہ میں فتنہ و فساد اور بگاڑ کا ذریعہ ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم نے صحابہ کرامؓ  کو مخاطب کرکے فرمایا:    " جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین و اخلاق سے تم راضی ہوتو اس سے ( اپنی بیٹی بہن وغیرہ کا ) نکاح کردو ، اگر تم ایسا نہ کروگے تو زمین میں بڑا فساد پھیل جائیگا۔" ( ترمذی )۔
     اس حدیث سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مناسب رشتہ ملنے کے بعد اسے ٹھکرانا اور نکاح میں غیر ضروری تاخیر کرنا پسندیدہ نہیں ۔
    سال کے 12 مہینوں اور دنوں میں کوئی مہینہ یا دن ایسا نہیں جس میں نکاح کی تقریب مکروہ اور ناپسندیدہ ہو یا اس میں نکاح منحوس اور ناکام ازدواجی زندگی کا پیش خیمہ ہو۔ نیک فالی یعنی کسی سے اچھا گمان کرنے اور نیک فال لینے کی تو گنجائش ہے لیکن شرعاً بدفالی و بدشگونی جائز نہیں ۔ یہ چیز اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں عام تھی۔ غیر مسلم معاشرہ میں آج بھی بد فالی اور بد شگونی اور نحوست کا تصور عام ہے اور بد قسمتی سے مسلم معاشرہ بھی اس سے پاک نہیں ۔ آج بھی بے شمار نادان لوگ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے اور اس میں شادی بیاہ جیسی مسنون تقریب سے گریز کرتے ہیں جو کسی طرح درست نہیں ۔ اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے لیکن اسلام نے اس تصور کو باطل قرار دیا اور رسول اﷲنے سختی سے اس کی تردید فرمائی۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعودؓ  روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا:    " کوئی چیز متعدی نہیں۔"
     ایک دیہاتی نے سوال کیا :یا رسول اﷲ!جب کسی اونٹ کو خارش لگتی ہے تو وہ سب اونٹوں کو خارش زدہ کردیتا ہے۔
     رسول اﷲنے ارشاد فرمایا :    "پھر پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ کیا ؟ کوئی بیماری متعدی نہیں ( اور وہ کسی کو اس وقت تک نہیں لگتی جب تک اﷲ نہ چاہے، پرندوں سے فال لینے ، اسی طرح اُلّو اور ماہِ صفر کی نحوست کی کوئی حیثیت نہیں ، اﷲ تعالیٰ نے ہر نفس کو پیدا کیا اور اس کی زندگی ، اس کے مصائب اور اس کی روزی لکھ دی ۔ "( ترمذی ، ابوداؤد ) ۔
    اس حدیث میں رسول کریم نے زمانۂ جاہلیت میں پائے جانے والے بعض غلط عقائد اور خیالات کی تردید کی ہے کہ یہ صحیح نہیں اور اسلامی عقائد کے بالکل خلاف ہیں ۔ ان میں ایک یہ ہے کہ کوئی بیماری بذات خود متعدی اور موثر نہیں کہ وہ کسی پر اثر انداز ہوسکے ، جو بھی ہوتا ہے اﷲ کے فیصلہ اور تقدیر کے مطابق اس کی مشیت سے ہوتا ہے ، ہاں یہ چیز سبب بن سکتی ہے اور اسباب کا پیدا کرنے والا اﷲ تعالیٰ ہی ہے نہ کہ کوئی اور ، پھر بندوں کو اس بات کا حکم دیا گیا اور وہ اس کے مامور ہیں کہ برائی ، ہلاکت اور بیماری کے اسباب سے دور رہیں چنانچہ اسی بناپر طاعون زدہ شہر میں داخل ہونے اور جذامی شخص کے قریب ہونے سے روکا گیا ۔ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا:    " جذامی سے ایسے بھاگو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو۔"
     اس سلسلے میں منع کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص طاعون زدہ شہر میں داخل ہو یاجذامی کے قریب جائے پھر اﷲ کی مشیت اور اس کے فیصلے سے وہ بیمار ہوجائے یا ہلاک ہوجائے تو اس شخص کے یا دوسرے کسی کے عقیدہ میں یہ فتور آسکتا ہے کہ اگر یہ شخص فلاں شہر نہ جاتا یا فلاں بیمار کے قریب نہ جاتا تو نہ بیمار ہوتا اور نہ ہلاک ہوتا ۔ ظاہر ہے یہ تصور اسلامی عقیدہ کے خلاف ہے ۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ موت کا ایک وقت معین ہے جو نہ ایک لمحہ پہلے آسکتی ہے اور نہ ایک لمحہ بعد۔ اسی طرح بیماری اور مصیبت کا دینے والا بھی اﷲ ہی ہے ، جب تک اﷲ کا فیصلہ نہ ہو کوئی شخص بیماری اور مصیبت میں گرفتار نہیں ہوسکتا ، ہاں اس بیماری یا مصیبت میں خود انسان کے اپنے اعمال ، گناہ اور دوسری بہت ساری چیزیں سبب بن سکتی ہیں ۔انسان چونکہ کمزور واقع ہوا ہے ، اس لئے ایسے اسباب کو اختیار کرنے سے خصوصیت کے ساتھ روکا گیا جو اس کے عقیدہ کے بگاڑ کا بھی سبب بنیں ۔
    زمانۂ جاہلیت میں کفارِ مکہ بعض پرندوں سے فال لیتے تھے اور ماہ صفر کو نحوست والا مہینہ سمجھتے تھے ۔ حدیثِ مذکور میں رسول اﷲ نے اس کی تردید فرمائی کہ یہ بات صحیح نہیں۔ کسی وقت اور زمانہ کو برا سمجھنا اور اسے منحوس جاننا اسلامی تعلیمات کیخلاف ہے ۔ آج بھی بہت سارے لوگ ماہ صفر کو منحوس جان کر اس میں شادی بیاہ یا کسی خوشی کی تقریب سے گریز کرتے ہیں ، اسی طرح ماہ محرم کو واقعۂ کربلا اور شہادت حسینؓ کے پس منظر میں غم اور سوگ کا مہینہ تصور کرتے ہیں چنانچہ اس مہینہ میں بھی اور خاص طورپر عاشورۂ محرم کو شادی بیاہ کی تقریب اور محفل نکاح سجانا برا مانتے ہیں جبکہ شرعاً اس کی کوئی حیثیت اور سوگ کا ایسا کوئی تصور نہیں۔ شریعت میں کسی کے انتقال پر سوگ کی مدت صرف3 دن ہے، سوائے بیوہ عورت کے کہ شوہر کے انتقال پر اس کیلئے سوگ کی مدت 4 ماہ10 دن ہے ( یا اگر وہ حاملہ ہوتو وضع حمل )۔ محرم میں سوگ کے طورپر یا ماہ صفر کو منحوس جان کر ان مہینوں میں نکاح سے گریز کرنا ، ایسے نکاح سے بد فالی لینا اوراسے مستقبل میں ناکامی یا ناخوشگوار حالات سے دوچار ہونے والا خیال کرنا اِسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے ، اس بد عقیدگی سے اپنے ذہن و دماغ کو پاک رکھنا از حد ضروری ہے ۔
    عربوں میں نحوست کے تصور کے باوجود ماہ صفر میں نکاح کے حوالے سے کوئی بات نظر سے نہیں گزری البتہ ایک روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماہ شوال میں نکاح کو پسند نہیں کیا جاتا تھا اور اس لفظ کے لغوی معنیٰ کے لحاظ سے بد فالی لی جاتی تھی( اس کے معنی میں ٹوٹ پھوٹ اورلڑائی کیلئے ہتھیار اُٹھانے کا مفہوم شامل ہے )۔ اس خیال کی تردید میں اُم المومنین سیدہ عائشہ ؓ  فرماتی ہیں:    " رسول اﷲنے مجھ سے شوال میں شادی فرمائی ، میری رخصتی بھی شوال میں ہوئی ، پھر رسول اﷲ  کی بیویوں میں مجھ سے زیادہ خوش قسمت کون تھی ؟" ( مسلم )۔
     امام نوویؒ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اہل عرب شوال میں نکاح کرنے کو یا شوال میں رخصتی کراکر دلہن گھر لانے کو برا سمجھتے تھے اور بدفالی لیتے تھے ۔ حضرت عائشہ ؓ  کا مقصد اسی غلط خیال کی تردید ہے کہ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی تو تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ خوش نصیب میں کیوںکر ہوتی ؟۔
     رسول اﷲ   کی حضرت عائشہ ؓسے بے پناہ محبت اسی طرح ان کی دیگر ازواج پر فضیلت بالکل واضح اور ثابت شدہ حقیقت ہے ۔ کیا اس کے بعد بھی ماہ شوال میں شادی منحوس ہوسکتی ہے ؟ اسی روایت میں صراحت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ  اپنے خاندان کی عورتوں کے لئے ما ہ شوال میں شادی پسند کرتی تھیں اور اسی روایت کی بناکر پر بعض اہل علم ماہ شوال میں شادی کو بہتر اور مستحب سمجھتے ہیں ۔    الغرض ماہ صفر کو منحوس سمجھنا یا ماہ محرم کو سوگ کا مہینہ خیال کرنا اور ان میں شادی بیاہ کو برا جاننا ، اس سے بدشگونی لینا کسی طرح جائز نہیں بلکہ ایک حدیث میں بدشگونی کو ’’ شرک ‘‘ تک کہا گیا ۔جس شخص کو بدفالی ، اپنی حاجت سے ( روک دے اور ) واپس لوٹادے اس نے شرک کیا اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ آدمی یوں کہے ( یعنی ایسے موقع پر جب کوئی شخص ناپسندیدہ چیز دیکھے یا بدفالی و بدشگونی کا خیال پیدا ہوتو یہ دُعاء پڑھے)  :  اللّٰہُمَّ لَاطَیْرَاِلَّا طَیْرُکَ،ولاَخَیْرَاِلَّا خَیْرُکَ، وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ( ابوداؤد )۔
    اﷲ تعالیٰ اُمت مسلمہ کے ہر فرد کے عقیدہ و عمل کی اصلاح فرمائے اور رسول اﷲ  کی سنتوں پر چلنے والا بنائے، آمین۔

مزید پڑھیں:- - - - -آبگینوں کا خیال رکھیں

شیئر: