تسنیم امجد ۔ریا ض
مسز شیخ ہماری کا لونی میں ہی رہتی ہیں ۔ہمارا اور ان کا ساتھ کو ئی دس برس پرانا ہے ۔انہی دنو ں کی حقیقت اس سلسلے کے ذریعے آج آپ تک پہنچارہے ہیں۔اکثر سننے کو ملتا ہے کہ اب لوگ با شعور ہو چکے ہیں اور چادر دیکھ کر پا ﺅ ں پھیلانے لگے ہیںلیکن یہ شاید خیال و خواب ہے، حقیقت سے اس کا کو ئی وا سطہ نہیں ۔وقت اس تیزی سے گزر رہا ہے کہ دس سال کو ئی حقیقت نہیں رکھتے۔
شیخ صا حب نے زنانے میں اطلاع دی کہ گا ڑی تیار ہے ۔جس نے بھی آ کر دیکھنا ہے ابھی دیکھ لے پھر مہمان آ نے شروع ہو جائیں گے ۔یہ سنتے ہی سبھی بڑی بو ڑھیا ں ا ٹھ کھڑی ہو ئیں اورمردانہ بیٹھک کی جانب چل دیں۔سب مسز شیخ کو مبارک باد دینے لگیں کہ وہ ہر شے پر ایک سے ایک پیسہ لگا رہی ہیں ۔گا ڑی مو سم کے پھو لو ں سے لدی تھی ۔اندر بھی پھول کی پتیا ں بچھی تھیں ۔بارات کا وقت عشاءکی نماز کے بعد کا تھا ۔دولہا میاں بھی پا ر لر تیار ہو نے گئے تھے ۔سبھی تیاری میں لگی تھیں۔کو شش یہی تھی کہ ایک دوسرے سے با زی لے جائیں ۔
مسز شیخ نہایت فخر سے سب کو بتا رہی تھیں کہ بری میں ایک سو ایک سو ٹ ہیں ۔سبھی ایک سے ایک بڑھ کرہیں ۔جو تے اور پرس تو امریکہ سے منگوائے تھے ۔جیو لری کے ڈیزائن تو انڈیا کے ہیں ۔اس کے لئے تو ہمیں دبئی جا نا پڑا ۔دولہا میاں نے بھی خود اپنی شاپنگ دبئی سے ہی کی ۔
ارے ہم نے بارات پر بر سانے کے لئے سو سو کے نو ٹو ں کی گڈیاں بینک سے منگوا لی ہیں۔ارے بھئی نچھاور کرو تو کسی کے ہاتھ میںاتنا تو آ ئے کہ وہ کچھ لے سکے ۔آ خر شیخ صا حب کے بیٹے کی با رات ہے ۔وہ رعونت سے مسکرائیں ۔مردانے میں گا جر کا حلوہ اور سو ہن حلوہ بڑے بڑے کڑا ہو ں میں بن رہا تھا ۔باراتی سب آ چکے تھے ۔کو ئی ا ڑ ھا ئی سو یا کچھ زیادہ تھے ۔مسز شیخ نے لڑ کی وا لو ں کو تاکید کی تھی کہ بارات کا استقبال اس کے شا یا نِ شان کیا جائے اور ہر باراتی کو تحفہ بھی ضرور دینا ہے ۔اس طرح عزت ہو گی کہ لڑ کا بڑے گھر میں بیا ہاگیا ہے ۔
خو ش قسمتی سے ہمیں بارات میںآ گے آ گے رہنے کی تلقین کی گئی تھی ۔لڑکی وا لو ں نے خوب آ ﺅ بھگت کی ۔کو ئی کسر نہ چھو ڑی ۔واپسی پر ہمارے ہاتھ میں بھی ایک خوبصورت با ریزے کا سو ٹ ،جو ان دنوں بارہ ہزار کی ما لیت میں تھا ،ہر خاتون کو یہی دیا گیا تھا۔ صرف رنگو ں کا امتزاج مختلف تھا ۔لڑ کی کے والدین بھی فا تحانہ انداز میں سب کو الوداع کہہ رہے تھے ۔ہمیں یو ں لگا :
وجود اپنا نہ رو ح اپنی
بس اک تما شا یہ زیست ٹھہری
عجیب چا ہت کے مر حلے ہیں
نہ جیت پا ئے ،نہ ہار پا ئے
کا ش یہ سمجھ میں آ جاتاکہ ” بر کی تلاش مشکل ہے یا بری کی تیا ری ،،ہم اسی گتھی کو سلجھاتے رہے ۔لڑکی اور لڑ کے والے دونو ں ہی اک دوجے پہ بازی لے جانے کی فکر میں تھے ۔سنا ہے رسم و رواج بدل گئے ہیں لیکن ہم نہیں ما نتے ۔ماضی کی طرح بینڈ باجے کے ساتھ دولہا کا گھو ڑے پر بیٹھنابھی ایک شان سمجھا جا تا تھا لیکن آج گا ڑیاں اور ان کے ما ڈل بھی عزت کے زمرے میں آ تے ہیں ۔ناک کٹنے کی فکر اور اسٹیٹس کا بھرم ہی ا ب انسا نو ں کو پر کھنے کا معیار ہے ۔
کچھ عر صے کے بعد سننے کو ملا کہ ان کی بہو نے میکے جا کر یہ شرط رکھ دی کہ وہ سسرال میں نہیںرہے گی۔ اسے الگ گھر چا ہئے کیو نکہ ساس کو دکھاوے اور لینے دینے کی با تو ں سے ہی فر صت نہیں ۔اس کا کہنا ہے کہ انہیں یہی جستجو رہتی ہے کہ میں میکے سے ان کے لئے کیا لے کر آ تی ہو ں۔ہر بات کی ایک حد ہو تی ہے ۔اختلافات کی خلیج کافی وسیع ہو چکی تھی ۔دوسری وجہ یہ بنی کہ جن لڑ کیو ں نے خوب سج بن کہ باراتیوں کا استقبال کیا تھا،ان کے لئے اسے پریشان کیا جانے لگا کہ فلاں کون تھی، اس کا رشتہ کرا دو ۔اس کا کہنا ہے کہ میں اندر تھی، مجھے کیا معلوم کہ کو ن کون باہر تھیں اور انہوں نے کس رنگ کے لباس پہن رکھے تھے ۔میرے انکار پر مجھ سے نا را ضی کا اظہار کیا جاتا جس کی تلخی نا قابلِ بر دا شت ہو تی ۔ تیور چڑ ھا کر منہ پھلا لئے جا تے۔میں نے شو ہر پر بھروسہ کیا تو اس نے بھی ماں کا ہی ساتھ دیا ۔مجھے ایسا لگا میں تنہا کھڑی ہو ں ۔یہی ا حساس شدت سے ہوا کہ :
محبت ریت جیسی تھی ، غلط فہمی مجھے یہ تھی
محبت ڈھیر ساری تھی، میں دو نو ں ہا تھ بھر بھر کر
محبت کو سنبھا لو ں گی، زما نے سے چھپا لو ں گی
کبھی کھو نے نہیں دوں گی،یہ مٹھیا ں بند رکھی تھیں
مگر جب مٹھیاں کھو لیں تو دو نو ں ہا تھ خالی تھے
محبت کے سوالی تھے،محبت ریت جیسی تھی
کاش یہ دکھاوا اور لینا دینا اسٹیٹس سمبل نہ بنے تاکہ شادی کے بعد کے مسائل سر نہ ا ٹھا ئیں ۔نہ جانے اس دکھاوے کے لئے طرفین کوکن کن حالات سے گزرنا پڑتا ہے ۔لڑکے والے کہتے ہیں کہ شادی کون سی بار بار ہونی ہے ۔تو بھی آ جا اور تو بھی آ جا ،بارات اکٹھی کر لی جاتی ہے ۔کیا ہمارا دین اس کی اجازت دیتا ہے ؟
لڑکے والوں کا کہنا ہو تا ہے کہ برادری کے معا ملات بہت نا زک ہو تے ہیں کچھ رشتوں کو انکار نہیں ہو سکتا ۔ما مو ں ،پھو پھی،سسر ساس، بھا بھیاں ان کے والدین اور ان سب کے بچے، سہیلیو ں کی لسٹ،ان کونظر انداز کر نا نا ممکن ہو تا ہے ۔پانچ ستارہ ہو ٹلوں کا کھانا ۔لڑکی والے تو بیچارے پس جا تے ہیں ۔اس سلسلے میں معاشرے سے تعاون کی تو قع ہونی چاہئے۔