کل نفس ذائقتہ الموت ،ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اللہ رب العزت کے وعدے سچے ،اس کے احکام اٹل و ابدی،اس کے ربوبیت ،الوہیت دائمی و لافانی جبکہ باقی ہر چیز فانی ہے۔ یہی ہمارا ایمان اور یہی ہمارا دین ہے۔اس فانی دنیا کو رب کائنات نے عارضی زندگی قرار دیتے ہوئے اسے عمل کی دنیا سے تشبیہ دی ہے اور اپنی مخلوق کو یہ حکم دیا ہے کہ عمل کی اس دنیا میں جو عمل تم کرو گے،اس کی مناسبت سے آخرت میں تمہارا معاملہ کیا جائے گا۔ بحیثیت مسلمان ایک طرف ہم پرلازم ہے کہ ہم اپنے خالق کے احکامات کی پیروی کریں تو دوسری طرف عقل سلیم سے نوازے جانے کے بعد ،اشرف المخلوقات قرار دئیے جانے کے بعد،خیر وشر کا امتیاز ہمیں دینے کے بعد ہم سے یہ توقع بھی رکھی کہ ہم اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے اپنے رب کو پہچانیں اور اس کی بندگی کریں۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمارے بشری تقاضوں کو بھی ہمارے ساتھ کردیا جن سے لڑنے کے بعدہی ہم اس قابل ہوں سکیں کہ اللہ رب العزت کے احکامات کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی بندگی کا حق ادا کر سکیںمگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ یہ اس کی کرم نوازی ہے کہ وہ اپنی رحمت و کریمی سے اپنے بندوں کو معاف فرما دے وگرنہ ہم ہر دوسرے لمحے اس کے احکامات سے روگردانی کرتے ہیں۔
رب کائنات نے کائنات تخلیق کرتے ہوئے ہر ذی روح کے ساتھ رشتے ناطوں کا ایک سلسلہ استوار کر رکھا ہے جن کی موجودگی احساس و قربت کے قرینوں سے سجا رکھی ہے۔ مشکلات ،تنگیاں،سختیاںجانِ ناتواں پر ڈال کراپنی ربوبیت اور بندے کے بندگی کا ایک امتحان اس زندگی میں لیتا ہے اور جو اس آزمائش ،تنگی و سختی میں اس کا شکر گزار رہے،اسے آخرت کی آسانیاں عطا کرتا ہے،جو ابدی زندگی ہے۔ درحقیقت رشتوں کی اہمیت کا احساس مشکل وقت میں ہی ہوتاہے بلکہ رشتہ ہوتا ہی وہ ہے جو مشکل وقت میں بغیر لفظ ادا کئے،مشکل کو سمجھتے ہوئے ازخود ہاتھ تھام کر اس مشکل سے نکالے۔تنگی،سختی،بیماری،مشکلات میں ڈال کر اپنے بندے کی بخشش فرمانا تو اللہ کی ایک مخصوص ادا ہے،بالخصوص جو شخص بیماری کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوا،اس کیلئے تو اللہ کی بے پناہ عنایات ہیں،معافی ہی معافی ہے کہ اس کا بندہ یا بندی اس فانی دنیامیں اپنے گناہ بخشوا گیا بشرطیکہ اس نے بیماری کے دوران بھی اللہ کا شکر ادا کیا۔ ایسی ہی صورتحال میرے ساتھ بھی پیش آئی ۔گزشتہ 3 ہفتوں سے پاکستان میں ہوںاور اپنے ہاتھوں اپنی عزیز ازجان ہمشیرہ کو لحد میں اتارچکا ہوںجو گزشتہ ایک سال سے سرطان کے مرض میں مبتلا رہنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئی،انا للہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تبارک و تعالیٰ اسے اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے اور اس کی اگلی منزلیں آسان فرمائے،آمین۔ سرطان کے مرض سے لڑتے لڑتے چند ایک مواقع پر ہی اسے کمزور پایا ،ہارنا اس نے کب سیکھا تھا؟کم ازکم مجھے یاد نہیں کہ وہ دنیاوی مسائل سے کبھی گھبرائی تھی،ہر مشکل کا سامنا اس نے ہمت سے کیا،یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی دنیاوی رکاوٹ اس کے سامنے بند باندھ سکتی۔ ہر چیزکا متبادل اور بہترین حل اس کے ذہنِ نا رسا میں موجود رہا،گھر کا کوئی بھی کام اس کے مشورے و رضا مندی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ والدین کی رحلت کے بعد ،یہ اسی کی ذات تھی جس نے گھر کو سنبھال رکھا تھالیکن اپنی بیماری کے معاملے میں وہ سدا کی لاپرواہ ،کسی کو کچھ بھی بتانے کیلئے بھی تیار نہ تھی جب تک بیماری نے اس کو نچوڑ نہ لیا۔ وہ ایک عرصے تک مختلف تعلیمی اداروں میں درس تدریس سے منسلک رہی اور بے شمار بچوں کی تعلیم و تربیت میں اپنی خداداد صلاحیت سے علم و اخلاق کے موتی بکھیرتی رہی۔بخدا اللہ کریم نے اس کے ہاتھ میںوہ لذت عطا کی تھی کہ جس نے ایک بار بھی اس کے ہاتھ کا بنا کھاناکھایا ،ساری زندگی اس کا گرویدہ رہا۔ ہمیں اس کے مرض کی خبر اس وقت ہوئی جب پلوں کے نیچے سے پانی گزر چکا تھا۔ سرطان اپنی آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔ شوکت خانم (جو سرطان کی ایک مخصوص حد تک علاج کرتا ہے)نے اس کے علاج سے معذوری ظاہر کردی۔ شوکت خانم کے بعد نجی ہسپتال میں پریکٹس سے اس کا علاج شروع ہواجو ڈاکٹرز بالخصوص ڈاکٹر مصباح مسعود کی ذاتی دلچسپی کے باعث ممکن ہواجو کسی طور بھی مریضہ کو لاعلاج نہیں چھوڑنا چاہتی تھی اور اپنی کوششوں کے علاوہ اللہ کریم سے کسی معجزے کی منتظر تھی۔بعد ازاں طبیعت زیادہ بگڑنے پر ہمشیرہ کا علاج انمول سے جاری رکھا گیا۔سخت ترین علاج کے دوران کبھی ایسا بھی محسوس ہوا کہ جیسے معاملات سنبھل رہے ہیں۔ ہمشیرہ صحتیاب ہو جائیں گی۔ ہم سب اللہ کی طرف سے معجزے کے منتظر تھے کہ وہ تو خالق کائنات ہے جس کیلئے یہ کوئی ایسی بات ہی نہیں کہ کسی کو بستر مرگ سے کامل شفا عطا کر دے یا بھلے چنگے کو لمحوں میں اپنے پاس بلا لے۔ اس کی بارگاہ میں مسلسل صحتیابی کی التجائیں تھیں، جسم کا رواں رواں گڑگڑا رہا تھا ، اس کے کرم کی بھیک مانگ رہا تھا،نم آنکھیں لئے اس کے حضورکھڑے رہتے کہ یا باری تعالیٰ! تیرے خزانوں میں کس چیز کی کمی ہے اور رب کریم کا کرم بھی رہا کہ دلی طور پر اس سخت ترین وقت میں پرسکون رہے۔ ایک اعتماد (جو بندے کی بندگی کا خاصّہ ہے)اللہ کریم پر رہا کہ جو بھی ہو رہا ہے وہ بہتر ہو رہا ہے مگر ہمیں اس کا ادراک نہیں۔بہر کیف اللہ تعالیٰ کے اٹل فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں اور الحمد للہ کہ امانت ،امین کے سپرد کر دی۔9 نومبر کی صبح انمول ہسپتال جانا تھا مگر ہمشیرہ کی حالت ایسی نہ تھی کہ اسے ساتھ لے جایا جاتا۔میں ،چھوٹی بہن اور بھائی (جنہوں نے اس سارے عرصے میں اس کی بھر پور دیکھ بھال کی)ڈاکٹر مصباح کے پاس پہنچے،ڈاکٹر صاحبہ کو ہمشیرہ کی تصاویر دکھائیں تو انہوں نے بڑی آسانی سے کہا کہ اب انہیں لانے کے ضرورت بھی نہیں بلکہ تیز بخار کا علاج کسی مقامی جنرل فزیشن سے کروائیں۔ نقاہت و کمزوری کو ڈرپس لگوا کر پورا کریںکہ وہ اپنی پوری سعی کر چکی اور اب معاملات ان کی رسائی سے باہر جا چکے ہیں۔ بالعموم سرطان کے مریض کو زیادہ سے زیادہ 6کیمومسلسل لگ سکتی ہے ،جس کے بعد مریض کو سنبھلنے کے لئے کم از کم 2سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ یہاں معاملہ اس سے کہیں زیادہ تھا کہ ایک سال کے دوران ڈاکٹر ز نے 14مسلسل کیمو لگوائیںاور کئی مرتبہ اس کے روبہ صحت ہونے کا گمان ہوتا رہا مگر کیمو کے تکلیف دہ عمل کو روک کرادویات کی صورت علاج کے دوران مرض زیادہ شدت کے ساتھ عود آیااور دماغ کو اپنے شکنجے میں لے لیا۔اس حملے نے ہمشیرہ کے ہوش و حواس ضبط کر لئے اور بالکل بستر پر لیٹ کر رہ گئی،اس کی یہ حالت ہم بہن بھائیوں کیلئے کس قدر تکلیف دہ تھی ،بیان سے باہر ہے کہ پورے خاندان کی چہیتی اور گھر کو سنبھالنے والی از خود اٹھنے سے بھی قاصر ہے۔ انمول سے واپسی پر مقامی ڈاکٹر سے رجوع کیا اور انہیں ساری کیفیت بتا کر گھر پہنچے تو دیکھا کہ سانسیں اکھڑی ہوئی ہیں،سانس لینا دشوار تھا،جسم بخار کی حدت سے پھنک رہا تھا،سب بہن بھائیوں نے سورت یٰسین کی تلاوت کی،آب زم زم پر پھونک کر اسے پلایااور ہم دونوں بھائی پھر ڈاکٹر کی طرف چل دئیے ۔ ابھی ڈاکٹر کے پاس بیٹھے بات کر ہی رہے تھے کہ گھر سے فون آ گیا کہ طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے،ہم فوری واپس گھر پہنچے،دیکھا تو نبض رک چکی تھی اور وہ ابدی نیند سو چکی تھی۔ اللہ نے اس پر رحم کر دیا تھا ۔اس کی مشکلات آسان کر دی تھی،اپنی امانت واپس لے لی مگر بہن بھائی کے انمول رشتے کی اہم کڑی ٹوٹ چکی تھی جو باہم ہنسی مذاق،اعتماد اور زندگی بھر کا ساتھ تھا،وہ اختتام تک پہنچ گیا تھا۔