Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلیک ڈے 1947

***محمد مبشر انوار***
وادی جنت نظیر کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ جو سلوک ہندوستان کے ہٹ دھرم،انتہا پسند ہندو حکمرانوں نے روا رکھا ہواہے،وہ عالمی برادری کے تعصب کی بھرپور مثال ہے وگرنہ یہ ممکن نہیں کہ انسانیت کی دہائی دینے والی عالمی برادری ہندوستانی ریاستی دہشت گردی کا لگام نہ ڈال سکے۔تقسیم برصغیر کے ریڈکلف فارمولے کے مطابق مسلم اکثریت والے علاقوں کو پاکستان کا حصہ بننا تھا جبکہ ہندو اکثریت والے علاقے ہندوستان میں شامل ہوتے اور آزاد ریاستوں کے راجاؤں ،مہاراجوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی عوام کی خواہشات کے عین مطابق اپنی ریاست کا الحاق 2نئے ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ کریں۔ اس فارمولے کے مطابق آزاد ریاستوں کے راجوں کا یہ اختیار ایک مخصوص مدت تک کیلئے تھا کہ وہ کسی بھی بد امنی سے بچنے کیلئے کسی ایک ریاست کے ساتھ ملحق ہو جائیں اور اپنی تعمیر وترقی کو ممکن بنائیں۔ ان آزاد ریاستوں میں ایک عجب صورتحال نظر آئی کہ اکثر ہندو ریاستوں کے حکمران ،راجے مسلمان تھے اور مسلم اکثریت کے راجے غیر مسلم(ہندو یا سکھ)تھے۔مسلم ریاستوں کے حکمرانوںنے تو ریڈکلف ایوارڈ کی پاسداری کی اور ہندو اکثریتی رائے کو تسلیم کرتے ہوئے ،اپنی ریاستوں کا الحاق ہندوستان سے کر دیاجبکہ جغرافیائی اعتبار ،ہندوستان سے متصل ریاستوں پر ہندوستان نے جبراً قبضہ کرلیا،گو کہ ان ریاستوں کے حکمران مسلمان تھے۔ ہندوستان کے نزدیک اس کی یہ توجیہ ہی کافی تھی کہ چونکہ ان ریاستوں کا محل وقوع ایسا ہے کہ وہ نہ تو آزاد رہ سکتی ہیں اور نہ ہی ان کا الحاق کسی صورت پاکستان سے ممکن ہے،لہذا انہیں ہندوستان میں ہی ضم ہونا پڑے گاکہ دور حاضر میں آزاد ریاستوں کا قدیم تصور نا پید ہو رہا ہے۔ عالمی برادری ہندوستان کی ان چیرہ دستیوں پر خاموش تائید کرتی رہی مگر کشمیر کے 77%مسلم اکثریتی علاقے میں (جو فطرتاًپاکستان کے اتحادی ہیں)پر ایک ہندو راجہ اور ہندوستانی حکومت کی مکاری پر انسانیت کا دم بھرنے والی عالمی برادری فقط 3 عدد قراردادیں ہی منظور کروا سکی جو آج تک عملدرآمد کی منتظر کشمیری مسلمانوں کابہتا ہوا خون دیکھ رہی ہیں۔ 
وادی کشمیر کے مسلمانوں نے راجہ ہری سنگھ کے امتیازی سلو ک کیخلاف 1931میں ہی احتجاج شروع کر دیا تھا اور انگریز حکمرانوں کی توجہ راجہ ہری سنگھ کے ظلم و نا انصافی کی طرف مبذول کروا دی تھی ۔77%مسلم اکثریتی وادی میں اکثریت بنیادی حقوق سے محروم تھی،مجبور و بے کس مسلمانو ں کو جان بوجھ کر غریب رکھا گیا تھا،انہیں تعلیم کی بنیادی سہولت میسر نہ تھی اور نہ ہی سرکاری نوکریاں میسر تھیں۔تقسیم بر صغیر سے کچھ عرصہ قبل پونچھ سیکٹر کے رہائشی(جنگ عظیم دوئم کے تقریباً6 لاکھ سابقہ فوجی واپس گھروں کو آئے تھے) پر ماسوائے سانس لینے کے ہر چیز پر ٹیکس لاگو تھا جبکہ ہندو و سکھ ڈوگرہ سپاہیوں کو اس ٹیکس کی وصولی پر مامور کیا جاتا تھا۔اگست 1947میں ہی ڈوگرہ فوجیوں اور سپاہیوں نے ’’الحاق پاکستان‘‘کے جلوس پر براہ راست گولیوں کی بوچھاڑ کر دی ۔گاؤں کے گاؤں راکھ کے ڈھیر بنا دئیے گئے اور ہزاروں کی تعدادمیں مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا گیا،ہزاروں کشمیری عورتوں کو اغواء کر لیا گیا،مسلمانوں کی غیر منقولہ جائیداد لوٹ لی گئی اور گھروں کو راکھ بنا دیا گیا۔ 
راجہ ہری سنگھ نے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کا واضح فیصلہ کرنے کی بجائے اپنی حیثیت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔اس فیصلے نے کشمیری مسلمانوں میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑا دی اور وہ سراپا احتجاج بن گئے۔ بالخصوص پونچھ سیکٹر کے تقریباً 60ہزار سے ایک لاکھ افراد نے اپنے اہل و عیال سمیت پاکستان کا رخ کیا تا کہ ان کے اہل و عیال کی حفاظت ممکن ہو سکے اور وہ خود اسلحہ اٹھائے ،مادر وطن کی آزادی کیلئے واپس پہنچ گئے۔ مسلسل احتجاج کے باوجودبھی راجہ ہری سنگھ اپنے عزائم سے باز نہ آیا اور نہ ہی مسلم اکثریت کی بات پر کان دھرنے کیلئے تیار ہوا،تو 24اکتوبر1947کو پونچھ سیکٹر اور میر پور کے کشمیریوں نے قبائلی پٹھانوں کی مدد سے آزاد کشمیر کے نام سے آزاد ریاست کا اعلان کر تے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ پاکستانی قبائلیوں کی مدد سے پونچھ اور میر پور کی اس جرأت رندانہ نے راجہ ہری سنگھ کو ہلا کر رکھ دیا اور فوری طور پر اُس نے ہندوستان سے مدد کی درخواست کر دی۔ اس درخواست کے نتیجے میں ہندوستان اور کشمیر کے درمیان ایک نیا معاہدہ طے پایا جس کے مطابق ہندوستانی افواج کو راجہ ہری سنگھ کی کشمیری عوام کی امنگوں کے خلاف  مدد کرنا تھی۔
26اکتوبر 1947کو طے پانے والے اس سازشی منصوبے میں اس وقت کی ہندوستانی حکومت اور گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن بھی شامل تھے۔ ہندوستانی اطلاعات کے مطابق راجہ ہری سنگھ26اکتوبر کی صبح سری نگر سے روانہ ہوا اور شام کے وقت جموں پہنچ گیاجہاں اس کی ملاقات وزیر اعظم نہرو کے نمائندے وی پی مینن سے ہوئی اور اسی ملاقات میں ہندوستانی فوجی امداد کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں 27اکتوبر کی ملگجی صبح ہندوستانی افواج سری نگر کے ہوائی اڈے پر اترنا شروع ہو گئیںاور انتظامی امور سنبھالنے شروع کر دئیے،بالفاظ دیگر ریاستی دہشت گردی کرتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا گیا۔ حکومت پاکستان نے ہندوستانی افواج کے سری نگر نازل ہونے کو فوری طور پر چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی افواج کا یہ قبضہ کلیتاً فراڈ اور غیر قانونی ہے کہ راجہ ہری سنگھ کسی بھی صورت ایسے کسی معاہدے کو کرنے کا مجاز نہیں کہ اس نے تقسیم کے وقت اپنی حیثیت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بہر کیف اس معاہدے کے نتیجے میں ہند و پاک کی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئیںاور ہندوستان یکم جنوری 1948کو جنگ رکوانے کی خاطر اقوام متحدہ جا پہنچاجہاں کشمیریوں کے بنیادی حق رائے دہی کو تسلیم کرتے ہوئے سیز فائر کی درخواست کی۔ اس سیز فائر کے نتیجے میں ہندوستان جموںو کشمیر اور لداخ جبکہ پاکستان میر پور،مظفر آباد اور گلگت بلتستان کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ 21اپریل1948اقوام متحدہ نے ایک قرارداد (نمبر47)کشمیر یوں کے حق میں پاس کرتے ہوئے کہا کہ’’جموں و کشمیر کا حتمی حل،اقوام متحدہ کے زیر اہتمام کشمیریوں کے کلیتاً فری و غیر جانبدار حق رائے دہی کے نتیجے میں ہوگا ۔ اس حق رائے دہی کیلئے ہند و پاک کوکشمیر سے اپنی اپنی فوجیں نکالنی ہوں گی۔‘‘اس قرارداد کے بعد ایک اور قرارداد اقوام متحدہ میں پاس ہوئی جس میں اس امر پر زور دیا گیا کہ حق رائے دہی یقینی طور پر پر امن ہو گی۔
ریاست جونا گڑھ والا اصول کشمیر پر لاگو کرنے میں ہند بری طرح ناکام ہے ۔ کشمیر کا الحاق ہر دو صورتوں میں خواہ عوامی اکثریت (مسلم اکثریت) یا جغرافیائی اعتبار پاکستان کے ساتھ بنتا ہے۔پوری دنیا میں موجود کشمیری اور پاکستانی 27اکتوبرکا دن کشمیریوں کے ’’بلیک ڈے‘‘ کی صورت میں منا کر نہ صرف ہندوستان بلکہ اقوام عالم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ان کی مجرمانہ خاموشی کی سزا کشمیر کے نہتے و معصوم عوام اپنے خون سے دے رہے ہیں،نیز تحریک آزادی کشمیر کا منطقی و حتمی نتیجہ ہندسے آزادی اور پاکستان سے الحاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ جب تک کشمیر اور کشمیری اپنی آزادی حاصل نہیں کر لیتے،بلیک ڈے ،خود ساختہ اور متعصب انسانیت کے ٹھیکیداروں کے کردار پر کلنک کا ٹیکہ بنا رہے گا۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں